Mualim-ul-Irfan - Al-Ahzaab : 38
مَا كَانَ عَلَى النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ اللّٰهُ لَهٗ١ؕ سُنَّةَ اللّٰهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ١ؕ وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَا٘ۙ
مَا كَانَ : نہیں ہے عَلَي النَّبِيِّ : نبی پر مِنْ حَرَجٍ : کوئی حرج فِيْمَا : اس میں جو فَرَضَ اللّٰهُ : مقرر کیا اللہ نے لَهٗ ۭ : اس کے لیے سُنَّةَ اللّٰهِ : اللہ کا دستور فِي : میں الَّذِيْنَ : وہ جو خَلَوْا : گزرے مِنْ قَبْلُ ۭ : پہلے وَكَانَ : اور ہے اَمْرُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم قَدَرًا : مقرر کیا ہوا مَّقْدُوْرَۨا : اندازہ سے
نہیں ہے اللہ کے نبی پر کوئی حرج اس چیز میں جو اللہ نے اس کے لئے مقرر فرمائی ہے۔ یہ دستور ہے اللہ کا ان لوگوں میں جو اس سے پہلے گزرے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم مقرر کیا ہوا ہوتا ہے
ربط آیات جب حضور ﷺ نے حضرت زید ؓ کی مطلقہ حضرت زینب ؓ سے نکاح کرلیا تو کفار و منافقین نے طعنے دینے شروع کردیئے کہ آپ نے اپنی بہو سے نکاح کرلیا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا تھا حتیٰ کہ وہ وراثت میں بھی حقدار ہوتا تھا اور اس کی بیوی سے نکاح بھی ناجائز تصور ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ کو واضح کیا کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہوتا لہٰذا اسے اس کے حقیقی باپ کے نام سے پکارا کرو۔ اور اگر اس کے باپ کا علم نہ ہو تو اسے اپنا بھائی اور رفیق کہہ کر بلا لیا کرو۔ البتہ اس کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آئو اور ہو سکے تو اس کے ساتھ احسان کرو۔ البتہ اس پر حقیقی بیٹے والے احکام لاگو نہیں ہوتے۔ اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ نے گشزتہ آیات میں اس مسئلہ کو واضح کیا اور پھر حضور ﷺ کو اس معاملہ میں جس طعن وتشنیع کا خطرہ تھا اس کے متعلق تسلی دی کہ آپ لوگوں کی طرف سے خوف نہ کھائیں بلکہ اللہ تعالیٰ زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔ جب حضرت زید ؓ کی غرض حضرت زینب سے پوری ہوگئی تو انہوں نے طلاق دے دی تو اللہ نے زینبؔ کا نکاح آپ سے کرا دیا تاکہ اہل ایمان کے دلوں میں منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کرنے کے متعلق کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے۔ جب ایسی مطلقہ کی عدت گزر جائے تو ایمان والوں کو ایسی عورتوں سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نہ تو متبنی پر حقیقی بیٹے کے احکام لاگو ہوتے ہیں اور نہ ہی اس کی بیوی حقیقی بہو شمار ہوتی ہے۔ نبی (علیہ السلام) کیلئے تسلی آج کی پہلی دو آیات میں بھی تسلی کا مضمون ہی بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ماکان علی النبی من حرج فیما فرض اللہ لہ اللہ کے نبی کے لئے اس چیز میں کوئی حرج نہیں ہے جو اس نے اپنے نبی کے لئے مقرر کردی ہے۔ مطلب یہ کہ جائز کام کو انجام دینے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرنی چاہئے اور لوگوں کے اعتراضات اور طعن وتشنیع کو خاطر میں نہیں لانا چاہئے۔ فرمایا سنۃ اللہ فی الذین خلو من قبل یہ پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں اللہ کا دستور ہے۔ پہلے ادوار میں بھی لوگ انبیاء (علیہم السلام) پر اسی طرح اعتراض کیا کرتے تھے مگر انہوں نے جائز کام کو کرنے میں کسی پس و پیش کا اظہار نہیں کیا بلکہ ایسے کام بےدھڑک کر گزرے۔ آج لوگ تعدد ازواج پر اعتراض کرتے ہیں کہ ایک مرد کو چار عورتیں رکھنے کی اجازت کیوں ہے۔ حالانکہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی سو سے بھی زیادہ بیویاں تھیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بھی متعدد بیویاں تھیں اور ان سے اولاد بھی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کی جائز کردہ چیز پر طعن کرتا ہے تو کرتا رہے ، آپ اس کی قطعاً پرواہ نہ کریں اور اپنا کام کرتے جائیں۔ فرمایا و کان امر اللہ قدرا مقدورا اور اللہ کا معاملہ تو ٹھہرایا ہوا ہے۔ اس میں کون دخل اندازی کرسکتا ہے ؟ فرمایا الذین یبلغون رسلت اللہ و یخشونہ اللہ کے نبی جو اس کے پیغامات لوگوں تک پہنچاتے ہیں ، وہ اسی سے ڈرتے ہیں۔ ولا یخشون احدا الا اللہ اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ ان کو صرف اسی بات کا خوف رہتا تھا کہ کہیں اللہ کی نافرمانی کا کوئی کام نہ ہوجائے۔ اللہ نے اپنے نبی کو تسلی دیتے وئے فرمایا و کفیٰ باللہ حسیبا اور کافی ہے اللہ تعالیٰ کفایت کرنے والا۔ مطلب یہ کہ معترضین کے طعن وتشنیع کا توڑ اللہ ہی کرے گا وہ ایسے لوگوں کو ذلیل و خوار کر کے چھوڑے گا۔ بعض چیزوں کے جواز کا محض حکم دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے اور بعض جائز امور پر اللہ تعالیٰ لوگوں سے عمل کروا کر اس کے جواز کو مزید پختہ کردیتا ہے۔ اس 1 ؎ البحر المحیط 232 ج 7 و زادلمسیر ص 392 ج 6 معاملہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے متبنی کی بیوی سے نبی کا نکاح کروا کے اس کے خلاف باطل نظریہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرو دیا۔ اسی طرح حج کی ادائیگی میں باطل رسوم کے در آنے کو اللہ نے ان کے خلاف عمل کروا کے ہمیشہ کے لئے ختم کردیا۔ مردوں کے باپ ہونے کی نفی اگلی آیت میں حضور ﷺ کی خصوصی حیثیت کو بیان کیا گیا ہے پہلے ادوار میں تو یکے بعد دیگرے انبیاء (علیہم السلام) آتے رہتے ہیں۔ مگر حضور خاتم النبیین ﷺ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا ، اللہ نے اپنے آخری نبی کے ذریعے وہ تمام حکام نازل کردیئے جو قیامت تک آنے والی نسل انسانی کے لئے کارآمد ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے ماکان محمد ابا احد من رجالکم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔ رجل کا اطلاق بالغ مرد پر ہوتا ہے مطلب یہ کہ آپ کسی بالغ مرد کے باپ نہیں ہیں۔ حضور ﷺ کی اولاد نرینہ میں سے کوئی بچہ بھی سن بلوغت کو نہیں پہنچا بلکہ وہ بچپن میں ہی فوت ہوگئے۔ بچوں میں سب سے پہلے قاسم پیدا ہوئے جو دو سال کی عمر میں فوت ہوگئے۔ پھر عبداللہ جن کا لقب طیب اور طاہر تھا۔ وہ بھی بچپن ہی میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ تیسرے بیٹے ماریہ قبطیہ کے بطن سے ابراہیم تھے جنہوں نے صرف سولہ ماہ عمر پائی۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر حضور ﷺ کے بالغ مردوں کے باپ ہونے کی نفی کی ہے۔ جہاں تک حضرت زید ؓ کا تعلق ہے تو وہ بالغ ہوء اور ان کی شادی بھی ہوئی۔ مگر وہ حقیقی بیٹے تو نہیں تھے۔ اسی لئے تو ان کی مطلقہ سے آپ کا نکاح بھی بالکل جائز تھا ، مگر منافقین ، یہود و نصاریٰ اور کفار نے خواہ مخواہ کا شور مچایا۔ ختم نبوت کا مسئلہ فرمایا حضرت محمد ﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ولکن رسول اللہ بلکہ آپ تو اللہ کے رسول ہیں۔ ہاں ! اللہ کا رسول روحانی طور پر ساری امت کا باپ ہوتا ہے۔ خود حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔ انا 1 ؎ سنن ابی دائود بحوالہ عثمانی ص 245 لکم بمنزلہ الوالد میں تمہارے لئے بمنزلہ باپ کے ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح کوئی شفیق باپ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرتا ہے ، اسی طرح میں بھی تمہاری تربیت کرتا ہوں۔ فرمایا ، میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور ساتھ ساتھ و خاتم النبیین تمام نبیوں کو ختم کرنے والا بھی ہوں۔ یہ لفظ خاتم اور خاتم دونوں طرح آتا ہے مگر دونوں کا معنیٓ ایک ہی ہے یعنی ختم کرنے والا۔ خاتم مہر کو کہتے ہیں ، اس لئے امام ابن جریر (رح) فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ بمنزلہ مہر کے ہیں۔ جب کسی چیز یا سلسلے کو بند کردیا جاتا ہے تو اس پر مہر لگ دی جاتی ہے تاک کوئی مزید چیز اس میں داخل نہ ہو سکے۔ اللہ نے انبیاء کی بعثت کا سلسلہ بھی ختم کر کے اس پر حضور ﷺ کے ذریعے مہر لگا دی ہے تاکہ کوئی اور شخص انبیاء کی جماتع میں داخل نہ ہو سک۔ شاہ عبدالقادر (رح) بھی یہی ترجمہ کرتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول اور سب نبیوں پر مہر ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اللہ نے سلسلہ نبوت آپ پر ختم کردیا ہے۔ اور اگر خاتم بطور فاعل لیا جائے تو معنی ختم کرنے والا ہوگا۔۔ مطلب وہی ہے کہ آپ سب کے آخر میں تشریف لائے اور آپ کے ذریعے سلسلہ نبوت ختم ہوگیا۔ بخاری شریف کی روایات میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا لا نبی بعدی و سیکون خلفاء یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔۔ بلکہ خلفاء ہوں گے جو نیابت کا فریضہ انجام دیں گے۔ خلفاء میں سے اچھے بھی ہوں گے اور برے بھی مگر نبی کوئی نہیں ہوگا۔۔ حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ میری مثال ایک قصر کی ہے جو مکمل ہوچکا ہے مگر ایک اینٹ کی جگہ پر ہونا باقی ہے۔ لوگ دیکھ کر تعجب کرتے ہیں کہ محل تو بڑا عالیشان ہے۔ مگر 1 ؎ ابن حریر طبری ص 61 ج 22 2 ؎ بخاری 3 ؎ ابن کثیر ص 394 ج 3 و درمنثور ص 404 ج 5 اس کی دیوار میں ایک اینٹ کی کمی ہے۔ فرمایا ، اسی طرح اللہ نے نبوت کا بھی ایک قصر تیار کیا ہے ، اور ایک اینٹ کی جو جگہ خالی تھی ، میں نے اگر اس کو پر کردیا ہے اب قصر نبوت مکمل و چکا ہے ، لہٰذا کوئی اور نبی نہیں آء گا۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ان لرسلۃ والنبی بعدی و لا رسول اب میرے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ رسول۔ اللہ نے مجھے سب انبیاء و رسل کے بعد بھیجا ہے۔ حضور ﷺ نے اپنی امت کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا ختم لی النبیون اللہ نے میری وجہ سے نبیوں کو ختم کردیا ہے۔ موطا شریف میں یہ روایت بھی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا انا العاقب میں عاقب یعنی سب سے آخر میں آنے والا ہوں لیس بعدہ نبی جس کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ایک روایت میں عاقب کے ساتھ مکفی کا لفظ بھی آتا ہے۔ میں عاقب اور مکفی ہوں جس کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا ابن ماجہ شریف کی روایت میں آتا ہے کہ میں آخر الانبیاء ہوں یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا و انتم اخر الامم اور تم آخری امت ہو۔ اب تمہارے بعد کوئی امت بھی نہیں ہوگی۔ غزوہ تبوک کے موقع پر ضور (علیہ السلام) نے حضرت علی ؓ کو مدینہ میں اپنی نیابت کے لئے چھوڑ دیا تو انہوں نے عرض کیا ، حضور ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ حضور ﷺ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرت کہ انت منی بمنزلۃ ھرون من موسیٰ 1 ؎ ابن کثیر ص 292 ج 3 2 ؎ ابن کثیر ص 394 ج 3 3 ؎ ابن کثیر ص 494 ج 3 و معالم التنزیل ص 871 ج 3 4 ؎ ابن ماجہ ص 5 من المعانی 23 ج 22 تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کی نیابت ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) نے انجام دی تھی الا انہ لا نبی بعدی فرق صرف اتنا ہے کہ ان کے بعد تو اور بھی نبی آئے مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اسی طرح حضرت عمر ؓ کی تعریف میں حضور ﷺ کے یہ کلمات بھی ہیں لو کان بعدی نبیا لکان عمر اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ؓ ہوتا۔ آپ نے اپنے فرزند ابراہیم ؓ کے متعلق بھی فرمایا کہ اگر وہ زندہ ہوتا تو نبی ہوتا یعنی اللہ نے اس میں بڑی صلاحیت رکھی تھی ، مگر میرے بعد تو نبوت کا دروازہ ہی بند ہوچکا ہے۔ جھوٹے مدعیان نبوت اللہ تعالیٰ اور حضور ﷺ کے ان واضح فرمودات کے باوجود آپ کے بعد بہت سے لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ خود حضور ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد تیس دجال اور کذاب آئیں گے ، ان میں سے ہر ایک نبوت کا دعویٰ کرے گا۔ مگر میں تو خاتم النبیین ہوں لا نبی بعدی میرے بعد کوئی سچا نبی نہیں آئے گا ، جو بھی دعویٰ کرے گا ، وہ جھوٹا ہوگا۔۔ جھوٹے مدعیان نبوت میں مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی نے تو حضور ﷺ کی زندگی مبارک میں ہی نبوت کا دعویٰ کردیا تھا۔ مسیلمہ کذاب حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کے دوران مارا گیا۔ اس شخص کا اپنا بہت بڑا قبیلہ تھا ، پھر اس نے دوسروں کو بھی ساتھ ملا لیا اور بہت بڑا دجل پیدا ہوا۔ آخر مارا گیا تو یہ فتنہ ختم ہوا۔ صحابہ کرام ؓ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضور ﷺ کے بعد ہر مدعی نبوت کافر اور واجب القتل ہے۔ چناچہ مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ لڑی گئی۔ مورخین کے مطابق یہ اتنا بڑا فتنہ تھا کہ اسے فرو کرنے میں گیارہ سو حفاظ اور قاری شہید ہوئے تھے ، اور دونوں طرف سے چالیس ہزار آدمی کام آئے تھے۔ 1 ؎ درمنشور ص 404 ج 5 2 ؎ ترمذی ص 323 امام ابوحنیفہ کے زمانے میں دوسری صدی میں بھی ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ار کہا کہ میں نبوت کے ثبوت میں معجزہ بھی پیش کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اس شخص کے متعلق شرح فقہ اکبر میں امام صاحب کا یہ فتویٰ موجود ہے کہ جو شخص اس جھوٹے مدعی نبوت کا معجزہ دیکھنے کی خواہش ظاہر کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا۔ جب حضور ﷺ نے واضح کردیا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ تو پھر کسی جھوٹے نبی کا معجزہ دیکھنے کا مطلب یہ ہوگا۔ کہ حضور کی ختم نبوت میں شک ہے اور اسی وجہ سے امام صاحب نے ایسے شخص پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ قادیانی فتنہ مرزا غلام احمد قادیانی کا معاملہ بھی مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی جیسا ہی ہے بابک خرمی اور متبنی بھی مدعیان نبوت ہوئے ہیں۔ جنوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا۔ اسی طرح اس شخص نے بھی بڑا دجل پھیلایا اور بہت سے لوگ اس کے جھانسے میں آگئے۔ دجال کی یہ واضح نشانی ہے کہ وہ متضاد باتیں کرتا ہے۔ جب ایک بات کہہ کر پھنس گیا تو پھر دسوری کردی۔ مرزا قادیانی نے بھی یہی کچھ کیا۔ پہلے نبوت کا دعویٰ کیا۔ جب اس پر اعتراضات کی بوچھاڑ آئی تو کہنے لگا کہ میں ظلی نبی ہوں کبھی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ مسیح موعود نے عیس ابن مریم (علیہ السلام) ۔ حضور ﷺ کی احادیث کے پیش نظر ساری امت کا اتفاق ہے کہ مسیح (علیہ السلام) دوبارہ دنیا پر نازل ہوں گے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت حضور ﷺ کے بعد نہیں بلکہ چھ سو سال پہلے ہے۔ جب وہ دنیا میں دو بار آئیں گے تو نبی کی حیثیت سے نہیں ، بلکہ حضور ﷺ کے نائب کی حیثیت سے آئیں گے۔ جیسے امت کا کوئی مججدد ہوتا ہے وہ اپنا دستور تو نہیں چلائیں گے بلکہ حضور خاتم النبیین ﷺ کی سنت اور آپ کی لائی ہوئی کتاب پر ہی عمل کریں گے۔ اللہ نے ان کو ایک خاص مصلحت یعنی دجال کو قتل کرنے کے لئے آسمان پر زندہ رکھا ہے۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ حضور ﷺ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لہٰذا زید ؓ کے بھی باپ نہیں ہیں۔ البتہ ساری امت کے روحانی باپ اور اللہ کے آخری نبی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے ذریعے جاہلیت کے باطل نظریے کو رد کردیا۔ و کان اللہ بکل شیء علیما سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ جو شخص بھی اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی خلاف ورزی کرے گا وہ ہمیشہ کے لئے غائب و خاسر بن جائے گا۔
Top