بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - Hud : 1
الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ خَبِیْرٍۙ
الٓرٰ : الف لام را كِتٰبٌ : کتاب احْكِمَتْ : مضبوط کی گئیں اٰيٰتُهٗ : اس کی آیات ثُمَّ : پھر فُصِّلَتْ : تفصیل کی گئیں مِنْ : سے لَّدُنْ : پاس حَكِيْمٍ : حکمت والے خَبِيْرٍ : خبردار
آگیا اللہ کا حکم، پس تم لوگ جلدی مت مچاؤ اس کے لئے، پاک ہے وہ (وحدہ، لا شریک) اور بہت بلند (وبالا) ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں،3
1۔ (امر اللہ) " اللہ کے حکم " سے مقصودومراد ؟ : یعنی قیام قیامت اور عذاب منکرین۔ (جامع البیان محاسن التاویل، ابن کثیر اور صفوۃ التفاسیر وغیرہ) سو اس کو تم لوگ خواہ کتناہی دور اور بعید سمجھو وہ بہرحال قریب ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا گیا۔ (اقترب للناس حسابہم وہم فی غفلۃ معرضون) ۔ (الانبیاء : 1) ۔ نیز ارشاد فرمایا گیا۔ (اقتربت الساعۃ وانشق القمر) ۔ (القمر : 1) اور جب کہ ہر آدمی کی قیامت اس کی موت ہی ہے، جس کے بعد اس کے لیے تیاری وغیرہ کا کوئی موقع نہیں رہے گا۔ تو ہر شخص کی قیامت بہر حال اس کے قریب اور بہت ہی قریب ہے کہ کسی کو خبر نہیں کہ اس کی موت کب، کہاں اور کیسے آئے گی۔ نیز (امر اللہ) " اللہ کے حکم " کے عموم میں وہ عذاب بھی داخل ہے جو کہ کفار و مشرکین وغیرہ ناہنجاروں کو ایک معمولی قسط کے طور پر اس دنیا میں بھی ملتا ہے۔ والعیاذ باللہ۔ وہ بھی بہرحال ان کے قریب ہی ہے۔ کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کب، کہاں سے، کس شکل میں آجائے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ جیسا کہ بدر وغیرہ میں ہوچکا ہے۔ اور اب تک بھی بدستور جگہ جگہ اور طرح طرح سے ہوتا رہتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ پھر چونکہ یہ قیامت اللہ کے حکم سے اور اچانک آجائے گی، جیسا کہ فرمایا گیا (لاتاتیکم الا بغتہ) الایۃ (الاعراف : 87) نیز فرمایا گیا (ولیاتینہم بغتۃ وہم لایشعرون) (العنکبوت : 53) اس لیے اس کو یہاں پر (امر اللہ) " اللہ کے حکم " سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ کہ اس کو بپا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کو کسی تیاری کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بلکہ یہ محض اس کے ایک اشارہ اور حکم وارشاد سے فوری طور پر بپا ہوجائیگی۔ پس تم لوگ اس کو بعید نہ سمجھو بلکہ ہمیشہ اس کی فکر و تیاری میں رہو کہ پتہ نہیں وہ کب اور کس حال میں آجائے۔ اور اس وقت کف افسوس ملنے سے کچھ فائدہ نہ ہو۔ والعیاذ باللہ العظیم جل وعلا۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی میں لوگوں کے لیے تنبیہ و تذکیر ہے کہ وہ اپنے انجام اور اپنی موت کو یاد کرکے تیاری کریں اور غفلت میں عمررواں کی فرصت محدود کو ضائع نہ کریں۔ کیونکہ یہ وہ دولت ہے جو ہاتھ سے نکل جانے کے بعد بھر کبھی نہیں مل سکے گی۔ 2۔ عذاب کے لئے جلدی مچانے والوں کو تنبیہ : سو ایسے لوگوں سے کہا گیا کہ تم جلدی مت مچاؤ اس لیے کہ اس نے اپنے وقت پر بہرحال آکررہنا ہے۔ پس تو تم لوگ اس کے لیے جلدی مچانے کی بجائے اس میں ہونے والے عذاب سے بچنے اور محفوظ رہنے کی فکر کرو اور حیات مستعار کی اس فرصت کو اس لیے غنیمت سمجھو کہ یہ ہاتھ سے نکل جانے کے بعد پھر کبھی ملنے والی نہیں ہے۔ سو وہ لوگ بڑی بھول میں ہیں جو اس کے لئے فکر اور تیاری کرنے کی بجائے اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اور اس طرح وہ ایک نہایت ہی ہولناک انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایسے منکروں اور کافروں وغیرہ کو ایک دھوکہ یہ بھی لگتا ہے اور وہ اس طرح کے خبط میں مبتلا ہوتے ہیں کہ قیامت اور آخرت وغیرہ ہوئی بھی تو وہاں ہمارے لئے ہمارے فلاں ملاں شریک اور سفارشی ہمیں خدا کے عذاب سے بچا لیں گے۔ اس لئے ہمیں کسی کی کوئی پرواہ نہیں۔ اور کچھ اسی طرح کی غلط فہمی اور ایسے ہی خبط میں وہ کلمہ گو مشرک بھی مبتلا ہیں جنہوں نے از خود طرح طرح کے ناموں سے مختلف ہستیاں اور خود ساختہ سرکاریں گھڑ رکھی ہیں کہ ان کی اللہ تعالیٰ کے ہاں خاص پہنچ ہے۔ ان کا اس کے یہاں خاص درجہ و مرتبہ ہے۔ یہ جو چاہیں کرواسکتی ہیں۔ " ہماری وہ سنتا نہیں اور ان کی رد نہیں کرتا " پس " ہماری ان کے آگے اور ان کی اس کے آگے " اور اسی طرح کے مفروضوں کی بناء پر ایسے لوگ نماز روزہ وغیرہ فرائض اور احکام الہی کی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔ سو شرک کے ان ماروں اور ان کی ایسی شرکیات پر ضرب کاری لگاتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ وہ پاک اور کہیں بلند وبالا ہے ان چیزوں سے جن کو ایسے لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ پس ایسے لوگ جو اس طرح کے کسی خبط میں مبتلا ہیں وہ اپنی اصلاح کرلیں قبل اس سے کہ اصلاح کا موقع ان کے ہاتھ سے نکل جائے، ورنہ اپنے ہولناک انجام کے لیے تیار ہوجائیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top