Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 21
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖ١ؕ اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : سب سے بڑا ظالم مِمَّنِ : اس سے جو افْتَرٰي : جو بہتان باندھے عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ كَذِبًا : جھوٹ اَوْ كَذَّبَ : یا جھٹلائے بِاٰيٰتِهٖ : اس کی آیتیں اِنَّهٗ : بلاشبہ وہ لَا يُفْلِحُ : فلاح نہیں پاتے الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہے جس نے خدا پر جھوٹ افتراء کیا یا اس کی آیتوں کو جھٹلایا۔ کچھ شک نہیں کہ ظالم لوگ نجات نہیں پائیں گے
ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا اور جس نے اللہ پر دروغ بافی کی اس سے زیادہ بےانصاف کون ہوگا۔ یعنی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اور باوجودیکہ اس کے پاس اللہ نے وحی نہیں بھیجی مگر وہ وحی کا مدعی بن بیٹھا۔ او کذب بایتہ یا اللہ کی آیات کی اس نے تکذیب کی۔ یعنی قرآن میں اللہ نے جو آیات نازل فرمائی ہیں اور معجزات جو توحید پر دلالت کرتے ہیں اور رسول کی صداقت ان سے ثابت ہوتی ہے ان کو نہیں مانا۔ استفہام انکاری ہے یعنی ایسے شخص سے بڑھ کر کوئی ناانصاف نہیں (ظالم کا ترجمہ بےجا حرکت کرنے والا بھی ہے اس لئے ” اظلم “ کا ترجمہ سب سے بڑا بےجا حرکت کرنے والا بھی ہوسکتا ہے۔ مترجم) ۔ اس تشریح کی بناء پر آیت میں رسول اللہ ﷺ کے جھوٹ سے پاک ہونے اور کافروں کے ظالم ترین ہونے پر تنبیہ ہوگی) لیکن آیت کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کافروں سے بڑھ کر کون بےانصاف ہوگا جو اللہ پر دروغ بندی کرتے ہیں اور اللہ کی شان میں ایسی باتیں کہتے ہیں جو اس کے لئے نازیبا ہیں کوئی اس کا ساجھی قرار دیتا ہے اور کوئی اس کو باپ کہتا ہے اور کوئی پتھروں کو بارگاہ خداوندی میں اپنا سفارشی قرار دیتا ہے یا اللہ کی آیات کو جھوٹ جانتا ہے۔ اس صورت میں بجائے او کے واؤ عاطفہ ہونا چاہئے تھا کیونکہ مکہ والے ان تمام افکار و اقوال شنیعہ کا مجموعہ تھے لیکن او لانے سے اس امر پر تنبیہ ہوجائے گی کہ ان دونوں اقوال میں سے ہر ایک کامل طور پر ” اظلم “ بنانے کے لئے کافی ہے پھر ان کے اندر تو دونوں چیزیں ہیں افتراء بندی بھی اور تکذیب آیات بھی اس لئے ان کا اظلمہونا تو بدرجۂ اولیٰ یقینی ہے۔ اِوَذکر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ افتراء بندی اور تکذیب آیات دو جرم ایسے ہیں جو باہم ضد ہیں اور دونوں کو یکجا جمع نہ ہونا چاہئے مگر ان کافروں کی حماقت اس درجہ تک پہنچ چکی ہے کہ دونوں (متضاد) خرابیاں ان کے اندر موجود ہیں۔ اللہ پر افتراء بندی اور اس امر کا دعویٰ کرنا کہ اللہ نے فلاں کام کو حلال اور فلاں کام کو حرام بنایا ہے اور اس کی بیوی بھی ہے اور اولاد بھی اور وہ بتوں کی شفاعت قبول کرے گا۔ اس قسم کی خرافات کا تقاضا ہے کہ وہ رسالت کے قائل ہیں اور ان باتوں کو رسالت کے ذریعہ سے آیا ہوا مانتے ہیں لیکن اسی کے ساتھ وہ آیات و معجزات کی تکذیب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آدمی کو کس طرح پیغمبر بنایا جاسکتا ہے پیغمبر تو فرشتہ ہونا چاہئے اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ کسی انسان کی رسالت کے قائل نہیں۔ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے خلاف ہیں مگر احمق کافر دونوں کے قائل ہیں۔ انہ لا یفلح الظلمون ظالم قطعاً فلاح یاب نہیں ہوں گے اور جو سب سے بڑا ظالم ہو اس کا تو ٹھکانا ہی کیا۔ اِنَّہ ٗمیں ضمیر شان ہے۔ (1) [ شعر : وائے برقومے کہ بت را سجدہ بےحجت کنند۔۔ بارسل گویند ائتونا بسلطان مبین ]
Top