بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - Hud : 1
اَتٰۤى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
اَتٰٓى : آپہنچا اَمْرُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ : سو اس کی جلدی نہ کرو سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک وَتَعٰلٰى : اور برتر عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک بناتے ہیں
اور جب شام کو انھیں (جنگل سے) لاتے ہو اور) جب صبح کو (جنگل) چرانے لیجاتے ہو تو ان سے تمہاری عزت وشان ہے۔
آیت نمبر 6 الجمال وہ شے جس سے خوبصورتی اور زیب وزینت حاصل کی جائے۔ اور الجمال کا معنی حسن ہے۔ اور جمل الرجل (ضمہ کے ساتھ) جمالا فھو جمیل (آدمی حسین ہوا) ، اور المرأۃ جمیلۃ (عورت حسین ہے) اور جملاء بھی صفت آتی ہے۔ یہ کسائی سے منقول ہے۔ اور شاعر نے کہا ہے : فھی جملاء کبدر طالع بذت الخلق جمیعا بالجمال اور ابو ذؤیب کا قول ہے : جمالک ایھا القلب القریح مراد یہ ہے : تو اپنے حسن و جمال اور اپنے حیاء کو لازم پکڑ اور برمی اور قبیح جزع فزع نہ کر۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : پس حسن و جمال صورت اور ترکیب اعضاء میں ہوتا ہے، اور اخلاق باطنہ میں ہوتا ہے، اور افعال میں ہوتا ہے، پس جہاں تک خلقت اور صورت کے حسن و جمال کا تعلق ہے تو وہ ایسا امر ہے جس کا ادراک آنکھ کرسکتی ہے اور اسے نرمی اور ملائمت کے ساتھ دل کی طرف متوجہ کرسکتی ہے، اور اسکے چہرے کی پہچان کے بغیر اور انسانوں میں سے کسی کی طرف اس کی نسبت کے بغیر نفس اس کے ساتھ متعلق ہوجاتا ہے۔ اور رہا اخلاق کا جمال تو یہ صفات محمودہ کی بنا پر ہوتا ہے مثلاً علم، حکمت و دانائی، عدل، پاکدامنی، غصہ کو پی جانا، اور ہر ایک کے لئے خیر کا ارادہ کرنا اور جہاں تک افعال کے جمال کا تعلق ہے تو اس کا وجود مخلوق کے مصالح اور منافع کے لئے ملائمۃ اور نرمی اختیار کرنے اور ان میں جلب منافع کے فیصلے کرنے اور ان سے شر اور برائی کو دور کرنے سے ہوتا ہے۔ اونٹوں اور چوپاؤں کا جمال جمال خلقت میں سے ہے، اور وہ آنکھوں کے ساتھ دکھائی دیتا ہے اور دیکھنے والوں کے موافق ہوتا ہے۔ اور ان کے حسن و جمال میں سے ان کا کثیر ہونا ہے اور لوگ جب انہیں دیکھیں تو ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ فلاں کے جانور ہیں ؛ یہ سدی نے کہا ہے۔ اور اس لئے کہ جب وہ شام کو چر کر واپس آتے ہیں تو ان کا حسن زیادہ ہوچکا ہوتا ہے، ان کی شان عظیم ہوجاتی ہے، اور دل ان کے ساتھ معلق ہوجاتے ہیں، کیونکہ اس وقت چرنے کے سبب ان کا موٹاپا اور ان کے کھیر دودھ کے سبب بڑھے ہوئے ہوتے ہیں ؛ یہ حضرت قتادہ نے کہا ہے۔ اسی معنی کی وجہ سے رواح (شام کے وقت واپس آنا) کو سراح (صبح کے وقت چرانے کے لئے لے جانا) پر مقدم کیا ہے۔ کیونکہ ان کا دودھ اور ان کے سبب نفس کا سرور اس حالت میں مکمل ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ اور اشہب نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا ہے : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ولکم فیھا جمال حین تریحون وحین تسرحون۔ (البحل) اور یہ مویشیوں میں اس وقت ہوتا ہے جب وہ چراگاہ کی طرف آتے جاتے ہوں۔ اور الرواح شام کے وقت چراگاہ سے واپس لوٹنا ہوتا ہے اور سراح صبح کے وقت اسکی طرف جانا ہوتا ہے، تو کہتا ہے : سرحت الابل أسرحھا سرحا وسروحا جب تو صبح کے وقت اونٹ کو چراگاہ کی طرف لے جائے اور اسے چھوڑ دے، وسرحت یہ متعدی اور لازم دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی میں ہے۔
Top