Tafseer-e-Mazhari - Ar-Ra'd : 248
وَ مَنْ یُّهَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِیْرًا وَّسَعَةً١ؕ وَ مَنْ یَّخْرُجْ مِنْۢ بَیْتِهٖ مُهَاجِرًا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ یُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَ قَعَ اَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يُّھَاجِرْ : ہجرت کرے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ يَجِدْ : وہ پائے گا فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مُرٰغَمًا كَثِيْرًا : بہت (وافر) جگہ وَّسَعَةً : اور کشادگی وَمَنْ : اور جو يَّخْرُجْ : نکلے مِنْ : سے بَيْتِهٖ : اپنا گھر مُھَاجِرًا : ہجرت کر کے اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول ثُمَّ : پھر يُدْرِكْهُ : آپکڑے اس کو الْمَوْتُ : موت فَقَدْ وَقَعَ : تو ثابت ہوگیا اَجْرُهٗ : اس کا اجر عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور جو شخص خدا کی راہ میں گھر بار چھوڑ جائے وہ زمین میں بہت سی جگہ اور کشائش پائے گا اور جو شخص خدا اور رسول کی طرف ہجرت کرکے گھر سے نکل جائے پھر اس کو موت آپکڑے تو اس کا ثواب خدا کے ذمے ہوچکا اور خدا بخشنے والا اور مہربان ہے
ومن یہاجر فی سبیل اللہ یجد فی الارض مرغما کثیرا اور جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا اس کو زمین پر بہت سے منتقل ہونے کے مقام مل جائیں گے۔ یا جانے کی بہت جگہ مل جائے گی۔ علی ؓ بن ابی طلحہ کی روایت سے حضرت ابن عباس ؓ کا قول آیا ہے کہ مراغمًا کا معنی ہے منتقل ہونے کی جگہ جہاں منتقل ہو کر جاسکے ‘ یہ لفظ رغام سے مشتق ہے اور رغام کا معنی ہے مٹی۔ بعض علماء نے کہا مراغما یعنی ایسا راستہ مل جائے گا کہ وہ اپنی قوم کی ناک خاک آلود کر دے مطلب یہ ہے کہ ان کی مرضی کے خلاف ترک وطن کر کے چلا جائے۔ اس مطلب پر بھی یہ رغام سے مشتق ہوگا اور رغام کا معنی خاک ہوگا۔ مجاہد نے کہا مراغماً یعنی ناگوار امور سے ہٹنے کا مقام ‘ ابوعبیدہ ؓ نے کہا مراغماً یعنی ہجرت کا مقام۔ بولا جاتا ہے راغَمْتُ قَوْمِی میں نے اپنی قوم کو چھوڑ دیا۔ قاموس میں ہے مراغمت چھوڑ دینا دور ہوجانا مراغم جانے کی جگہ ‘ بھاگنے کی جگہ ‘ پناہ گاہ حرکت کا مقام۔ وسعۃ اور وسعت یعنی رزق میں معاش میں اور بےخوف و خطر ہوجانے اور دین کو ظاہر کرسکنے کی وجہ سینہ میں کشائش۔ بغوی نے لکھا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو قبیلہ بنی لیث کے ایک بہت بوڑھے بیمار شخص نے جس کا نام جندع بن ضمرہ تھا اس کو سن کر کہا خدا کی قسم میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جن کا اللہ نے استثناء کردیا ہے ‘ مجھے تدبیر بھی آتی ہے اور میرے پاس اتنا مال بھی ہے کہ میں مدینہ تک بلکہ مدینہ سے بھی دور پہنچ سکتا ہوں بخدا آج رات میں مکہ میں نہیں گزاروں گا۔ مجھے مکہ سے باہر نکال لے چلو چناچہ ایک چارپائی پر ڈال کر لوگ اٹھا کر مکہ سے تنعیم تک لے آئے ‘ تنعیم میں پہنچ کر اس کا پیام موت آگیا تو تالی بجا کر بولا۔ اے اللہ ! یہ تیرے اور تیرے رسول ﷺ کے لئے ہے ‘ میں تجھ سے وہی عہد کرتا ہوں جو تیرے رسول : ﷺ نے تجھ سے کیا ہے ‘ اس کے بعد اس کا انتقال ہوگیا اس کی اطلاع حضور : ﷺ کو پہنچی تو صحابہ ؓ نے کہا اگر وہ مدینہ تک پہنچ جاتا تو اس کا ثواب بالکل پورا اور کامل ہوجاتا۔ مشرک یہ حالت دیکھ کر ہنسنے اور کہنے لگے اس کا مقصد پورا نہ ہوا۔ ابن ابی حاتم اور ابو یعلی نے عمدہ سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ کا بیان نقل کیا ہے کہ ضمرہ بن جندب اپنے گھر سے ہجرت کر کے نکلا اور گھروالوں سے کہا مجھے سواری پر بٹھا دو اور شرکستان سے نکال کر رسول اللہ : ﷺ تک پہنچا دو (لوگ لے چلے) مگر وہ راستہ میں ہی مرگیا۔ رسول اللہ : ﷺ تک نہ پہنچ سکا اس پر آیت نازل ہوئی۔ ومن یخرج من بیتہ مہاجرا الی اللہ ورسولہ ثم یدرکہ الموت فقد وقع اجرہ علی اللہ : اور جو شخص اپنے گھر سے اس نیت سے نکل کھڑا ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ : کی طرف (یعنی جہاں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہو) ہجرت کروں گا پھر اس کو موت آپکڑے تب بھی اس کا ثواب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہوگیا۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول نے ترک وطن کر کے جہاں جانے کا حکم دیا ہے اگر وہاں جانے کے لئے وہ نکل کھڑا ہوا پھر مقام ہجرت تک پہنچنے سے پہلے اس کو موت آجائے تو اللہ کے ذمے اس کا ثواب واجب ہوگیا۔ وقوع بمعنی وجوب ہے یعنی اللہ کے وعدہ کی وجہ سے اس کا اجر لازم ہوگیا واقع میں تو اللہ پر کوئی چیز واجب نہیں (کیونکہ مخلوق کا اللہ پر کوئی استحقاق نہیں نہ اللہ عاجز ہے کہ اس پر کسی کا حق واجب ہو اور وہ ادا کرنے پر مجبور ہو) وکان اللہ غفورا رحیما اور اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ ابوضمرہ زرقی ایک نابینا مکہ میں رہتا تھا۔ جب آیت : الا المستضعفین نازل ہوئی تو اس نے کہا حکم مجھے پہنچ گیا اور میں صاحب استطاعت ہوں یہ کہہ کر اس نے رسول اللہ ﷺ تک پہنچنے کی تیاری کرلی (اور روانہ ہوگیا) تنعیم تک پہنچا تھا کہ موت آپہنچی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن جریر ؓ نے بھی یہ قصہ سعید بن جبیر ؓ اور عکرمہ اور قتادہ اور سدی اور ضحاک وغیرہ کی روایت سے لکھا ہے لیکن مختلف روایات میں نام کا اختلاف ہے۔ کسی میں ضمرہ بن عیص کسی میں عیص بن ضمرہ کسی میں جندب بن ضمرہ جندعی کسی میں ضمری ‘ کسی میں بنی ضمرہ کا ایک شخص کسی میں بنی خزاعہ کا ایک آدمی ‘ کسی میں بنی لیث کا کسی میں بنی کنانہ کا اور کسی میں بنی بکر کا ایک شخص آیا ہے۔ ابن سعد ؓ نے طبقات میں یزید بن عبداللہ بن قسیط کی روایت سے لکھا ہے کہ جندع بن ضمیرہ (ضمری جندعی) مکہ میں تھا اس نے اپنے لڑکوں سے کہا مجھے مکہ سے باہر لے چلو یہاں کی فکر مجھے کھائے جاتی ہے لڑکوں نے کہا کہاں اس نے ہاتھ سے مدینہ کی طرف اشارہ کیا۔ مقصد تھا مدینہ کو ہجرت کرنا۔ لڑکے اس کو لے چلے اضاء ۃ بنی عمارہ میں پہنچے تو اس کا انتقال ہوگیا اور اللہ نے اس کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی۔ ابن ابی حاتم ‘ ابن مندہ اور باوردی نے ہشام بن عروہ کی روایت سے حضرت زبیر بن عوام کا قول نقل کیا ہے کہ خالد بن ہشام حبشہ کو ہجرت کرنے کے ارادہ سے چل دیئے ‘ راستہ میں سانپ نے کاٹ لیا اور ان کا انتقال ہوگیا۔ انہی کے متعلق اس آیت کا نزول ہوا۔ اموی نے مغازی میں عبدالملک بن عمیر کی روایت سے لکھا ہے کہ اکتم بن صیفی کو جب رسول اللہ ﷺ : کی بعثت کی اطلاع ملی تو اس نے خدمت گرامی میں حاضر ہونے کا ارادہ کیا مگر قوم والوں نے (اس کی کمزوری اور پیری کی وجہ سے) جانے کی اجازت نہیں دی ‘ اکتم نے کہا تو کوئی آدمی ایسا ہونا چاہئے جو میرا پیام ان کو اور ان کا پیام مجھے پہنچا دے۔ اس پر دو آدمیوں نے ذمہ لے لیا اور دونوں نے رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ہم اکتم بن صیفی کے قاصد ہیں اکتم نے آپ سے پوچھا ہے کہ آپ کون ہیں ‘ آپ کی کیا حالت ہے اور کیا (تعلیم) آپ لائے ہیں ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں عبداللہ کا بیٹا محمد ﷺ ہوں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں پھر آپ نے آیت اِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ ۔۔ تلاوت فرمائی قاصد لوٹ کر اکتم کے پاس گئے اور یہ بات کہہ دی۔ اکتم نے کہا ‘ قوم والو وہ اعلیٰ خصائل کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے بازدشت کرتے ہیں ‘ اس معاملہ میں تم سربنجا و دم نہ بنو (یعنی سب سے پہلے ایمان لے آؤ ایسا نہ ہو کہ اور لوگ سبقت کر جائیں اور تم پیچھے رہ جاؤ) یہ کہہ کر اونٹ پر سوار ہو کر مدینہ کا رخ پکڑ لیا لیکن راستہ میں انتقال ہوگیا۔ اسی کے متعلق اس آیت کا نزول ہوا۔ یہ روایت مرسل ہے اس کی سند ضعیف ہے۔ ابو حاتم نے کتاب المعمرین میں دو طریقوں سے بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے متعلق دریافت کیا گیا آپ نے فرمایا اس کا نزول اکتم بن صیفی کے متعلق ہوا تھا۔ لوگوں نے کہا تو لیثی کہاں گیا (یعنی اس آیت کا نزول تو قبیلۂ بنی اللیث کے ایک آدمی کے سلسلہ میں ہوا تھا) فرمایا یہ تو لیثی سے ایک مدت پہلے کا واقعہ ہے۔ یہ آیت (سبب نزول کے ساتھ) خاص بھی ہے اور (حکم کے اعتبار سے) عام بھی ہے۔ فائدہ : علماء کا قول ہے کہ اگر طلب علم یا حج یا جہاد یا پاکیزہ رزق کی کمائی کے لئے یا ایسے شہر میں جانے کے لئے جہاں طاعت ‘ قناعت اور زہد میں ترقی ہو سکے ہجرت کرے گا اور راستہ میں موت آجائے گی تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہوجائے گا۔ ابن جریر نے حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کی روایت سے لکھا ہے کہ بنی نجار کے کچھ لوگوں نے خدمت گرامی میں عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم سفر پر جاتے ہیں ‘ نماز کس طرح پڑھیں اس پر آیت ذیل کا نزول ہوا۔
Top