Tafseer-e-Mazhari - Az-Zukhruf : 5
اَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا اَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِیْنَ
اَفَنَضْرِبُ : کیا بھلا ہم چھوڑ دیں عَنْكُمُ الذِّكْرَ : تم سے ذکر کرنا صَفْحًا : درگزر کرتے ہوئے۔ اعراض کرنے کی وجہ سے اَنْ كُنْتُمْ : کہ ہو تم قَوْمًا : ایک قوم مُّسْرِفِيْنَ : حد سے بڑھنے والی
بھلا اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوئے لوگ ہو ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے
افنضرب عنکم الذکر صفحا ان کنتم قوما مسرفین کیا ہم تم سے اس نصیحت (نامہ) کو اس بات پر ہٹا لیں گے کہ تم (کفر میں) حد سے آگے بڑھنے والے لوگ ہو ؟ اَفَنَضْرِبُ ہمزۂ استفہامیہ انکاری ہے۔ ضَربْتُ عنہ اور اَضَربْتُ عنہ میں نے اس کو چھوڑ دیا ‘ میں اس سے رک گیا۔ صَفْحًا مفعول مطلق من غیر لفظہ ہے۔ پہلو پھیرنے کا معنی ہے دور ہوجانا ‘ روگرداں ہوجانا۔ صفحٌ کا لغوی معنی ہے گردن کا ایک پہلو کسی کی طرف کردینا (یعنی گردن پھیرلینا) ۔ اَنْ کُنْتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِیْنَ کافروں کا حد سے تجاوز کرنا۔ حقیقت میں ترک اعراض کا مقتضی ہے ‘ لیکن اس جگہ اسراف کفار کو موجب اعراض قرار دے کر اس پر ہمزۂ انکاریہ داخل کردی گئی ‘ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اس وجہ سے تم کفر میں بہت آگے بڑھ گئے ہو۔ ہم وحی بھیجنا چھوڑ دیں گے اور قرآن کو نازل کرنا ترک کردیں گے اور تم کو اچھے کاموں کا حکم نہیں دیں گے اور بری باتوں سے بازداشت نہیں کریں گے۔ بغوی نے قتادہ کا تفسیری بیان نقل کیا ہے کہ ابتداء وحی کے زمانہ کے کافروں نے جب قرآن کو ماننے سے انکار کردیا تھا ‘ اگر اسی زمانہ میں قرآن اٹھا لیا جاتا تو سب لوگ ہلاک ہوجاتے ‘ لیکن اللہ نے اپنی رحمت و مہربانی سے بیس سال تک ‘ یا جب تک اس نے چاہا قرآن کو نازل کیا اور ارسال وحی کو قائم رکھا۔ مجاہد اور سدی نے آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے : کیا ہم تم سے روگرداں ہوجائیں گے اور تم کو بغیر سزائے کفر کے یونہی چھوڑ دیں گے۔
Top