Mualim-ul-Irfan - Al-Anfaal : 15
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب لَقِيْتُمُ : تمہاری مڈبھیڑ ہو الَّذِيْنَ : ان لوگوں سے كَفَرُوْا : کفر کیا زَحْفًا : (میدان جنگ میں) لڑنے کو فَلَا تُوَلُّوْهُمُ : تو ان سے نہ پھیرو الْاَدْبَارَ : پیٹھ (جمع)
اے ایمان والو ! جب تمہاری ٹکر ہو ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا لڑائی میں ، پس نہ پھیرو ان کی طرف پشتیں
ربط آیات : گزشتہ آیات میں میدانِ بدر میں مسلمانوں کی بےسروسامانی کی حالت میں کامیابی کا ذکر تھا۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے جس قسم کے اسباب پیدا کیے اور اپنی طرف سے جو خاص مہربانی فرمائی ، اس کا بیان ہوا۔ اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے ساتھ مقابلہ کرنے سے متعلق بعض قوانینِ صلح وجنگ بیان فرمائے ہیں دنیا میں فتنہ و فساد کی بیخ کنی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے بعض اوقات جہاد بالسیف ضروری ہوجاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جنگ میں پیش آنے والے بعض مسائل کے متعلق احکام نازل فرمائے ہیں۔ اسی طرح بعض اوقات جنگ کو ترک کر کے مصالحت کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے مصالحت کا قانون بھی دیا ہے اگر اہل ایمان ان قوانین کی پانندی کریں گے تو دنیا اور آخرت میں سرخروئی پائیں گے ، ورنہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ جنگ کے دوران ثابت قدمی : ارشاد ہوتا ہے ( آیت) یایھا الذین امنوا اے ایمان والو ( آیت) اذا لقیتم الذین کفروا زحفا جب میدانِ جنگ میں تمہاری کافروں کے ساتھ ٹکر ہو ، یعنی جب دو نظریات آپس میں متصادم ہوں اور کفار اپنا باطل پروگرام ترک کرنے پر تیار نہ ہوں بلکہ الٹا اسلام کو مغلوب کرنا چاہیں تو لا محالہ ان سے جنگ ہوگی۔ یہ بات سورة کی ابتداء میں بھی بیان ہوچکی ہے کہ کفار اسلام کے راستے کو ہر صورت میں روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کی آخری خواہش یہی ہے کہ کس طرح کفر کو غالب بنایا جائے ، تو ایسی صورت میں جنگ ناگزیر ہوگی اور اہل ایمان اس سے دامن نہیں بچا سکیں گے جب جنگ لازمی ہوگئی تو پھر اس کے اصول و ضوابط بھی ضروری ہیں اور یہی چیز اللہ نے یہاں بیان فرمائی ہے۔ زحف کا لفظی معنی گھسٹ کر چلنا ہے چھوٹے بچے کے لیے رمعف الصبی بولا جاتا ہے کہ وہ پائوں پر نہیں چل سکتا اور گھسٹ کر چلتا ہے اس سے مراد لشکر کا اکٹھا ہونا ہے جب بہت بڑا لشکر مل کر چلتا ہے تو بھیڑ کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ حرکت کرتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے گھسٹ کر چل رہا ہے ۔ بہرحال مطلب یہ ہے کہ جب میدان جنگ میں تمہاری دشمن کے ساتھ مڈبھیڑ ہو ( آیت) فلا تولوھم الادبار تو تم ان کی طرف پشتیں پھیر کر مت بھاگو بلکہ دشمن کے مقابلہ میں ثابت قدم رہو اور کمزوری نہ دکھائو۔ بعض خواہشات کی ممانعت : حدیث شریف میں آتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا لا تتمنوا لقاء العدو یعنی دشمن کے ساتھ ٹکر لینے کی تمنا کرو بل سلوا اللہ العافیۃ بلہ اللہ تعالیٰ سے خیروعافیت کا سوال کیا کرو۔ فرمایا ( آیت) واذا لقیتم جب دشمن سے آمنا سامنا ہو ہی جائے ( آیت) فاعلموا ان الجنۃ تحت ظلال السیوف تو جان لو کہ جنت تلواروں کے سایہ میں ہے جب تم پر جنگ ٹھونس دی جائے تو پھر ڈٹ کر مقابلہ کرو اور پیٹھ نہ دکھائو۔ محدثین اور فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ بیماریوں کے متعلق بھی یہی اصول ہے کوئی مومن بیماری کی خواہش نہ کرے اور اگر بیماری لاحق ہوجائے تو پھر صبر کرے ، بیماری کو برداشت کرے اور جزع فزع نہ کرے ، اللہ تعالیٰ اسی میں اجر عطافرمائے گا۔ بہرحال فرمایا کہ جنگ کی خواہش نہیں کرنی چاہیے تا ہم اگر مسلط ہوجائے تو پھر پائے استقلال میں لغزش نہیں آنی چاہیے۔ مقابلہ کے لیے معیار کا تقرر : اسلام کے ابتدائی زمانے میں کفار سے مقابلے کے لیے مسلمانون کو کڑی آزمائش سے گزرنا پڑتا تھا۔ ان کے لیے حکم تھا کہ دشمن کی تعداد تم سے خواہ دس گنا بھی زیادہ ہو ، تم نے پیٹھ نہیں دکھانی بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کرنا ۔ پھر اللہ نے تخفیف فرما دی اور اس طرح حد بندی کردی کہ اگر دشمن تم سے دگنی تعداد میں ہوں تو ان کا مقابلہ کرنا ضروری ہے اور اگر اس سے زیادہ یعنی چار گنا یا دس گنا ہوں تو پھر جنگ سے کنارہ کشی اختیار کی جاسکتی ہے۔ یہ مضمون آگے اسی سورة میں آرہا ہے کہ اب اللہ نے تم پر تخفیف کردی ہے۔ اگر تم میں سے ایک سو صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو کافروں پر غالب آئیں گے اور ایک ہزار صابر مجاہدین دوہزار کفار کے لیے کافی ہون گے۔ تو فرمایا جب کفار سے ٹکر ہوجائے تو پھر ثابت قدم رہو ، کیونکہ یہ بت بڑا اصول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ میں حضرت دائود (علیہ السلام) کے ساتھیوں کا ذکر فرمایا ہے۔ انہوں نے بھی خدا تعالیٰ سے یہی دعا کی تھی ( آیت) ربنا افرغ علینا صبرا وثبت اقدامنا اے اللہ ! ہمیں صبر عطا کر اور ہمارے قدموں کو دشمن کے مقابلے میں مضبوط کر دے ( آیت) وانصرنا علی القوم الکٰفرین اور ہمیں کفار پر نصرت عطا فرما غرضیکہ ثابت قدمی جنگ کا پہلا قانون ہے۔ اسلامی فلسفہ جنگ : آگے اللہ نے جنگ کا اسلامی فلسفہ بھی بیان فرمایا ہے اہل ایمان کے لیے جنگ مقصود بالذات نہیں ہے اغیار کی جنگ سے مراد ملک گیری ، مال و دولت کا حصول یا لوگوں کو غلام بنانا ہوتا ہے ، برخلاف اس کے مسلمانوں کا جنگ سے مقصود اقامتِ دین ہوتا ہے اس کا واحد مقصد ( آیت) کلمۃ اللہ حی العلیا یعنی اللہ تعالیٰ کی بات کو بلند کرنا ہوتا ہے کا کافر بےعقل ہیں جو عصبیت کی وجہ سے جنگ کرتے ہیں برخلاف اس کے اہل ایمان صاحب عقل ہیں ، جنگ سے ان کا واحد مقصد غلبہ دین ہوتا ہے۔ پسپائی کی سزا : حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ دشمن کے ساتھ جنگ کے دوران بھاگ کھڑے ہونا اکبرالکبائر یعنی بڑے گناہوں میں سے ہے آج کے درس مٰں اللہ تعالیٰ نے پسپا ہونے والوں کے لیے سزا کا ذکر بھی کیا ہے فرمایا ( آیت) ومن یولھم یومیئذ دبرہ جو آدمی لڑائی کے دن کافروں کی طرف سے پیٹھ پھیر کر بھاگے گا ( آیت) فقد باء بغضب من اللہ بیشک وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹا ، اللہ تعالیٰ بھاگنے والوں پر ناراض ہوگا اور ایسے لوگ یہود کی طرح مغضوب علیہ ٹھہریں گے اس کا نتیجہ یہ ہوگا ( آیت) وماوھم جھنم ایسے شخص کا ٹھکانا جہنم ہوگا ( آیت) وبئس المصیر اور جہنم لوٹ کر جانے کی بہت بڑی جگہ ہے۔ لہٰذا میدانِ جنگ سے پیٹھ نہیں پھیرنی چاہیے ورنہ آدمی جہنم میں پہنچ جائے گا۔ استثنائی صورتیں : البتہ لڑائی سے بھاگنے کے لیے دو صورتوں میں استثناء بھی ہے پہلی صورت یہ فرمائی ( آیت) الا متحرفا القتال کہ کوئی شخص اس لیے بھاگ آیا ہے تا کہ لڑائی میں پینترا بدل سکے اور دشمن کو جھانسہ دے کر دوبارہ حملہ آور ہو حضور کا فرمان ہے کہ لڑائی دائو پیچ کا نام ہے لہٰذا دائو پیچ کے طور پر پیچھے ہٹ آنے والے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ اور دوسرا استثناء اس صورت میں ہے ( آیت) اومتحیرا الیٰ فئۃ یا وہ اپنے گروہ کے پاس ٹھکانہ پ کرنے والا ہو عربی میں حیز مکان کو کہتے ہیں یعنی جس مقام پر اس کے باقی ساتھی ہیٰں ان کے پاس پہنچ جائے تا کہ ان کے ساتھ مل کر کوئی بہتر جنگی حکمت عملی اختیار کرسکے تو ایسی صورت میں بھی گنہگار نہیں ہوگا ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا بیان ہے کہ حضور ﷺ نے ایک دستہ دشمن کے مقابلے کے لیے روانہ کیا ۔ لشکر کو وہاں کی صورت حال کے پیش نظر پسپائی اختیار کرنا پڑی تا ہم انہیں سخت پریشانی ہوئی کہ کہیں وہ اللہ کے ہاں اس کوتاہی پر سزا کے مستحق نہ ٹھہریں واپس آکر انہوں نے صورت حال حضور ﷺ کے گوش گزار کی اور ساتھ اپنی مذکورہ پریشانی کا بھی ذکر کیا آپ نے فرمایا ، فکر نہ کرو ( آیت) انتم العکارون وانا فئتکم تم پیچھے بدل آنے والے ہو اور میں تمہارا گروہ ہوں تمہیں واپس لوٹ آنے پر کچھ ملامت نہیں تم جہنم میں جانے والے نہیں ہو بلکہ اپنے گروہ کے پاس پہنچ جانے والے ہوتا کہ بہتر تدبیر نکالی جاسکے تو فرمایا ان دوصورتوں کے علاوہ اگر کوئی مسلمان جنگ سے بھاگ آئے گا تو وہ خدا کے غضب کا نشانہ بنے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہوگا۔ اصل قانون یہی ہے اور باقی ساری ضمنی باتیں ہیں جو نمبروار آتی رہیں گی۔ بہر حال دشمن کے مقابلے میں ثابت قدر ہنا بہت عظیم قانون ہے۔ بدر میں امداد غیبی : اب اللہ نے بدر کے میدان میں مسلمانوں کی فتح کی حقیقت کو اس طرح بیان فرمایا ہے ( آیت) فلم تقتلوھم اے مسلمانوں ! جنگ بدر امداد غیبی میں جو کفار کثیر تعداد میں قتل ہوئے ان کو تم نے قتل نہیں کیا تھا ( آیت) ولٰکن اللہ قتلھم بلکہ انہیں اللہ نے قتل کیا تھا کفار کی شکست اللہ تعالیٰ کی امدادِ غیبی کی بناء پر ہوئی تھی اس نے ایسے اسباب پیدا فرمائے جس کی وجہ سے تمہیں فتح حاصل ہوگئی وگرنہ ( آیت) وانتم اذلۃ ( آلِ عمران) تم تو بہت ہی کمزور تھے ، نہ تمہارے پاس جنگی ہتھیار ، نہ سواریاں اور نہ افرادی قوت برخلاف اس کے دشمن کے پاس سب کچھ تھا اور پھر انہیں پیچھے سے کمک پہنچنے کی امید بھی تھی مگر اس کے باوجود مسلمانوں کی فتح امداد غیبی کی مرہونِ منت تھی۔ مٹھی بھر سنگریزے : امام رازی لکھتے ہیں کہ جب بدر کی لڑائی زوروں پر تھی تو جبرائیل (علیہ السلام) نے آکر حضور ﷺ سے فرمایا کہ ایک مٹھی بھر سنگریزے لے کر دشمن کی طرف پھینکیں ، چناچہ طبرانی کی روایت میں آتا ہے کہ آپ نے صحابہ ؓ سے سنگریزے اٹھانے کو فرمایا۔ انہوں نے دیے تو حضور ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے کفار کی طرف پھینک دیے اور زبان سے فرمایا شاھت الوجوہ یعنی کفار کے چہرے ذلیل و خوار ہوجائیں خدا کی قدرت وہ سنگریزے ہر کافر کی آنکھ میں پڑے وہ پریشان ہو کر آنکھیں ملنے لگے تو ادھر مسلمانوں نے فیصلہ کن حملہ کر کے کفار کی کمر توڑ دی۔ بہرحال یہ اللہ تعالیٰ کی خاص امداد تھی کہ مٹھی بھر کنکروں نے سارے کافروں کو پریشان کردیا۔ اسی واقعہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہاں یاد دلایا ہے ( آیت) وما رمیت اذ رمیت اے پیغمبر ! جو مٹھی بھر سنگریزے پھینکے تھے وہ دراصل آپ نے نہیں پھینکے تھے۔ ( آیت) ولکن اللہ رمی بلکہ وہ تو اللہ نے معجزانہ طور پر پھینکے تھے جس کی وجہ سے کفار کا زور ٹوٹ گیا اور وہ مغلوب ہوگئے اور اس کاروائی سے اللہ تعالیٰ کا یہ بھی مقصود تھا ( آیت) ولیبلی المومنین منہ بلاء حسنا تا کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو اپنی طرف سے آزمائے بہت اچھی طرح آزمانا اللہ تعالیٰ کو اہل ایمان کی ثابت قدمی کی آزمائش بھی کرنا تھی ( آیت) ان اللہ سمیع علیم بیشک اللہ تعالیٰ ہر بات کو سننے والا اور ہر چیز کو جاننے والا ہے مسلمانوں کی ساری محنت ، کوشش اور کاوش اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ کفار کی کمزوری : فرمایا ( آیت) ذلکم یہ بات تو ہوچکی جس کو تم دیکھ چکے ہو ( آیت) وان اللہ موھن کید الکفرین بیشک اللہ تعالیٰ کافروں کی تدبیر کو کمزور کرنے والا ہے۔ وہ پورے سازوسامان اور افرادی قوت کے ساتھ بدر کے میدان میں اترے تھے اور مسلمانوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردینا چاہتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا مطلب یہ ہے کہ کافروں کی شکست اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق ہوئی اس میں مسلمان اپنا کوئی کمال نہ سمجھیں۔ پہلے گزر چکا ہے کہ کس طرح مسلمان اللہ رب العزت سے فریاد کرتے تھے ، پھر اللہ نے ان کی دعا کو شرف ِ قبولیت بخشا اللہ نے بشارت سنائی فرشتے نازل فرمائے دلوں کو تسکین بخشی شدید خطرے کے دوران نیند طاری کر کے دلوں کو سکون بخشا ، عین موقع پر بارانِ رحمت کا نزول فرما کر مسلمانوں کے حق میں مادی اسباب پیدا کیے اور شیطان کے وسوسوں کو دور کیا اور اس طرح مسلمانوں کو فتح کے تمام اسباب مہیا کیے پھر آخر میں حضور ﷺ کے ہاتھوں سے مٹی پھینکوا کر کافروں کو پریشان کردیا اور اس طریقے سے اہل ایمان کی فتح کے لیے راستہ ہموار کیا۔ تو فرمایا اللہ تعالیٰ کافروں کی تدبیر کی سست کمزور اور ناکام کرنے والا ہے۔ فیصلے کی گھڑی : یہاں تک تو مسلمانوں پر احسانات جتلا کر انہیں قانونِ خداوندی کی پانبدی کا حکم دیا گیا ہے اب آگے روئے سخن کفار کی طرف ہوتا ہے ارشاد ہوتا ہے ( آیت) ان تستفتحوا اے کفار کا گروہ ! اگر تم فیصلہ چاہتے ہو مکی زندگی میں مشرکین اہل ایمان سے کہا کرتے تھے کہ تم کس کامیابی کی امید لگائے بیٹھے ہو ؟ ( آیت) متی ھذا الفتح ان کنتم صدقین (السجدہ) اگر تم سچے ہو تو بتائو تمہارے رب کا فیصلہ کب آئے گا ؟ اسی سوال کے جواب میں اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر تم فیصلہ طلب کرتے ہو ( آیت) فقد جآء کم الفتح : تو وہ فیصلہ آگیا ہے اللہ تعالیٰ نے تمہاری بربادی اور مسلمانوں کی کامیابی کا فیصلہ دے دیا ہے ( آیت) وان تنتھوا فھو خیرلکم اگر تم اب بھی کفر ، شرک سے باز آجائو ، توبہ کرکے دین حق کو قبول کرلو تو تمہارے لیے یہی بہتر ہے ( آیت) وان تعدوا اور اگر تم اپنے باطل عقیدہ پر ہی پلٹ کر آئو گے ( آیت) تعد تو ہم بھی پلٹ کر تمہارے ساتھ ایسا ہی سلوک کریں گے تمہیں ذلیل و خوار کریں گے اور مسلمانوں کو غالب کریں گے کیونکہ وہ صراط مستقیم پر ہیں۔ فرمایا یاد رکھو ! ( آیت) ولن تغنی عنکم فئتکم شیئا تمہارا جتھ ، گروہ اور پارٹی تمہارے کسی کام نہ آئے گا ( آیت) ولو کثرت اگرچہ وہ کتنی ہی کثیر تعداد میں کیوں نہ ہو۔ واضح بات یہ ہے ( آیت) وان اللہ مع المومنین کہ بیشک اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے ساتھ ہے اس کا وعدہ ہے کہ میری تائید ونصرت تمہارے ساتھ ہے ( آیت) ان کنتم مومنین اگر تم سچے پکے ایماندار ہو یہ وعدہ اللہ تعالیٰ نے بدر کے موقع پر پورافرما دیا اور کافروں کی سازوسامان اور اسلحہ سے لیس کثیر تعداد کو مسلمانوں کی بےسروسامان اور قلیل تعداد کے سامنے ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا۔ یہ بات اچھی طرح نوٹ کر لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے مدد کا وعدہ ایمان کے ساتھ مشروط فرمادیا ہے اگر ایمان کمزور ہے تو پھر اللہ کی ۔۔ زیادہ امید نہیں رکھنی چاہیے آج لوگ پاکستان کا جشن آزادی تو منا رہے ہیں ڈھول ڈھکے اور باجے گاجے ہو رہے ہیں ناچ گانے کا انتظام ہے فوجی پریڈ بھی ہو رہی ہے مادی ترقی کے بھی بلند بانگ دعوے لیے جا رہے ہیں مگر یہ تو بتائو کہ اس ملک خداداد میں دین کے غلبہ کے لیے کام کیا ہے ؟ چاہیے تو یہ تھا کہ یہاں اسلامی قانون نافذ ہوتا ، فتنہ فساد بند ہوتا ہر آدمی کی عزت اور مال محفوظ ہوتا ، اعلی وادنی کا تفاوت مٹتا مگر یہاں تو وہی جھگڑے فساد ، پارٹی بازی ، جہالت ، فرقہ بندی اور بداخلاقی کا دور دورہ ہے آپ نے ایمان کے تقاضے پورے نہیں کیے تائید خداوندی کیے حاصل ہوگی ؟ تمہاری مشکلات کا مداوا کیسے ممکن ہے اور تمہیں سکون کی زندگی کیسے نصیب ہو سکتی ہے ؟ پہلے ایمان کے تقاضے پورے کرو پھر دیکھو اللہ تعالیٰ اپنی نصرت کے وعدے کس طرح پورے کرتا ہے تم نے تو زوال کے اسباب اکھٹے کر رکھے ہیں ان سے ترقی کی امید کیسے لگائے بیٹھوہو۔ اللہ تعالیٰ بیشک مومنوں کے ساتھ ہے ، پہلے مومن بن کے دکھائو۔
Top