Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 111
یَوْمَ تَاْتِیْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا وَ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
يَوْمَ
: جس دن
تَاْتِيْ
: آئے گا
كُلُّ
: ہر
نَفْسٍ
: شخص
تُجَادِلُ
: جھگڑا کرتا
عَنْ
: سے
نَّفْسِهَا
: اپنی طرف
وَتُوَفّٰى
: اور پورا دیا جائیگا
كُلُّ
: ہر
نَفْسٍ
: شخص
مَّا
: جو
عَمِلَتْ
: اس نے کیا
وَهُمْ
: اور وہ
لَا يُظْلَمُوْنَ
: ظلم نہ کیے جائیں گے
جس دن آئے گا ہر ایک نفس جھگڑا کرے گا اپنے نفس کی طرف سے وہ پورا پورا دیا جائے گا ہر نفس کو جو اس نے عمل کیا ، اور پر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔
ربط آیات : پہلے قرآن حکیم کی صداقت وحقانیت کا بیان ہوا ، فرمایا قرآن پاک کی خود ساختہ یا کسی عجمی شخص کا سکھلایا ہوا کہنے والے جھوٹے ہیں ، نیز یہ کہ جس نے اپنے اختیار اور ارادے سے اپنی زبان سے کفر کی بات نکالی وہ خدا کے غضب اور لعنت کانشانہ بنے گا ، ہاں ! اضطراری حالت میں جب کہ جان جانے یا کسی عضو کے کٹ جانے کا خطرہ ہو ، تو جان بچانے کے لیے کلمہ کفر زبان سے ادا کرنے کی اجازت ہے بشرطیکہ دل مطمئن ہو ، اللہ تعالیٰ نے کفار کے متعلق فرمایا کہ وہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں ، اس لیے وہ کفر کی بات زبان پر لاتے ہیں ایسے لوگوں کو محاسبہ اعمال کی کچھ فکر نہیں ، یہ عنادی لوگ ہیں جن کے دلوں پر مہریں لگ چکی ہیں ، کان بند ہیں ، اور آنکھوں پر پردے پڑچکے ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ نہ حق بات کو محسوس کرتے ہیں نہ سنتے ہیں اور نہ اسے دیکھتے ہیں فرمایا حقیقت میں یہی لوگ غافل ہیں ۔ (ذاتی طور پر جوابدی) اس حقیر دنیا کی خاطر کفر اختیار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے آخرت اور محاسبہ عمل کی منزل یاد دلائی ہے فرمایا (آیت) ” یوم تاتی کل نفس “۔ اس دن کو یاد کرو جب ہر نفس آئے گا (آیت) ” تجادل عن نفسہا اپنے نفس کی طرف سے خود سوال و جواب کرے گا ، اس کی طرف سے کوئی وکیل ، بیرسٹر ، والدین ، بھائی بہن یا اولاد کو جواب دینے کی اجازت نہ ہوگی ، بلکہ اسے اپنے اعمال کا خود ہی جواب دینا پڑے گا ، حشر کے میدان میں ہر شخص کو اپنی پڑی ہوگی ، اور وہ ایک دوسرے کی طرف توجہ نہیں کرسکیں گے ، صحیح حدیث میں آتا ہے (آیت) ” یؤتی بجھنم “۔ جہنم کی ستر ہزار زنجریں ہوں گی اور ہر زنجیر کو کھینچنے والے ستر ستر ہزار فرشتے ہوں گے ، جو اسے کھینچ کر قریب لائیں گے ، اس وقت اس قدر دہشت کا سماں ہوگا کہ مقرب نبی بھی ” نفسی نفسی “ پکار رہے ہوں گے بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے کہ جب محاسبے کی منزل آئے گی (آیت) ” لیس بینہ وبینہ ترجمان “۔ تو اس وقت اللہ اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا ، بلکہ ہر شخص کو براہ راست جواب دینا ہوگا ، سورة عبس میں فرمایا (آیت) ” لکل امری منھم یومئذ شان یغنیہ “۔ اس دن حالت یہ ہوگی کہ ہر شخص کو دوسرے سے مستغنی کر دے گی ، کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا ، ہر ایک کو اپنی فکر ہوگی کہ کسی طرح میں بچ جاؤں بہرحال فرمایا کہ اس دن کو یاد کرو جس دن ہر نفس اپنی طرف سے خود جوابدہی کرے گا ،۔ (پورا پورا بدلہ) (آیت) ” وتوفی کل نفس ما عملت “۔ اور ہر ایک کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا جو اس نے عمل کیا ، ہر نیکی اور ہر برائی کو پوری پوری جزا یا سزا ملے گی (آیت) ” وھم لا یظلمون “۔ اور کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی جائے گی ، نہ تو کسی کی نیکی میں کمی کی جائے گی اور نہ کسی کی کوئی برائی دوسرے کے سر پر ڈلی جائے گی ، ہر ایک کے سامنے اس کا اپنا کیا ہوا آئے گا ، ہر شخص کا اپنا عقیدہ ، اخلاق اور عمل ہی کام آئے گا سورة مدثر میں ہے (آیت) ” کل نفس بما کسبت رھینۃ “۔ ہر شخص اپنی ہی کمائی میں پھنسا ہوا ہوگا جس سے نکل نہیں سکے گا ، اور کسی پر زیادتی نہیں ہوگی بلکہ ٹھیک ٹھیک معاملہ کیا جاے گا ۔ (خوشحال بستی کی مثال) اگلی آیت میں اللہ نے ایک خوشحال بستی کی مثال بیان فرمائی ہے جس کے باشندوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کی تو اللہ نے ان پر عذاب مسلط کردیا ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وضرب اللہ مثلا قریۃ “۔ اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان فرمائی ہے (آیت) ” کانت امنۃ مطمئنۃ “۔ جو بالکل امن و اطمینان میں تھی ، مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس بستی سے مراد مکہ کی بستی ہے کیونکہ یہ سورة مکی ہے اور اس بستی کا ذکر ہے ، البتہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ مثال کسی ایک بستی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر وہ بستی مراد کی جاسکتی ہے جہاں اس قسم کے حالات پائے جائیں ، بہرحال مکہ کی یہ بستی خوشحال بستی تھی ، تمام ضروریات زندگی آسانی کے ساتھ دستیاب تھیں ، امن و سکون تھا ، کوئی شخص متفکر نہیں تھا اور نہ کوئی پریشان حال تھا ، اشیائے خورد ونوش کی حالت یہ تھی (آیت) ” یاتیھا رزقھا رغدا من کل مکان “۔ اس کی کشادہ روزی ہر طرف سے آتی تھی غلہ ، پھل اور کھانے پینے کی دیگر چیزیں بافطراط موجود ہوتی تھیں ، جہاں تک اس بستی کے مامون ہونے کا تعلق ہے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی تھی (آیت) ” رب اجعل ھذا بلدا امنا “۔ (البقرہ) مولائے کریم اس بستی کو امن والا بنا دے ، اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا (آیت) ” ومن دخلہ کان امنا “۔ (آل عمران) جو اس میں داخل ہوگا امن میں ہوجائے گا یہاں پر کوئی کسی کو تکلیف نہیں دیتا ، فتنہ فساد کا کوئی ڈر نہیں ، باوجود اس کے کہ یہ جگہ بےآب وگیاہ ہے ، نہ زمین ، نہ باغات ، نہ چشمے اور نہ ہریالی مگر وہاں پر سارا سال رزق کی فراوانی رہتی ہے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی (آیت) ” وارزق اھلہ من الثمرات “۔ (البقرہ) اس کے رہنے والوں کو پھلوں سے روزی عطا فرما ، چناچہ دنیا کے کسی بھی خطے میں پیدا ہونے والے ہر قسم کے پھل اس بستی میں پہنچتے رہے ہیں ، اب بھی پہنچتے ہیں اور انشاء اللہ ہمیشہ پہنچتے رہیں گے ، بہرحال اللہ نے فرمایا کہ اس بستی کی کشادہ روزی ہر طرف سے آتی تھی ۔ (ناقدری کی سزا) مگر اس بستی والی کی حالت یہ تھی (آیت) ” فکفرت بانعم اللہ “۔ انہوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی ، کفر کی معنی ایمان اور توحید کا انکار بھی ہے اور اس سے ناشکری اور ناقدری بھی مراد ہوتی ہے ، عام طور پر بھی انسان کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے (آیت) ” ان الانسان لظلوم کفار “۔ (ابراہیم) بیشک انسان بڑا ظالم اور ناشکر گزار ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو بیشمار نعمتیں عطا کی ہیں مگر وہ زبان سے الحمد للہ تک نہیں کہتا ، تو اس بستی کے لوگ بھی خدا تعالیٰ کے انعامات میں ڈوبے ہوئے تھے ، ان پر اللہ کے تین خاص انعامات تھے یعنی امن ، اطمینان اور کشادہ روزی مگر ان کی ناقدری کی وجہ سے (آیت) ” فاذاقھا اللہ لباس الجوع والخوف “۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بھوک اور خوف کا لباس چکھایا ، ان کا وسیع رزق بھوک میں تبدیل ہوگیا ، اور امن و اطمینان کی بجائے ان پر خوف طاری ہوگیا (آیت) ” بما کانوا یصنعون “۔ اس وجہ سے کہ جو کچھ وہ کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی بری کارگزاری کی یہ سزا دی ۔ (انکار رسالت پر عذاب) پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے تین احسانات کا ذکر کیا اب چوتھے بڑے احسان کے متعلق فرمایا (آیت) ” ولقد جآء ھم رسول منھم “۔ البتہ تحقیق اللہ کا عظیم الشان رسول ان کے پاس آیا ، جس کو وہ پہچانتے تھے کہ ان کے خاندان کا آدمی ہے ، صادق اور امین ہے ، راستباز اور نیک ہے ، اس کے اخلاق اتنے حمیدہ ہیں کہ کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا ، پھر جب اللہ کے اس رسول نے لوگوں کو پیغام سنایا (آیت) ” فکذبوہ “ تو انہوں نے اس عظیم الشان رسول کی تکذیب کی اور اسے اللہ کا رسول تسلیم کرنے سے انکار کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا (آیت) ” فاخذھم العذاب “۔ پس اللہ کے عذاب نے انہیں آپکڑا ، (آیت) ” وھم ظالمون “۔ درآنحالیکہ وہ ظلم کرنے والے تھے حضور ﷺ نے مکہ والوں کے لیے بددعا فرمائی اللھم اجعل علیھم سنین کسنی یوسف ۔ اے اللہ ! ان پر یوسف (علیہ السلام) کے زمانے والے سال یعنی قحط ڈال دے اللہ نے مکہ والوں پر بھی قحط مسلط کردیا ، صحیح حدیث میں آتا ہے کہ ہر طرف خشکی تھی ، اوپر دھواں سا نظر آتا تھا کھانے کے لیے کچھ نہیں ملتا تھا ، حتی کہ لوگ چمڑا اور مردار تک کھانے پر مجبور ہوگئے ، اللہ نے ان کی کشادہ روزی کو ایسی تنگی میں بدل دیا ۔ ادھر امن امان کی حالت بھی بگڑتی چلی گئی ، جب انہوں نے اللہ کے نبی کو جھٹلا دیا ، اسے طرح طرح کی تکالیف پہنچائیں تو وہ ہجرت پر مجبور ہوگئے اور بلآخر مکہ چھوڑ کر مدینہ طیبہ کو دارالاسلام بنا لیا ، اللہ نے وہاں پر مسلمانوں کی مدد فرمائی ، انہوں نے طاقت جمع کی اور مکہ والوں پر مسلسل خوف کی حالت طاری ہوگئی اور جب تک مکہ فتح نہ ہوگیا ، ان کے دن کا سکون اور رات کا چین ختم ہو کر رہ گیا ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ حالات صرف مکہ کی بستی تک ہی محدود نہیں بلکہ جس جگہ بھی