Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 7
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ١۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ١ؕ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا
لِلرِّجَالِ
: مردوں کے لیے
نَصِيْبٌ
: حصہ
مِّمَّا
: اس سے جو
تَرَكَ
: چھوڑا
الْوَالِدٰنِ
: ماں باپ
وَالْاَقْرَبُوْنَ
: اور قرابت دار
وَلِلنِّسَآءِ
: اور عورتوں کے لیے
نَصِيْبٌ
: حصہ
مِّمَّا
: اس سے جو
تَرَكَ
: چھوڑا
الْوَالِدٰنِ
: ماں باپ
وَالْاَقْرَبُوْنَ
: اور قرابت دار
مِمَّا
: اس میں سے
قَلَّ
: تھوڑا
مِنْهُ
: اس سے
اَوْ كَثُرَ
: یا زیادہ
نَصِيْبًا
: حصہ
مَّفْرُوْضًا
: مقرر کیا ہوا
مردوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جسے والدین اور قرابت داروں نے چھوڑا ہے اور عورتوں کے لیے بھی حصہ ہے جسے والدین اور قرابت داروں نے چھوڑا ہے تھوڑا ہو اس سے یا زیادہ حصہ مقرر کیا ہوا
ربط آیات گزشتہ آیت میں یتیم لڑکوں کے بالغ ہونے پر ان کے مال ان کو واپس لوٹانے کا مسئلہ بیان ہوا۔ گزشتہ سے پیوستہ میں مال کی حفاظت کا قانون تھا اور اس سے پہلے عورتوں کے ساتھ انصاف کا برتائو کرنے اور ان کے مہر خوش دلی سے ادا کرنے کی تلقین تھی ، اس سے پہلے یہ مسئلہ بیان ہوا تھا کہ یتیموں کے مال کو ناجائز طریقے سے کھاجانا سخت گناہ ہے۔ اب یہاں سے اللہ تعالیٰ نے وراثت کے قوانین کا آغاز فرمایا ہے۔ آج کی آیت میں تو قانون وراثت کا اجمالی تذکرہ ہے اور زمانہ جاہلیت میں عورتوں اور چھوٹے بچوں کے ساتھ وراثت کے معاملہ میں جو زیادتی ہوتی تھی اس کا رد کیا گیا ہے تاہم وراثت کے مفصل قوانین آگے آرہے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں قانون وراثت زمانہ جاہلیتی میں دیگر معاشرتی قوانین کی طرح وراثت کے متعلق بھی کوئی مستقل قانون نہیں تھا ، جو طریقہ رائج ہوگیا ، اسی کے مطابق نسل درنسل عمل ہوتا رہتا تھا۔ وراثت کے متعلق مروجہ دستور یہ تھا کہ مرنے والے کے بیوی بچوں میں سے نہ تو بیوہ کو کچھ ملتا تھا اور نابالغ بچوں کو دیا جاتا تھا اگر مرنے والے کا کوئی جوان بیٹا ہوتا تو ساری وراثت کا حق دار وہی سمجھا جاتا اور باقی بیوی بچے محروم رہ جاتے ۔ وہ لوگ باپ کی وراثت کا حق دار اس بیٹے کو سمجھتے تھے جو لڑائی میں حصہ ینے کے قابل ہو ، تیر ، تلواریانیزہ چلاسکتا ہو دشمن پر حملہ آور ہوسکتا ہو اور اپنا دفاع بھی کرسکتا ہو۔ چھوٹے بچے اس معیار پر پورے نہیں اترتے تھے لہٰذا انہیں ترکے میں سے کچھ نہیں ملتا تھا۔ تقریباً اسی قسم کا قانون ہندوئوں میں بھی پایا جاتا ہے وہ بھی بڑے بیٹے کو ہی وارث بناتے ہیں۔ انگریزوں میں بھی کم وبیش یہی قانون رائج ہے۔ مگر ایسے تمام قوانین غلط اور ظالمانہ ہیں جن میں ساری اولاد کے ساتھ مساویانہ سلوک نہ کیا گیا ہو۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے وراثت کا وہ قانون نازل فرمایا جو حق و انصاف پر مبنی ہے اور انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ شان نزول آج کی آیت کریمہ کا شان نزول حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت سے ملتا ہے۔ حضور ﷺ کے زمانہ میں یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک صحابی اوس ؓ بن ثابت فوت ہوگئے ، صاحب جائیداد تھے ، اپنے پیچھے بیوی ، دو بیٹیاں اور ایک کمسن بیٹا چھوڑا ، مروجہ قانون وراثت کے مطابق ان میں سے کوئی بھی وراثت کا حق دار نہیں تھا۔ چناچہ مرنے والے کے بھائیوں سوید اور عرفطہ نے ساری جائیداد پر قبضہ کرلیا۔ حقیقی اولاد کے وراثت سے محروم ہونے کی بناء پر بطور عصبہ وہی مالک تھے۔ اس صورت حال میں حضرت اوس ؓ کی بیوہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا حضور ! اوس کے پس ماندگان میں سے ہم چار موجود ہیں مگر وراثت میں سے ہمیں کچھ بھی نہیں ملا اس لیے ہماری گزر اوقات کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے قانون وراثت کی یہ آیت نازل فرمائی۔ وراثت کا اجمالی قانون وراثت کے تفصیلی احکام تو آگے آرہے ہیں تاہم یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اجمالی طور پر یہ بات سمجھائی ہے کہ وراثت کا جاہلانہ دستور جس میں وراثت صرف نوجوان بیٹوں کو ہی ملتی تھی اور عورتیں اور بچے محروم رہ جاتے تھے یہ بالکل غلط تھا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا للرجال نصیب مما ترک الوالدان والا قربونمرنے کے بعد والدین اور دیگر قرابت دار جو کچھ چھوڑ جائیں اس میں مردوں کا حصہ ہے اور اسی طرح وللنساء نصیب مما ترک الوالدن والا قربون والدین اور اقربا کے ترکہ میں سے عورتوں کا بھی حصہ ہے۔ جہالت کے قانون کے تحت عورتوں کو محروم رکھنا ہرگز قرین انصاف نہیں ، بلکہ ان کے ساتھ صریحاً ظلم ہے۔ اور پھر اس میں چھوٹے بڑے کا بھی کوئی فرق نہیں۔ بیوی کا حصہ موجود ہے۔ بیٹا خواہ بڑا ہو یا چھوٹا برابر کا حصے دار ہے۔ اسی طرح ہر عمر کی بیٹیاں بھی اپنا حصہ وصول کرنے کی حق دار ہیں۔ عمر میں چھوٹا بڑا ہونے کی بناء پر وراثت کے حصہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ باپ کی وفات کے وقت ایک دن کے بچے کو بھی برابر کا حصہ ملے گا ، بلکہ جو بچہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہے وہ بھی وراثت میں برابر کا شریک ہے۔ شریعت اسلامیہ نے عورت مرد یا چھوٹے بڑے کی تمام تفریق ختم کردی ہے۔ ہر وارث اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ حصہ وصول کرنے کا حقدار ہے۔ قانون وراثت میں استثناء البتہ بعض استثناء ہیں جن میں حقیقی اولاد بھی وراثت سے حصہ نہیں لے سکتی۔ سب سے پہلے پیغمبر (علیہ السلام) کی ذات گرامی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔ نحن معاشر الانبیاء لانورث ماترکنا صدقۃ یعنی ہم انبیاء کی جماعت مورث (جن کی وراثت تقسیم کی جائے) نہیں بنا کرتے ، یعنی ہماری وراثت کسی کو نہیں ملتی۔ ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ غربا اور مساکین کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔ گویا ایک تو پیغمبر کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی۔ ہاں پیغمبر اپنے باپ کی وراثت سے حصہ لے سکتا ہے بشرطیکہ باپ خود پیغمبر نہ ہو۔ وراثت میں دوسرا استثنایہ ہے کہ مسلم اور غیر مسلم کے درمیان وراثت تقسیم نہیں ہوتی۔ لایرث المسلم للکافروالا الکافر السلم یعنی نہ مسلمان کافر کا وارث بن سکتا ہے اور نہ کافر مسلمان کی وراثت میں سے حصہ لے سکتا ہے۔ اگر باپ مسلمان ہے اور بیٹا عیسائی ، مرزائی یا کسی طرح مرقد ہوگیا ہے تو وہ باپ کی وراثت سے محروم ہوگیا ہے اسی طرح بیٹا مسلمان ہے اور باپ کا فر ہے تو پھر بیٹا کافر باپ کی وراثت نہیں لے سکتا۔ حضرت علی ؓ اور حضرت جعفر ؓ مسلمان تھے مگر ان کے دو دوسرے بھائی کافر تھے۔ باپ کی وفات پر حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ ہم کافر باپ کی جائیداد سے حصہ لینے کے مجاز نہیں لہٰذا باپ کا مکان کافر بھائیوں طالب اور عقیل نے لے لیا۔ اگرچہ بعد میں فتح مکہ کے موقع پر عقیل بھی مسلمان ہوگئے تھے تاہم یہ طے شدہ قانون شریعت ہے کہ مومن اور کافر کے درمیان وراثت نہیں چلتی۔ یہ دوسری استثنا ہے۔ فرمایا تیسری استثنا یہ ہے کہ قاتل مقتول کا وارث نہیں بن سکتا۔ بیٹا باپ کو قتل کردے یا بھتیجا ایسے چچا کو قتل کردے جس کی وراثت اس کو پہنچ سکتی تھی تو اس قتل کی وجہ سے وہ مقتول کی وراثت سے محروم ہوجائے گا اسی طرح آزاد اور غلام کے درمیان بھی وراثت نہیں چلتی۔ باپ بیٹے میں سے کوئی بھی غلام ہے۔ تو اس کی وراثت آزاد بیٹے یا آزاد باپ کو نہیں ملے گی۔ آزاد آدمی کی وراثت کا حقدار اس کا آزاد وارث ہی ہوسکتا ہے۔ ارتکاز دولت اس آیت کریمہ سے یہ بات بھی اخذ ہوتی ہے کہ ترکہ کا مال بہرحال تقسیم ہونا چاہیے مماقل منہ اوکثر تھوڑا ہو یا زیادہ سب کا سب تقسیم ہوجاناچاہیے۔ ترکہ میں نقدی ہو یا سامان ، مکان ہو یا زمین ، برتن ہوں یا کپڑے ، کسی کمپنی کے حصص (SHARES) ہوں یا کارخانہ ہرچیزف ورثا میں بانٹ دینی چاہیے۔ اگر وراثت تمام وارثان میں بقدر حصہ تقسیم نہیں ہوگی ، تو ارتکاذ دولت پیدا ہوجائے گی اور یہ چیز اسلام کی روح کے منافی ہے سورة حشر میں جہاں مال فے کی تقسیم کا تذکرہ ہے وہاں فرمایا کہ اس میں فلاں فلاں کا حصہ ہے کی لایکون دولۃ بین الا غنیا منکم تاکہ دولت صرف دولت مندوں میں ہی مرتکز ہو کر نہ رہ جائے۔ اسے غرباء و مساکین سب تک پہنچنا چاہیے۔ معاشرے میں مال وزر کی مثال ایسے ہی ہے جیسے انسانی جسم میں خون ہے۔ جسم کے جس حصے میں خون کی گردش رک جائے گی وہ حصہ مردہ ہوجائے گا۔ اسی طرح معاشرے کے جس طبقہ میں مال کی گردش نہیں پہنچتی وہ حصہ بھی ناکارہ ہوجاتا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ دولت کو پورے نہیں پہنچتی وہ حصہ بھی ناکارہ ہوجاتا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ دولت کو پورے معاشرے میں گردش کرنا چاہیے کسی حصے میں بھی اس کی رکاوٹ پسندیدہ نہیں وراثت کی تقسیم بھی گردش زر کا ایک ذریعہ ہے لہذا وراثت تمام حقداروں میں تقسیم ہونی چاہیے۔ فرمایا اگر ایک گز کپڑا دس وارثوں میں قابل تقسیم ہے تو اسے تقسیم کرنا چاہیے۔ ہاں اگر ورثاء آپس میں طے کرلیں تو کوئی بھی ناقابل تقسیم چیز کسی ایک کے سپرد کرکے اس حصہ دار سے اپنے حصہ کے مطابق نقدی وصول کی جاسکی ہے۔ کارخانہ یا مکان ہے جسے عملی طور پر کئی حصے داروں میں تقسیم کرنے سے نقصان ہونے کا خطرہ ہے تو ایسی صورت میں اس چیز کی قیمت مقرر کرو۔ پھر وہ چیز کوئی ایک حصہ دار اپنے ذمہ لے کر باقیوں کو بقدر حصہ روپیہ ادا کردے یا پوری کی پوری جائیداد فروخت کرکے تمام حصہ دار اپنا اپنا حصہ نقدی کی صورت میں وصول کرلیں۔ بہرحال فرمایا ارتکاذ دولت (CONCENTRATION OF WEALTH) نہیں ہونی چاہیے۔ یہاں یہ چیز بھی یاد رہے کہ تقسیم وراثت صرف والدین اور اولاد کے درمیان ہی ضروری نہیں بلکہ شریعت کے مطابق جسے بھی حصہ پہنچتا ہے خواہ وہ چچا ہو یا تایا یا اس کے بیٹے یا بھائی یا دادا یا پوتا ترکہ کا مال لازماً تقسیم ہونا چاہیے کسی حصے دار کا حصہ ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ وراثت کے حق دار وراثت کا مقصل قانون آگے آرہا ہے تاہم اجمالاً یوں کہا جاسکتا ہے۔ میت کا ترکہ اس شخص کو پہنچے گا جو رشتہ میں باپ کی طرف سے اس کے زیادہ قریب ہوگا۔ پھر اس سے دور والا اور اس کے بعد اس سے دور کے رشتہ دار وراثت کے حقدار ہوتے ہیں قرآن وسنت کی رو سے تین قسم کے رشتہ دار وراثت کے حقدار ہوتے ہیں یعنی ذوی الفروض ، عصبات ، اور ذوی الارحام ، ذی الفروض وہ قریبی رشتہ دار ہیں جن کے حصص قرآن پاک نے مقرر فرمادئیے ہیں اور یہ مختلف صورتوں میں مختلف ہوتے ہیں۔ ان میں کل وراثت کا آٹھواں ، چوتھا ، نصف یا کل حصہ قابل تقسیم ہوتا ہے ۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر وہ اقربا آتے ہیں جو میت کے زیادہ قریب ہوں ، ان میں بیٹا ، چچا ، تایا ان کے بیٹے وغیرہ آتے ہیں۔ یہ عصبات کہلاتے ہیں۔ اور تیسرے نمبر کے رشتہ دار ذوی الارحام کہلاتے ہیں۔ جب باپ کی طرف سے میت کا کوئی وارث موجود نہ ہو تو پھر ماں کی طرف سے رشتہ دار بھی وراثت میں شامل ہوتے ہیں جیسے ماموں ، بھانجا وغیرہ۔ اس مسئلہ میں فقہائے کرام میں کچھ اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ امام شافعی (رح) صرف دو قسم کے اقربا یعنی ذوی الفروض اور عصبات کی وراثت کے قائل ہیں وہ فرماتے ہیں۔ اگر ان دو اقسام میں سے کوئی وارث نہ ہو ، تو ترکہ بیت المال میں جمع ہوجائے گا۔ البتہ امام ابوحنیفہ (رح) ذوی الارحام کو بھی وراثت میں حصہ دیتے ہیں۔ بشرطیکہ پہلی دو اقسام یعنی ذوی الفروض اور عصبات میں سے کوئی موجود نہ ہو۔ حضور ﷺ کا اپنا فرمان بھی ہے الخال وارث من الاوارث لہ جب اور کوئی وارث نہ ہو تو ماموں بھی وارث ہے۔ مقرر حصص فرمایا وراثت کا مال تھوڑا ہو یا زیادہ اس کی تقسیم بہرحال ہونی چاہیے اور کم سے کم حصے دار کو بھی محروم نہیں کرنا چاہیے۔ منشائے ایزدی یہی ہے۔ آگے فرمایا نصیباً مفروضا اللہ تعالیٰ نے یہ حصے اپنی حکمت نامہ سے مقرر فرمادیے ہیں۔ ان میں نہ تو کوئی کمی بیشی ہوسکتی ہے اور نہ کسی کو بالکل محروم کیا جاسکتا ہے۔ آگے صراحتاً یہ بیان آتا ہے کہ وراثت کا قانون کسی انسان یا اور مخلوق کا قانون نہیں بلکہ یہ قانون اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص حکمت سے وضع فرمایا ہے اس میں ترمیم وتنسیخ کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس وارث کو کتنا حصہ ملنا چاہیے نیز یہ کہ تمہارے حق میں کون سی چیز بہتر ہے بہرحال اس آیت میں اللہ نے وراثت کا اجمالی قانون بیان فرمادیا ہے ، آگے تفصیلات آرہی ہیں۔
Top