Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 111
یَوْمَ تَاْتِیْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا وَ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
يَوْمَ : جس دن تَاْتِيْ : آئے گا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص تُجَادِلُ : جھگڑا کرتا عَنْ : سے نَّفْسِهَا : اپنی طرف وَتُوَفّٰى : اور پورا دیا جائیگا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص مَّا : جو عَمِلَتْ : اس نے کیا وَهُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
جس دن آئے گا ہر ایک نفس جھگڑا کرے گا اپنے نفس کی طرف سے وہ پورا پورا دیا جائے گا ہر نفس کو جو اس نے عمل کیا ، اور پر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔
ربط آیات : پہلے قرآن حکیم کی صداقت وحقانیت کا بیان ہوا ، فرمایا قرآن پاک کی خود ساختہ یا کسی عجمی شخص کا سکھلایا ہوا کہنے والے جھوٹے ہیں ، نیز یہ کہ جس نے اپنے اختیار اور ارادے سے اپنی زبان سے کفر کی بات نکالی وہ خدا کے غضب اور لعنت کانشانہ بنے گا ، ہاں ! اضطراری حالت میں جب کہ جان جانے یا کسی عضو کے کٹ جانے کا خطرہ ہو ، تو جان بچانے کے لیے کلمہ کفر زبان سے ادا کرنے کی اجازت ہے بشرطیکہ دل مطمئن ہو ، اللہ تعالیٰ نے کفار کے متعلق فرمایا کہ وہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں ، اس لیے وہ کفر کی بات زبان پر لاتے ہیں ایسے لوگوں کو محاسبہ اعمال کی کچھ فکر نہیں ، یہ عنادی لوگ ہیں جن کے دلوں پر مہریں لگ چکی ہیں ، کان بند ہیں ، اور آنکھوں پر پردے پڑچکے ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ نہ حق بات کو محسوس کرتے ہیں نہ سنتے ہیں اور نہ اسے دیکھتے ہیں فرمایا حقیقت میں یہی لوگ غافل ہیں ۔ (ذاتی طور پر جوابدی) اس حقیر دنیا کی خاطر کفر اختیار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے آخرت اور محاسبہ عمل کی منزل یاد دلائی ہے فرمایا (آیت) ” یوم تاتی کل نفس “۔ اس دن کو یاد کرو جب ہر نفس آئے گا (آیت) ” تجادل عن نفسہا اپنے نفس کی طرف سے خود سوال و جواب کرے گا ، اس کی طرف سے کوئی وکیل ، بیرسٹر ، والدین ، بھائی بہن یا اولاد کو جواب دینے کی اجازت نہ ہوگی ، بلکہ اسے اپنے اعمال کا خود ہی جواب دینا پڑے گا ، حشر کے میدان میں ہر شخص کو اپنی پڑی ہوگی ، اور وہ ایک دوسرے کی طرف توجہ نہیں کرسکیں گے ، صحیح حدیث میں آتا ہے (آیت) ” یؤتی بجھنم “۔ جہنم کی ستر ہزار زنجریں ہوں گی اور ہر زنجیر کو کھینچنے والے ستر ستر ہزار فرشتے ہوں گے ، جو اسے کھینچ کر قریب لائیں گے ، اس وقت اس قدر دہشت کا سماں ہوگا کہ مقرب نبی بھی ” نفسی نفسی “ پکار رہے ہوں گے بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے کہ جب محاسبے کی منزل آئے گی (آیت) ” لیس بینہ وبینہ ترجمان “۔ تو اس وقت اللہ اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا ، بلکہ ہر شخص کو براہ راست جواب دینا ہوگا ، سورة عبس میں فرمایا (آیت) ” لکل امری منھم یومئذ شان یغنیہ “۔ اس دن حالت یہ ہوگی کہ ہر شخص کو دوسرے سے مستغنی کر دے گی ، کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا ، ہر ایک کو اپنی فکر ہوگی کہ کسی طرح میں بچ جاؤں بہرحال فرمایا کہ اس دن کو یاد کرو جس دن ہر نفس اپنی طرف سے خود جوابدہی کرے گا ،۔ (پورا پورا بدلہ) (آیت) ” وتوفی کل نفس ما عملت “۔ اور ہر ایک کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا جو اس نے عمل کیا ، ہر نیکی اور ہر برائی کو پوری پوری جزا یا سزا ملے گی (آیت) ” وھم لا یظلمون “۔ اور کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی جائے گی ، نہ تو کسی کی نیکی میں کمی کی جائے گی اور نہ کسی کی کوئی برائی دوسرے کے سر پر ڈلی جائے گی ، ہر ایک کے سامنے اس کا اپنا کیا ہوا آئے گا ، ہر شخص کا اپنا عقیدہ ، اخلاق اور عمل ہی کام آئے گا سورة مدثر میں ہے (آیت) ” کل نفس بما کسبت رھینۃ “۔ ہر شخص اپنی ہی کمائی میں پھنسا ہوا ہوگا جس سے نکل نہیں سکے گا ، اور کسی پر زیادتی نہیں ہوگی بلکہ ٹھیک ٹھیک معاملہ کیا جاے گا ۔ (خوشحال بستی کی مثال) اگلی آیت میں اللہ نے ایک خوشحال بستی کی مثال بیان فرمائی ہے جس کے باشندوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کی تو اللہ نے ان پر عذاب مسلط کردیا ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وضرب اللہ مثلا قریۃ “۔ اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان فرمائی ہے (آیت) ” کانت امنۃ مطمئنۃ “۔ جو بالکل امن و اطمینان میں تھی ، مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس بستی سے مراد مکہ کی بستی ہے کیونکہ یہ سورة مکی ہے اور اس بستی کا ذکر ہے ، البتہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ مثال کسی ایک بستی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر وہ بستی مراد کی جاسکتی ہے جہاں اس قسم کے حالات پائے جائیں ، بہرحال مکہ کی یہ بستی خوشحال بستی تھی ، تمام ضروریات زندگی آسانی کے ساتھ دستیاب تھیں ، امن و سکون تھا ، کوئی شخص متفکر نہیں تھا اور نہ کوئی پریشان حال تھا ، اشیائے خورد ونوش کی حالت یہ تھی (آیت) ” یاتیھا رزقھا رغدا من کل مکان “۔ اس کی کشادہ روزی ہر طرف سے آتی تھی غلہ ، پھل اور کھانے پینے کی دیگر چیزیں بافطراط موجود ہوتی تھیں ، جہاں تک اس بستی کے مامون ہونے کا تعلق ہے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی تھی (آیت) ” رب اجعل ھذا بلدا امنا “۔ (البقرہ) مولائے کریم اس بستی کو امن والا بنا دے ، اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا (آیت) ” ومن دخلہ کان امنا “۔ (آل عمران) جو اس میں داخل ہوگا امن میں ہوجائے گا یہاں پر کوئی کسی کو تکلیف نہیں دیتا ، فتنہ فساد کا کوئی ڈر نہیں ، باوجود اس کے کہ یہ جگہ بےآب وگیاہ ہے ، نہ زمین ، نہ باغات ، نہ چشمے اور نہ ہریالی مگر وہاں پر سارا سال رزق کی فراوانی رہتی ہے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی (آیت) ” وارزق اھلہ من الثمرات “۔ (البقرہ) اس کے رہنے والوں کو پھلوں سے روزی عطا فرما ، چناچہ دنیا کے کسی بھی خطے میں پیدا ہونے والے ہر قسم کے پھل اس بستی میں پہنچتے رہے ہیں ، اب بھی پہنچتے ہیں اور انشاء اللہ ہمیشہ پہنچتے رہیں گے ، بہرحال اللہ نے فرمایا کہ اس بستی کی کشادہ روزی ہر طرف سے آتی تھی ۔ (ناقدری کی سزا) مگر اس بستی والی کی حالت یہ تھی (آیت) ” فکفرت بانعم اللہ “۔ انہوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی ، کفر کی معنی ایمان اور توحید کا انکار بھی ہے اور اس سے ناشکری اور ناقدری بھی مراد ہوتی ہے ، عام طور پر بھی انسان کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے (آیت) ” ان الانسان لظلوم کفار “۔ (ابراہیم) بیشک انسان بڑا ظالم اور ناشکر گزار ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو بیشمار نعمتیں عطا کی ہیں مگر وہ زبان سے الحمد للہ تک نہیں کہتا ، تو اس بستی کے لوگ بھی خدا تعالیٰ کے انعامات میں ڈوبے ہوئے تھے ، ان پر اللہ کے تین خاص انعامات تھے یعنی امن ، اطمینان اور کشادہ روزی مگر ان کی ناقدری کی وجہ سے (آیت) ” فاذاقھا اللہ لباس الجوع والخوف “۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بھوک اور خوف کا لباس چکھایا ، ان کا وسیع رزق بھوک میں تبدیل ہوگیا ، اور امن و اطمینان کی بجائے ان پر خوف طاری ہوگیا (آیت) ” بما کانوا یصنعون “۔ اس وجہ سے کہ جو کچھ وہ کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی بری کارگزاری کی یہ سزا دی ۔ (انکار رسالت پر عذاب) پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے تین احسانات کا ذکر کیا اب چوتھے بڑے احسان کے متعلق فرمایا (آیت) ” ولقد جآء ھم رسول منھم “۔ البتہ تحقیق اللہ کا عظیم الشان رسول ان کے پاس آیا ، جس کو وہ پہچانتے تھے کہ ان کے خاندان کا آدمی ہے ، صادق اور امین ہے ، راستباز اور نیک ہے ، اس کے اخلاق اتنے حمیدہ ہیں کہ کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا ، پھر جب اللہ کے اس رسول نے لوگوں کو پیغام سنایا (آیت) ” فکذبوہ “ تو انہوں نے اس عظیم الشان رسول کی تکذیب کی اور اسے اللہ کا رسول تسلیم کرنے سے انکار کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا (آیت) ” فاخذھم العذاب “۔ پس اللہ کے عذاب نے انہیں آپکڑا ، (آیت) ” وھم ظالمون “۔ درآنحالیکہ وہ ظلم کرنے والے تھے حضور ﷺ نے مکہ والوں کے لیے بددعا فرمائی اللھم اجعل علیھم سنین کسنی یوسف ۔ اے اللہ ! ان پر یوسف (علیہ السلام) کے زمانے والے سال یعنی قحط ڈال دے اللہ نے مکہ والوں پر بھی قحط مسلط کردیا ، صحیح حدیث میں آتا ہے کہ ہر طرف خشکی تھی ، اوپر دھواں سا نظر آتا تھا کھانے کے لیے کچھ نہیں ملتا تھا ، حتی کہ لوگ چمڑا اور مردار تک کھانے پر مجبور ہوگئے ، اللہ نے ان کی کشادہ روزی کو ایسی تنگی میں بدل دیا ۔ ادھر امن امان کی حالت بھی بگڑتی چلی گئی ، جب انہوں نے اللہ کے نبی کو جھٹلا دیا ، اسے طرح طرح کی تکالیف پہنچائیں تو وہ ہجرت پر مجبور ہوگئے اور بلآخر مکہ چھوڑ کر مدینہ طیبہ کو دارالاسلام بنا لیا ، اللہ نے وہاں پر مسلمانوں کی مدد فرمائی ، انہوں نے طاقت جمع کی اور مکہ والوں پر مسلسل خوف کی حالت طاری ہوگئی اور جب تک مکہ فتح نہ ہوگیا ، ان کے دن کا سکون اور رات کا چین ختم ہو کر رہ گیا ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ حالات صرف مکہ کی بستی تک ہی