Baseerat-e-Quran - Al-Maaida : 20
وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ
وَلَمَّا جَآءَ : اور جب لائے عِيْسٰى : عیسیٰ بِالْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیاں قَالَ : اس نے کہا قَدْ جِئْتُكُمْ : تحقیق میں لایاہوں تمہارے پاس بِالْحِكْمَةِ : حکمت وَلِاُبَيِّنَ : اور تاکہ میں بیان کردوں لَكُمْ : تمہارے لیے بَعْضَ الَّذِيْ : بعض وہ چیز تَخْتَلِفُوْنَ فِيْهِ : تم اختلاف کرتے ہو جس میں فَاتَّقُوا اللّٰهَ : پس ڈرو اللہ سے وَاَطِيْعُوْنِ : اور اطاعت کرو میری
یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ان نعمتوں کو یاد کرو جو اللہ نے تمہیں بخشی ہیں۔ جب کہ تمہاری قوم میں بہت سے نبی پیدا کئے اور تمہیں حکمران بنایا تھا۔ اور تمہیں وہ سب کچھ بخشا تھا جو تمام عالم میں کسی قوم کو نہ دیا گیا تھا۔
آیت نمبر 20 تا 26 لغات القرآن : ملوک (ملک) ۔ بارشاہ۔ حکمراں۔ اتکم (اس نے تمہیں دیا) ۔ لم یؤت (نہیں دیا) ۔ احد (کسی ایک کو) الارض المقدسۃ (پاک زمین۔ (سر زمین شام فلسطین) ۔ لاترتدوا (ارتداد۔ رد) تم نہ پلٹو) ۔ ادبار (دبر) ۔ پیٹھ۔ تنقلبوا (تم پلٹ جاؤ گے۔ تم ہوجاؤ گے) ۔ جبارین (جبار) ۔ زبردست۔ طاقت ور) ۔ لن ندخل (ہم ہرگز داخل نہ ہوں گے) ۔ حتی یخرجوا (جب تک وہ نہ نکلیں) ۔ رجلان (رجل) ۔ دو مرد۔ دو آدمی) ۔ یخافون (وہ خوف رکھتے ہیں) ۔ انعم اللہ (اللہ نے انعام کیا تھا) ۔ الباب (دروازہ) ۔ دخلتموہ (تم داخل ہوگے اس میں) ۔ غلبون (غلبہ پانے والے۔ غالب آنے والے) ۔ ابدا (ہمیشہ۔ کبھی بھی) ۔ داموا (وہ ہیں) ۔ اذھب (تو چلا جا) ۔ قاتلا (تم دونوں لڑلو) ۔ ھھنا (اسی جگہ) ۔ لا املک (میں مالک نہیں ہوں) ۔ نفسی (میری جان) ۔ اخی (میرا بھائی) ۔ افرق (جدائی کر دے) ۔ بیننا (ہمارے درمیان) ۔ قوم الفاسقین (نافرمان قوم) ۔ محرمۃ (حرام کردی گئی) ۔ اربعین (چالیس) ۔ سنۃ سال) ۔ یتیھون (وہ بھٹکے رہیں گے۔ گھومتے رہیں گے) ۔ لاتاس (تو افسوس نہ کر) ۔ تشریح : ابھی ابھی کہا گیا ہے کہ ہمارا نبی ﷺ ان رازوں پر سے پردہ اٹھاتا ہے جن کو بنی اسرائیل عرصہ دراز سے چھپائے ہوئے تھے۔ وہ پردہ اس مقصد سے نہیں اٹھا رہے ہیں کہ بنی اسرائیل کو ذلیل کرنا مقصود ہے کیونکہ کہ وہ بہت سے رازوں سے چشم پوشی بھی کر رہے ہیں۔ پردہ اٹھانے کا ایک ہی مقصد ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو وضاحت سے بیان کیا جائے۔ اسلام کی تعلیمات میں جہاد سب سے اہم ہے۔ یہاں جہاد کا وہ واقعہ پیش کیا جاتا ہے جو حضرت موسیٰ کے زمانے میں بنی اسرائیل کو پیش آیا۔ جس سے وہ کترا گئے تھے۔ چناچہ اللہ کا غضب آگیا۔ اس واقعہ کو پیش کرنے سے نہ صرف بنی اسرائیل کی پست ہمتی ، بزدلی اور جہاد چوری پر سے پردہ اٹھایا جا رہا ہے بلکہ مسلمانوں کو بھی عبرت اور نصیحت کے لئے فریضہ جہاد سے بھاگنے کا انجام بتایا جا رہا ہے۔ یہ تبلیغ دین کا ایک انداز ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جہاد کا حکم دینے سے پہلے بنی اسرائیل کو یہ سمجھا دیا تھا کہ اے قوم اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نعمتوں کو یاد کرو۔ وہ نعمتیں جو کسی اور قوم کو اب تک نہیں ملی ہیں۔ یاد کرو فرعون نے تم سے کیا ذلیل سلوک کر رکھا تھا۔ پھر اللہ نے فرعون اور اس کے تمام لشکر کو تمہارے سامنے ڈبو کر تمہیں سلطنت مصر بخشی۔ تمہارے اندر اتنے پیغمبر بھیجے کہ کسی اور قوم میں نہیں بھیجے تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) ، حضرت داؤد (علیہ السلام) ، حضرت سلیمان (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر حکمراں تمہارے اندر آئے۔ من وسلویٰ کی نعمتیں تمہیں ملیں۔ تمہارے ہی لیے پتھر سے پانی نکالا گیا۔ اور بادل کا سایہ کرکے دھوپ سے نجات عطا کی گئی وغیرہ وغیرہ۔ اے میری قوم ! اللہ تمہیں ایک اور نعمت سے نواز نے کا وعدہ کرچکا ہے۔ وہ یہ کہ ملک شا، فلسطین بھی تمہارے ہی قبضہ میں آجائے گا۔ شرط یہ ہے کہ تم جہاد کیلئے آگے بڑھو اور بنی عمالقہ سے بھڑ جاؤ جو وہاں قابض ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی عمالقہ کے جنگی حالات دریافت کرنے کے لئے بارہ جاسوس اس ہدایت کے ساتھ پیشگی روانہ کر دئیے تھے کہ جو بھی وہاں دیکھوآکر مجھے ہی بتانا۔ کسی اور کو نہیں۔ جب وہ چالیس دن بعد واپس آئے تو ان میں سے دس نے تمام قوم والوں کو بتا دیا کہ بنی عمالقہ بڑے شہ زور اور لمبے چوڑے خطرناک لوگ ہیں اور ان کے ایک ہی فرد عوج بن عبق نے ہم سب کو گرفتار کرلیا تھا۔ یہ سن کر بنی اسرائیل ڈر گئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ہزار ترغیب اور تحریص کے باوجود انہوں نے بنی عمالقہ کے خلاف جہاد کرنے سے انکار کردیا بلکہ حد سے بڑھ کر یہاں تک کہہ دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) ! تم اور تمہارا رب جا کر جنگ کرلو ہم یہیں بیٹھے ہیں۔ فتح کے بعد ہمیں بلالینا۔ اس ذلیل اور پست جواب کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو غصہ آجانا چاہئے تھا لیکن پیغمبر ہونے کی حیثیت سے انہیں اپنے جذبات پر پورا قابو تھا۔ بس اتنا ہی کہا کہ اے اللہ میرا زور تو صرف مجھ پر اور میرے بھائی پر چلتا ہے (بھائی سے حقیقی بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) بھی مراد ہیں اور دینی بھائی حضرت یوشع بن نون اور حضرت کالب بن یوقنا یعنی وہ سردار جنہوں نے بنی عمالقہ کی بات میں آکر صرف حضرت موسیٰ کو بتائی تھی اور جنہوں نے قوم کو یہ کہہ کر جہاد پر اکسایا تھا کہ تم قلعہ کے دروازے تک تو چلو۔ فتح تمہاری ہوگی یہ (اللہ کا وعدہ ہے) حضرت موسیٰ نے یہ بھی کہا کہ اے اللہ ہم میں اور بقیہ قوم میں جدائی ڈال دے۔ فاسق نافرمان لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اب سزا کے طور پر یہ قوم چالیس سال تک سر زمین شام و فلسطین فتح نہ کرسکے گی۔ بلکہ وادی تیہ میں حیران و سرگرداں ماری ماری پھرے گی۔ ان کی سزا یہی ہے۔ اے موسیٰ ! ان کی بدنصیبی پر ترس مت کھانا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ یہ لوگ صبح صبح مصر پہنچنے کے لئے روانہ ہوئے۔ لیکن راستہ بھول کر شام کو پھرو ہیں پہنچ جاتے تھے۔ جہاں سے صبح کو روانہ ہوئے تھے۔ تمام دوپہر بھوک پیاس اور گرمی میں تڑپتے۔ اس طرح پورے چالیس سال گرز گئے۔ اس عرص میں تقریباً وہ سب بنی اسرائیل والے مرکھپ گئے تھے جو مصر سے حضرت موسیٰ کے ساتھ آئے تھے۔ البتہ ان کی نئی نسل نوجوان ہو رہی تھی۔ جن پر دین کی محنت کی جا رہی تھی اسی دوران میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کا بھی انتقال ہوگیا۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے بعد پیغمبری حضرت یوشع بن نون کو ملی۔ ان کے دور میں بنی اسرائیل کی جوان نسل نے حضرت یوشع (علیہ السلام) کی سرکردگی میں سرزمین شام و فلسطین فتح کیا اور بنی اسرائیل کی حکومت قائم کی۔ اور اس طرح اللہ کا وعدہ پورا ہوا
Top