Tafseer-e-Mazhari - Al-Hadid : 29
لِّئَلَّا یَعْلَمَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَلَّا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ مِّنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَ اَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۠   ۧ
لِّئَلَّا يَعْلَمَ : تاکہ نہ جان پائیں اَهْلُ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اَلَّا يَقْدِرُوْنَ : کہ نہیں وہ قدرت رکھتے عَلٰي شَيْءٍ : اوپر کسی چیز کے مِّنْ فَضْلِ اللّٰهِ : اللہ کے فضل سے وَاَنَّ الْفَضْلَ : اور بیشک فضل بِيَدِ اللّٰهِ : اللہ کے ہاتھ میں ہے يُؤْتِيْهِ : دیتا ہے اس کو مَنْ يَّشَآءُ ۭ : جس کو چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ : بڑے فضل والا ہے
(یہ باتیں) اس لئے (بیان کی گئی ہیں) کہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ خدا کے فضل پر کچھ بھی قدرت نہیں رکھتے۔ اور یہ کہ فضل خدا ہی کے ہاتھ ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور خدا بڑے فضل کا مالک ہے
لئلا یعلم اھل الکتب الا یقدرون علی شی ءٍ من فضل اللہ وان الفضل بید اللہ یوتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم . ”(یہ عنایت اس لیے کرے گا) تاکہ اہل کتاب کو یہ بات معلوم ہوجائے کہ ان کو اللہ کے فضل کے کسی حصہ پر بھی دسترس نہیں ہے اور یہ کہ فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہے عطا فرما دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ “ لِّءَلاَّ یَعْلَمَ : تاکہ اہل کتاب جان لیں۔ لا (نافیہ) زائد ہے۔ اَلاَّ یَقْدِرُوْنَ : یعنی اہل کتاب جان لیں کہ اللہ کی مشیت کے بغیر اللہ کے فضل کا کوئی حصہ اپنے اختیار سے وہ حاصل نہیں کرسکتے۔ آیت کی یہ تشریح جو قتادہ سے مروی ہے اس روایت کے مطابق ہے جو طبرانی نے حضرت ابن عباس کی طرف اور ابن ابی حاتم نے مقاتل کی طرف منسوب کی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور مقاتل نے کہا کہ آیت : یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ میں اہل کتاب کو خطاب نہیں بلکہ تمام مؤمنوں کو ہے۔ بغوی نے قتادہ کا بیان نقل کیا ہے کہ ان اہل کتاب نے جو رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہیں لائے تھے ‘ مسلمان ہوجانے والے اہل کتاب پر حسد کیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ہم اللہ کی اولاد اور اس کے چہیتے اور منتخب کردہ ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت : لِّءَلاَّ یَعْلَمَ اَھْلُ الْکِتٰبِ نازل فرمائی اور فرما دیا کہ پیغمبروں پر چونکہ وہ ایمان نہیں لائے اس لیے کسی قسم کا اجر وثواب ان کو نہیں ملے گا کیونکہ ہر اجر ایمان کے ساتھ وابستہ ہے ایمان نہیں تو کوئی ثواب نہیں۔ یہ تشریحی بیان اہل تفسیر کے اس قول کے مناسب ہے کہ آیت میں یہودیوں اور عیسائیوں کو خطاب ہے۔ بعض اہل علم نے کہا کہ لّءَلاَّ یَعْلَمَ میں لا زائد نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب یہ نہ سمجھ لیں اور یہ عقیدہ نہ رکھیں کہ رسول اللہ ﷺ اور مسلمان اللہ کے فضل کو نہیں پاسکتے۔ ابن المنذر نے بروایت مجاہد نیز بغوی نے بیان کیا ہے کہ اہل کتاب کا عقیدہ تھا کہ وہ اللہ کے بیٹے اور چہیتے اور پسندیدہ محبوب ہیں ‘ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ اللہ کے فضل کے کسی حصہ پر قدرت نہیں رکھتے ‘ ان کو اجر وثواب بالکل نہیں ملے گا کیونکہ اللہ کے پیغمبروں پر وہ ایمان نہیں لائے اور ہر اجر ایمان کے ساتھ وابستہ ہے۔ حضرت علی کی طرف اس روایت کی نسبت کی گئی ہے کہ یہودی کہتے تھے کہ عنقریب ہم میں ایک نبی مبعوث ہوگا جو ان (مسلمانوں) کے ہاتھ پاؤں کاٹے گا ‘ اس کی تردید میں اللہ نے فرمایا : ہاتھ پاؤں کاٹنا تو درکنار ان کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ یہ اللہ کے فضل یعنی نبوت پر کچھ قدرت نہیں رکھتے۔ نبوت عطا کرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ اپنے فضل سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے۔ بخاری نے صحیح میں حضرت ابن عمر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہاری مدت گزشتہ امتوں کی مدت کے مقابلہ میں اتنی ہے جتنا عصر سے مغرب تک کا وقت ہوتا ہے۔ تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے مزدوروں سے کچھ کام کرانا چاہا اور کہا : ایک ایک قیراط مزدوری پر دوپہر تک میرا کام کون کرسکتا ہے ؟ یہودیوں نے ایک ایک قیراط پر دوپہر تک کام کیا پھر کام کرانے والے نے کہا : اب دوپہر سے عصر تک ایک ایک قیراط مزدوری پر کون کام کرسکتا ہے ؟ یہ سن کر نصاریٰ نے ایک ایک قیراط پر دوپہر سے عصر تک کام کیا ‘ پھر کام کے طلبگار نے کہا : اب عصر سے مغرب تک دو دو قیراط پر اجرت پر کون کام کرسکتا ہے ؟ سن لو تم ہی وہ لوگ ہو جو نماز عصر سے مغرب تک کام کرنے والے ہو۔ آگاہ ہوجاؤ تمہاری اجرت دوگنی ہوگی۔ اس اعلان پر یہودی اور عیسائی ناراض ہوگئے۔ انہوں نے کہا : ہم کام تو زیادہ کرنے والے ہیں اور اجرت کم پائیں گے۔ اللہ نے فرمایا : کیا میں نے (تمہارا کچھ حق کاٹ کر) تم پر ظلم کیا ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا : نہیں ! اللہ نے فرمایا : پس یہ میرا فضل ہے ‘ میں جس کو چاہتا ہوں دیتا ہوں۔ بخاری نے حضرت ابو موسیٰ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں کی اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے کچھ لوگوں کو صبح سے شام تک کام کرنے کے لیے ایک مقررہ اجرت پر لگایا۔ ان لوگوں نے دوپہر تک کام کیا پھر کہا جو اجرت آپ نے مقرر کی ہے ہم کو اس کی ضرورت نہیں (آئندہ ہم کام نہیں کریں گے) آپ کی یہ شرط (یعنی تقرر اجرت) غلط ہے۔ کام لینے والے نے کہا : تم باقی کام پورا کر دو اور اپنی پوری مزدوری لے لو لیکن انہوں نے انکار کردیا اور کام چھوڑ دیا۔ ان کے بعد کام کرانے والے نے کچھ اور لوگ مزدوری پر رکھے اور کہا : آج دن کا باقی تمام کام تم پورا کر دو ‘ تم کو طے شدہ مزدوری ملے گی (ان لوگوں نے کام شروع کردیا) ۔ یہاں تک کہ عصر کا وقت آگیا یعنی عصر کی نماز کا وقت ہوگیا۔ تو (وہ بھی کام چھوڑ بیٹھے اور) کہنے لگے : ہم نے جو کام کیا وہ یونہی بےمزدوری ہوا ‘ جو اجرت آپ نے مقرر کی تھی وہ آپ ہی اپنے پاس رکھیں کام کرانے والے نے کہا اپنا باقی کام پورا کر دو دن کا تھوڑا ہی حصہ تو رہ گیا ہے لیکن انہوں نے انکار کردیا آخر مالک نے کچھ اور لوگوں کو مزدوری پر بلوایا کہ دن کے باقی حصہ میں کام کردیں۔ چناچہ انہوں نے باقی وقت کام کردیا اور (اوّل الذکر) دونوں فریقوں کی پوری مزدوری لے لی۔ پس یہ مثال ہے ان لوگوں کی اور اس نور کو قبول کرنے کی ‘ واللہ اعلم۔ میں کہتا ہوں حضرت ابن عمر ؓ کی بیان کردہ حدیث میں ان یہودیوں اور عیسائیوں کا ذکر ہے جنہوں نے اپنی اپنی شریعت کے منسوخ ہونے سے پہلے اللہ کے حکم پر محمل کیا تھا ‘ ان کو وعدہ کے مطابق اللہ اجر عطا فرمائے گا۔ حضرت ابو موسیٰ کی روایت میں جن یہودیوں اور عیسائیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان سے مراد وہ یہودی ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ پر ایمان لانے سے انکار کردیا تھا اور وہ عیسائی مراد ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو نہیں مانا اور اللہ کے حکم کو چھوڑ دیا۔ اللہ نے ان سے پختہ وعدہ لے لیا تھا کہ جب تمہارے پاس (ہمارا) رسول پہنچے جو تمہاری کتابوں کو سچا بتائے تو تم اس پر ضرور ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا۔ پس ایسے کافر اہل کتاب کے لیے کوئی اجر نہیں ‘ ان کے سارے اعمال اکارت جائیں گے۔ دونوں حدیثوں میں امت اسلامیہ کے لیے بشارت ہے کہ گزشتہ امتوں کے نیکو کار لوگوں کو ان کی نیکیوں کا جتنا ثواب دیا جائے گا تم کو اس سے دوگنا دیا جائے گا ‘ یہ بھی خوشخبری ہے کہ قیامت تک تم حق پر رہو گے۔ حضرت معاویہ ؓ نے کہا : میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا کہ میری امت میں سے کچھ لوگ ہمیشہ اللہ کے حکم پر کاربند رہینگے ‘ کوئی انکی مدد نہ کرے اور کوئی انکی مخالفت کرے انکا کچھ بگاڑ نہ ہوگا۔ اسی حالت میں اللہ کا حکم (یعنی روز قیامت) آجائیگا۔ ( متفق علیہ) ابوداؤد ‘ ترمذی اور نسائی نے لکھا ہے کہ حضرت عرباض ؓ بن ساریہ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ سونے سے پہلے مسبحات (وہ سورتیں جن کو سَبَّحَ اور یُسَبِّحَ اور سَبِّح سے شروع کیا گیا ہے) پڑھتے اور فرماتے تھے۔ ان میں ایک آیت ایسی ہے جو ہزار آیتوں سے بہتر ہے ‘ میں کہتا ہوں شاید وہ آیت تسبیح ہے۔ نسائی (رح) نے معاویہ ؓ کا قول موقوفاً بیان کیا ہے کہ مسبحات سورت حدید ‘ سورت حشر ‘ سورت صف ‘ سورت جمعہ ‘ سورت تغابن اور سورة اعلیٰ ہیں۔ میں کہتا ہوں مسبحات میں سے سورت بنی اسرائیل بھی ہے لیکن معاویہ ؓ نے اس کا ذکر نہیں کیا بلکہ ترمذی ‘ نسائی اور حاکم نے تو حدیث کے یہ الفاظ نقل کیے : و حتی یقرأ بنی اسرائیل و الزمر “ سونے سے پہلے رسول اللہ ﷺ سورت بنی اسرائیل اور سورت الزمر بھی پڑھتے تھے۔ والحمد اللہ سورة الحدید کی تفسیر ختم ہوئی
Top