محدود نہیں بلکہ جس جگہ بھی اللہ کی نعمتوں کی ناقدری اور اللہ کیے رسولوں کا انکار ہوگا وہاں ایسے ہی حالات پیدا ہوں گے ، آگے سورة سبا میں اللہ تعالیٰ نے اہل سبا کا حال بھی بیان فرمایا ہے ، ان لوگوں کو بھی اللہ نے عیش و آرام کے بڑے سامان مہیا فرمائے مگر انہوں نے ناشکری کا اظہار کیا تو اللہ نے بہت بڑا سیلاب بھیجا جس کی وجہ سے ان کی زمینیں ، باغات اور کھیتیاں تباہ ہوگئیں اللہ نے زمین سے روئیدگی کی طاقت ہی سلب کرلی ، وہاں پر غلے اور پھلدار درختوں کی بجائے جنگلی بیر پیدا ہونے لگے ، ہر طرف کانٹے دار جھاڑیاں نظر آنے لگیں حالانکہ وہاں پر ڈیم کا پانی میسر تھا جس کی بناء پر میلوں لمبے باغات اور غلے کے کھیت ہوا کرتے تھے ، اللہ نے ہر چیز تباہ کردی اور فرمایا (آیت) ” وھل نجزی الا الکفور “۔ (سبا) ہم ناشکر گزاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں ۔ (امن وامان کی ضرورت) انسانی زندگی کے لیے امن وامان بڑی ضروری چیز ہے ، اس کے بغیر کاروبار زندگی ٹھپ ہوجاتا ہے کارخانے ، زراعت ، صنعت وحرفت غرضیکہ کوئی چیز باقی نہیں رہتی ، دوسرے ملک کے ساتھ جنگ کی حالت ہو تو ہر وقت دشمن کا خوف رہتا ہے ، بمباری ہوتی ہے ، املاک تباہ ہوجاتی ہیں اور لوگ مرنے لگتے ہیں ، اندرونی طور پر بھی بدامنی ہو تو ہر وقت چوری ، ڈاکے کا خطرہ رہتا ہے ، لوگوں کی جان ، مال اور عزت غیر محفوظ ہوجاتی ہے ، آج دنیا میں ہر طرف بدامنی کی فضا پھیلی ہوئی ہے سرمایہ دارانہ نظام معیشت نے حرص اور لالچ کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے ہر شخص جائز اور ناجائز طریقے سے سرمائے کی فکر میں رہتا ہے خواہ اس میں دوسرون کو کتنا ہی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے ، اشتراکی نظام اس سے بھی بدتر ہے جس میں کسی انسان کی عزت نفس محفوظ نہیں ہوتی ، انسانوں سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا ہے وسائل آمدن چند ہاتھوں میں محدود ہو کر رہ جاتے ہیں اور اس طرح بدامنی اور بےچینی مسلسل سایہ فگن رہتی ہے اس کے برخلاف آسمانی شرائع ایسا نظام حیات قیام کرنا چاہتی ہیں ، جس میں کسی کی جان ومال اور عزت وآبرو کو کوئی خطرہ نہ ہو ، ہر شخص کو اس کے حسب حال روزی میسر ہو اور پورا معاشرہ امن وامان دوستی اور اخوت کا گہوارہ ہو ، حدیث شریف میں حضرت حذیفہ ؓ کا بیان آتا ہے کہ ابتدائی دور میں مجھے بالکل اطمینان حاصل تھا ، میں کسی بھی آدمی سے بلاخوف وخطر معاملہ کرسکتا تھا ، لیکن بعد میں حالات تبدیل ہوگئے ، اب میں خاص خاص آدمیوں سے معاملات کرتا ہوں ، امن کے زمانہ میں میں سمجھتا تھا کہ اگر میں کسی مسلمان سے معاملہ کروں گا اور مجھے کوئی نقصان پہنچے گا ” لیردن الی دینہ “ تو اس مسلمان کا دین میرے اس نقصان کو برداشت نہیں کرے گا یعنی وہ مسلمان مجھے دھوکہ دینے یا نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرے گا کسی غیر مسلم یعنی یہودی ، عیسائی یا مشرک سے معاملہ کرتے وقت مجھے یقین ہوتا تھا کہ اگر مجھے نقصان ہوا ” لیردن الی سلطنہ “۔ تو حاکم اس نقصان کی تلافی کردے گا یعنی میں اگر حاکم وقت کے پاس شکایت کروں گا تو وہ میرے نقصان کو برداشت نہیں کریگا بلکہ میرا حق دلا دے گا مجھے بالکل اطمینان تھا اور اچھے نظام کا یہی خاصہ ہے ، اس کے برخلاف ہم برے نظاموں کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں ، نہ دن کو سکون اور نہ رات کو آرام ہر وقت دشمن چور ، ڈاکو ، پڑوسی کا خطرہ رہتا ہے کسی سے معاملہ کرتے وقت تسلی نہیں ہوتی ، یہ نظام معیشت کی خرابی ہے کہ نہ امن وچین حاصل ہے اور نہ کشادہ روزی نصیب ہے ، مکان خوراک ، لباس ، عزت نفس ، صحت ، تعلیم انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے ، جو ہر آدمی کو حاصل ہونی چاہئیں مگر یہاں حالت یہ ہے کہ ایک طرف سربفلک عمارات اور پرتکلف زندگی ہے تو دوسری طرف دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں سر چھپانے کو سایہ نہیں اور علاج کے بغیر لوگ موت کی آغوش میں جا رہے ہیں ، ان حالات میں امن وامان کا تصور کہاں کیا جاسکتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر بڑے احسانات کیے ہیں مگر یہ ان کی قدر نہیں کرتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ناراض ہو کر کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا کردیتا ہے ۔ (حلال اور طیب روزی) اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” فکلوا مما رزقکم اللہ حللاطیبا “۔ پس کھاؤ اس میں سے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں روزی دی ہے حلال اور پاکیزہ چیزیں ، حرام اور ناپاک کے قریب بھی نہ جاؤ ، حرام دین اور اخلاق کو بگاڑ دیتا ہے اللہ نے اپنے سارے نبیوں کو یہی تعلیم دی (آیت) ” کلوا مما فی الارض حللاطیبا “۔ (البقرہ) زمین کی پاک اور حلال چیزیں استعمال کرو ، نجس اشیاء کو استعمال نہ کرو ، ظاہری نجاست یہ ہے کہ کوئی چیز گل سڑ جائے اور اس میں بدبوپیدا ہوجائے ، ایسی چیز مضر صحت ہوگی اور مکروہ تحریمی کے حکم میں آئے گی اور باطنی نجاست یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کا نام لے کر بکری ذبح کرے مگر ہو وہ چوری کی تو یہ طیب ہرگز نہیں ہو سکتی بلکہ ظاہری طور پر بےعیب ہونے کے باوجود نجس ہی رہے گی آگے اللہ نے محرمات کی مختلف اقسام بھی بیان فرمائی ہیں چوری ، ڈاکہ ، رشوت ، سمگلنگ کا مال کبھی پاک نہیں ہو سکتا ، لہو ولعب کی کمائی ، فوٹو سازی اور فلمی صنعت سے کمایا ہوا مال کیسے طیب ہو سکتا ہے ، کھیل تماشا ہو یا گانا بجانا سب حرام ذرائع آمدنی ہیں ان ذرائع سے حاصل کردہ مال حلال نہیں ہوگا اور پھر یہ ہے کہ حرام اور نجس مال کھانے والے کی نہ عبادت قبول ہوتی ہے اور نہ دعا ، ایسی چیزیں انسان کے لیے جہنم کا زاد راہ بنیں گی ۔ (شکر گزاری) ایک تو حلال اور پاکیزہ چیزیں کھانے کی تلقین کی اور دوسرا فرمایا (آیت) ” واشکروا نعمت اللہ ان کنتم ایاہ تعبدون “۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کرو ، اگر تم خالص اسی کی عبادت کرنے والے ہو ، اللہ کی نعمتوں کی قدر کا یہی مطلب ہے کہ ہر نعمت جائز اور حلال ذرائع سے حاصل کی جائے اور اس کا استعمال بھی جائز ہو ، فضول اور حرام کاموں پر مال ضائع نہ کیا جائے ، حلال و حرام میں امتیاز رکھا جائے اور اللہ کے قانون کی پابندی کی جائے ۔
Top