بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Quran-al-Kareem - Hud : 1
الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ خَبِیْرٍۙ
الٓرٰ : الف لام را كِتٰبٌ : کتاب احْكِمَتْ : مضبوط کی گئیں اٰيٰتُهٗ : اس کی آیات ثُمَّ : پھر فُصِّلَتْ : تفصیل کی گئیں مِنْ : سے لَّدُنْ : پاس حَكِيْمٍ : حکمت والے خَبِيْرٍ : خبردار
الۤرٰ۔ ایک کتاب ہے جس کی آیات محکم کی گئیں، پھر انھیں کھول کر بیان کیا گیا ایک کمال حکمت والے کی طرف سے جو پوری خبر رکھنے والا ہے۔
سورة ہود الرا دیکھیے سورة بقرہ کی پہلی آیت۔ اس سورت میں توحید کی دعوت، انبیاء کی اس دعوت کے دوران میں عزیمت اور ان پر گزرنے والے حالات و واقعات، انھیں جھٹلانے والوں کا بدترین انجام اور ان پر آنے والے عذابوں کے تذکرے اور اہل ایمان کی نجات اور ان پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر ہے۔ چونکہ اس میں انذار (ڈرانے) کا پہلو غالب ہے اس لیے رسول اللہ ﷺ پر اس کا بہت اثر ہوا، چناچہ عبداللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر ؓ نے عرض کیا : (یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! قَدْ شِبْتَ ، قَالَ شَیَّبَتْنِیْ ھُوْدٌ وَالْوَاقِعَۃُ وَالْمُرْسَلاَتُ وَ (عَمَّ يَتَسَاۗءَلُوْنَ) وَ (اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ) [ ترمذی، التفسیر، باب ومن سورة الواقعۃ : 3297۔ السلسلۃ الصحیحۃ : 955 ] ”یا رسول اللہ ! آپ بوڑھے ہوگئے۔“ فرمایا : ”مجھے ہود، واقعہ، مرسلات، عم یتساء لون اور تکویر نے بوڑھا کردیا۔“ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ : یہاں قرآن کریم کی چار صفات بیان ہوئی ہیں، پہلی یہ کہ یہ قرآن (پڑھا جانے والا مجموعہ) کتاب (لکھا ہوا مجموعہ) بھی ہے، دوسری یہ کہ اس کی آیات محکم یعنی خوب پختہ، مضبوط اور اٹل نازل کی گئی ہیں، جن میں کوئی عیب یا کمی نہیں اور نہ وہ (مجموعی اعتبار سے) منسوخ ہیں، نہ منسوخ ہوں گی اور نہ اس کے مقابلے میں کوئی کتاب لائی جاسکتی ہے، خواہ ساری مخلوق جمع ہوجائے، ایسی محکم آیات والی کتاب صرف یہ ہے۔ ثُمَّ فُصِّلَتْ : تیسری یہ کہ اس کی آیات ایسی واضح ہیں اور کھول کر بیان کی گئی ہیں کہ کسی آیت کے مفہوم میں ابہام یا پیچیدگی نہیں ہے، پھر ساری کتاب مختلف سورتوں اور آیتوں میں تقسیم ہے۔ ہر آیت جدا جدا ہے، اپنی جگہ مستقل، ایک بیحد خوبصورت ہار کی طرح جو رنگا رنگ مضامین توحید، آخرت، نبوت، قصص کے موتیوں سے پرویا ہوا ہے اور وہ نہایت مناسب فاصلے، ترتیب اور حسن سے اپنی اپنی جگہ جگمگا رہے ہیں، پھر نزول میں بھی آیات اور سورتیں ضرورت کے مطابق الگ الگ نازل کی گئی ہیں۔ ”فصلت“ میں یہ سب باتیں آجاتی ہیں۔ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ : چوتھی یہ کہ یہ کسی انسان، فرشتے، جن یا کسی بھی مخلوق کی تصنیف نہیں، بلکہ اس ذات پاک کا کلام ہے جو حکیم ہے۔ حکیم کا ایک معنی پختہ و محکم بنانے والا ہے، جس کی بنائی ہوئی ہر چیز نہایت محکم، پختہ اور مضبوط ہے، فرمایا : (صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْٓ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ) [ النمل : 88 ] ”اس اللہ کی کاری گری سے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔“ یعنی پہاڑ اور ان کا قیامت کو بادلوں کی طرح چلنا اس اللہ کی کاری گری ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ جب اس کی مخلوق کا یہ حال ہے تو اس کے کلام کے محکم ہونے کی کوئی حد ہوگی ؟ حکیم کا دوسرا معنی حکمت، یعنی دانائی والا ہے، یعنی اس کی تمام آیات کمال حکمت اور دانائی سے پُر ہیں، خبیر یعنی ان کو اتارنے والا ہر چیز سے پوری طرح باخبر ہے۔
Top