اللہ کی نعمتوں کی ناقدری اور اللہ کیے رسولوں کا انکار ہوگا وہاں ایسے ہی حالات پیدا ہوں گے ، آگے سورة سبا میں اللہ تعالیٰ نے اہل سبا کا حال بھی بیان فرمایا ہے ، ان لوگوں کو بھی اللہ نے عیش و آرام کے بڑے سامان مہیا فرمائے مگر انہوں نے ناشکری کا اظہار کیا تو اللہ نے بہت بڑا سیلاب بھیجا جس کی وجہ سے ان کی زمینیں ، باغات اور کھیتیاں تباہ ہوگئیں اللہ نے زمین سے روئیدگی کی طاقت ہی سلب کرلی ، وہاں پر غلے اور پھلدار درختوں کی بجائے جنگلی بیر پیدا ہونے لگے ، ہر طرف کانٹے دار جھاڑیاں نظر آنے لگیں حالانکہ وہاں پر ڈیم کا پانی میسر تھا جس کی بناء پر میلوں لمبے باغات اور غلے کے کھیت ہوا کرتے تھے ، اللہ نے ہر چیز تباہ کردی اور فرمایا (آیت) ” وھل نجزی الا الکفور “۔ (سبا) ہم ناشکر گزاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں ۔ (امن وامان کی ضرورت) انسانی زندگی کے لیے امن وامان بڑی ضروری چیز ہے ، اس کے بغیر کاروبار زندگی ٹھپ ہوجاتا ہے کارخانے ، زراعت ، صنعت وحرفت غرضیکہ کوئی چیز باقی نہیں رہتی ، دوسرے ملک کے ساتھ جنگ کی حالت ہو تو ہر وقت دشمن کا خوف رہتا ہے ، بمباری ہوتی ہے ، املاک تباہ ہوجاتی ہیں اور لوگ مرنے لگتے ہیں ، اندرونی طور پر بھی بدامنی ہو تو ہر وقت چوری ، ڈاکے کا خطرہ رہتا ہے ، لوگوں کی جان ، مال اور عزت غیر محفوظ ہوجاتی ہے ، آج دنیا میں ہر طرف بدامنی کی فضا پھیلی ہوئی ہے سرمایہ دارانہ نظام معیشت نے حرص اور لالچ کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے ہر شخص جائز اور ناجائز طریقے سے سرمائے کی فکر میں رہتا ہے خواہ اس میں دوسرون کو کتنا ہی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے ، اشتراکی نظام اس سے بھی بدتر ہے جس میں کسی انسان کی عزت نفس محفوظ نہیں ہوتی ، انسانوں سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا ہے وسائل آمدن چند ہاتھوں میں محدود ہو کر رہ جاتے ہیں اور اس طرح بدامنی اور بےچینی مسلسل سایہ فگن رہتی ہے اس کے برخلاف آسمانی شرائع ایسا نظام حیات قیام کرنا چاہتی ہیں ، جس میں کسی کی جان ومال اور عزت وآبرو کو کوئی خطرہ نہ ہو ، ہر شخص کو اس کے حسب حال روزی میسر ہو اور پورا معاشرہ امن وامان دوستی اور اخوت کا گہوارہ ہو ، حدیث شریف میں حضرت حذیفہ ؓ کا بیان آتا ہے کہ ابتدائی دور میں مجھے بالکل اطمینان حاصل تھا ، میں کسی بھی آدمی سے بلاخوف وخطر معاملہ کرسکتا تھا ، لیکن بعد میں حالات تبدیل ہوگئے ، اب میں خاص خاص آدمیوں سے معاملات کرتا ہوں ، امن کے زمانہ میں میں سمجھتا تھا کہ اگر میں کسی مسلمان سے معاملہ کروں گا اور مجھے کوئی نقصان پہنچے گا ” لیردن الی دینہ “ تو اس مسلمان کا دین میرے اس نقصان کو برداشت نہیں کرے گا یعنی وہ مسلمان مجھے دھوکہ دینے یا نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرے گا کسی غیر مسلم یعنی یہودی ، عیسائی یا مشرک سے معاملہ کرتے وقت مجھے یقین ہوتا تھا کہ اگر مجھے نقصان ہوا ” لیردن الی سلطنہ “۔ تو حاکم اس نقصان کی تلافی کردے گا یعنی میں اگر حاکم وقت کے پاس شکایت کروں گا تو وہ میرے نقصان کو برداشت نہیں کریگا بلکہ میرا حق دلا دے گا مجھے بالکل اطمینان تھا اور اچھے نظام کا یہی خاصہ ہے ، اس کے برخلاف ہم برے نظاموں کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں ، نہ دن کو سکون اور نہ رات کو آرام ہر وقت دشمن چور ، ڈاکو ، پڑوسی کا خطرہ رہتا ہے کسی سے معاملہ کرتے وقت تسلی نہیں ہوتی ، یہ نظام معیشت کی خرابی ہے کہ نہ امن وچین حاصل ہے اور نہ کشادہ روزی نصیب ہے ، مکان خوراک ، لباس ، عزت نفس ، صحت ، تعلیم انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے ، جو ہر آدمی کو حاصل ہونی چاہئیں مگر یہاں حالت یہ ہے کہ ایک طرف سربفلک عمارات اور پرتکلف زندگی ہے تو دوسری طرف دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں سر چھپانے کو سایہ نہیں اور علاج کے بغیر لوگ موت کی آغوش میں جا رہے ہیں ، ان حالات میں امن وامان کا تصور کہاں کیا جاسکتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر بڑے احسانات کیے ہیں مگر یہ ان کی قدر نہیں کرتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ناراض ہو کر کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا کردیتا ہے ۔ (حلال اور طیب روزی) اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” فکلوا مما رزقکم اللہ حللاطیبا “۔ پس کھاؤ اس میں سے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں روزی دی ہے حلال اور پاکیزہ چیزیں ، حرام اور ناپاک کے قریب بھی نہ جاؤ ، حرام دین اور اخلاق کو بگاڑ دیتا ہے اللہ نے اپنے سارے نبیوں کو یہی تعلیم دی (آیت) ” کلوا مما فی الارض حللاطیبا “۔ (البقرہ) زمین کی پاک اور حلال چیزیں استعمال کرو ، نجس اشیاء کو استعمال نہ کرو ، ظاہری نجاست یہ ہے کہ کوئی چیز گل سڑ جائے اور اس میں بدبوپیدا ہوجائے ، ایسی چیز مضر صحت ہوگی اور مکروہ تحریمی کے حکم میں آئے گی اور باطنی نجاست یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کا نام لے کر بکری ذبح کرے مگر ہو وہ چوری کی تو یہ طیب ہرگز نہیں ہو سکتی بلکہ ظاہری طور پر بےعیب ہونے کے باوجود نجس ہی رہے گی آگے اللہ نے محرمات کی مختلف اقسام بھی بیان فرمائی ہیں چوری ، ڈاکہ ، رشوت ، سمگلنگ کا مال کبھی پاک نہیں ہو سکتا ، لہو ولعب کی کمائی ، فوٹو سازی اور فلمی صنعت سے کمایا ہوا مال کیسے طیب ہو سکتا ہے ، کھیل تماشا ہو یا گانا بجانا سب حرام ذرائع آمدنی ہیں ان ذرائع سے حاصل کردہ مال حلال نہیں ہوگا اور پھر یہ ہے کہ حرام اور نجس مال کھانے والے کی نہ عبادت قبول ہوتی ہے اور نہ دعا ، ایسی چیزیں انسان کے لیے جہنم کا زاد راہ بنیں گی ۔ (شکر گزاری) ایک تو حلال اور پاکیزہ چیزیں کھانے کی تلقین کی اور دوسرا فرمایا (آیت) ” واشکروا نعمت اللہ ان کنتم ایاہ تعبدون “۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کرو ، اگر تم خالص اسی کی عبادت کرنے والے ہو ، اللہ کی نعمتوں کی قدر کا یہی مطلب ہے کہ ہر نعمت جائز اور حلال ذرائع سے حاصل کی جائے اور اس کا استعمال بھی جائز ہو ، فضول اور حرام کاموں پر مال ضائع نہ کیا جائے ، حلال و حرام میں امتیاز رکھا جائے اور اللہ کے قانون کی پابندی کی جائے ۔
Top