بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Hud : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اتَّقُوْا : ڈرو رَبَّكُمْ : اپنا رب اِنَّ : بیشک زَلْزَلَةَ : زلزلہ السَّاعَةِ : قیامت شَيْءٌ : چیز عَظِيْمٌ : بڑی بھاری
اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو بلاشبہ قیامت کا زلزلہ ہو لناک ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 10 الساعۃ (قیامت۔ گھڑی) ‘ تذھل (غافل ہو جائیگی۔ بھول جائیگی) ‘ مرضعۃ (دودھ پلانے والی) ‘ تضع (ضائع کردیگی۔ گرادیگی) ‘ ذات حمل (حاملہ عورت) ‘ سکری (سکران) نشے۔ یجادل (جھگڑتا ہے) ‘ یتبع (اتباع کرتا ہے۔ پیچھے لگ جاتا ہے) ‘ مرید (سرکش۔ ضدی) ‘ تولی (دوست ہوا) ‘ السعیر (اگ ۔ جھنم) ‘ ریب (شک وشبہ) ‘ البعث (دوبارہ زندہ ہونا۔ جی اٹھنا) ‘ تراب (مٹی) ‘ نطفۃ (بوند) ‘ علقۃ (جما ہوا خون۔ لوتھڑا) ‘ مضغۃ (گوشت کا لوتھڑا۔ گوشت کی بوٹی) ‘ مخلقۃ (شکل صورت والا) ‘ نقر (ہم روکتے ہیں۔ ہم ٹھراتے ہیں) ‘ ارحام (رحم) (رحم) ‘ طفل (بچہ) ‘ اشد (قوت ۔ کمال) ‘ یرد (لوٹادیا گیا) ‘ ارذل العمر (نکمی عمر۔ پست ترین عمر) ‘ ھامدۃ (مرجھائی ہوئی۔ دبی ہوئی۔ خشک) ‘ اھتزت (تروتازہ) ‘ ربت (اونچی اٹھی ہے۔ پھولتی ہے) ‘ انبتت (اگتی ہے۔ پھولتی ہے) ‘ بھیج (بھجۃ) رونق دار۔ شگفۃ ‘(یبعث) دوبارہ زندہ کرتا ہے۔ اٹھا کھڑا کرتا ہے ‘(منیر) روشن۔ منور ‘(ثانی) (پھیرنے والا) ‘ عطف (کروٹ۔ بازو۔ شانہ) ‘ نذیق (ہم چکھائیں گے) ‘ خزی (رسوائی۔ ذلت) ‘ الحریق (جلتی اگ) ‘ ظلا م (بہت ظلم کرنے والا) ‘ عبید (عبد) بندے ‘ تشریح آیت نمبر 1 تا 10 : ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے اے لوگو ! اپنے پروردگار سے اور قیامت کے اس ہولناک دن سے ڈرو جو اچانک ایسا زبردست زلزلہ اور بھونچال آئے گا جس کی شدت سے ہر شخص کے ہوش اڑ جائیں گے۔ اس دن کی دہشت کا یہ عالم ہوگا۔ کہ شفقت و محبت کرنے والی ماں اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی۔ حمل والیوں کے حمل گر جائیں گے۔ ہر شخص ایسا لگے گا جیسے وہ نشہ کی حالت میں ہے۔ حالانکہ وہ نشہ نہیں بلکہ اللہ کے عذاب اور قہر کی دہشت کا اثر ہوگا۔ جس سے اس پر بوکھلاہٹ طاری ہوگی۔ اس دن سوائے نیکی ‘ تقوی ‘ پرہیز گاری اور خوف الہٰی کے کوئی چیز انسان کے کام نہ آسکے گی۔ حضرت علقمہ اور حضرت شعبی کی وہ روایتیں جن کو بخاری و مسلم نے نقل کیا ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زلزلہ اور بھونچال آنے کے بعد قیامت واقع ہوگی۔ قیامت آنے سے پہلے سورج مخالف سمت سے نکلے گا۔ پھر صور پھونکا جائے گا جس سے ساری مخلوق جو قبروں میں ہے یا جس کے ذرات کائنات میں بکھرے ہوئے ہیں سب کی سب زندہ ہو کر میدان حشر میں جمع ہوجائے گی۔ اور پھر ہر ایک سے اس کی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب لیاجائے گا۔ قیامت کا واقع ہونا ایک ایسی سچائی ہے جس سے انکار ممکن ہی نہیں ہے لیکن بعض لوگ شیطان کے بہکائے میں آکر یا اپنی جہالت و نادانی کی وجہ سے بغیر کسی علمی دلیل کے قیامت کا انکار کر بیٹھتے ہیں اور ہر مردود شیطان کے پیچھے لگ کر اسکا کہنا مانتے ہیں اور وہ پوری زندگی اسی بحث میں گذاردیتے ہیں کہ قیامت آئے گی یا نہیں ؟ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق اور کائنات میں ہونے والی تبدیلیوں کو مثال کے طور پر بتایا ہے۔ فرمایا اگر انسان اپنی تخلیق اور پیدائش پر ہی غور کرلے کہ اس کو کیسے اور کس طرح پیدا کیا ہے ؟ تو اس کو یہ حقیقت سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ کیونکہ اس کا اپنا وجود ہی اس کی بہت بڑی دلیل ہے۔ فرمایا کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ ایک نا پاک قطرہ جس کو نطفہ کہتے ہیں وہ ایک عرصہ تک ماں کے پیٹ میں رہ کر جمے ہوئے خون کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور پھر وہ گوشت کے بےجان لوتھڑے کی شکل بن جاتا ہے جس کی کوئی صورت شکل نہیں ہوتی۔ پھر اللہ جیسی صورت شکل دینا چاہتا ہے ویسی شکل و صورت بن جاتی ہے۔ جس کو رحم مادر میں جتنے دن ٹھہرانا یا رکھنا چاہتا ہے اس کو ٹھہراتا ہے جس کو نہیں چاہتا اس کو نہیں ٹھہراتا۔ پھر ایک مدت مقرر کے بعد وہ بچو پوری انسانی شکل اختیار کر کے اللہ کے حکم سے اس دنیا میں قدم رکھتا ہے اور آہستہ آہستہ طاقت و قوت حاصل کر کے انسانی معاشرہ کا حصہ بن جاتا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی نطفہ یعنی مادہ ہر چالیس دن میں ایک نئی حالت اور صورت شکل اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ چناچہ بخاری و مسلم نے حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے اس روایت کو نقل کیا ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ (1) انسانی نطفہ ماں کے رحم میں چالیس دن تک ایک جیسی حالت میں پڑا رہتا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ (2) پھر چالیس دن کے بعد یہ نطفہ علقہ یعنی جمے ہوئے خون کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ (3) پھر چالیس دن کے بعد مضغہ یعنی گوشت کے لوتھڑے جیسا بن جاتا ہے۔ (اس چار مہینے کی مدت کے بعد) ۔ (4) اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے جو اس بچے کے جسم میں روح پھونک دیتا ہے۔ (5) پھر اس کے بعد فرشتے کو چار باتیں لکھوادی جاتی ہیں یا (لکھنے کی ہدایت کی جاتی ہے) اس بچے کی عمر کتنی ہوگی ؟ کتنا رزق دیاجائے گا ؟ وہ کیسے کام کرے گا ؟ وہ بد بخت ہوگا۔ یا سعادت مند ؟ اس کے بعد اس بچے کے اعضا مکمل ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر ایک دن وہ مکمل انسانی شکل میں اس دنیا میں پہنچا دیاجاتا ہے۔ یہ اللہ کا نظام ہے کوئی چبہ ماں کے پیٹ ہی میں مکمل یا نامکمل ہونے کے باوجود پیٹ ہی مریں مرجاتا ہے کوئی پیدا ہونے کے بعد بچپن میں مرجاتا ہے کوئی جوانی اور عمر طبعی کو پہنچ کر مر جاتا ہے۔ کسی کو بڑھاپا نصیب ہوتا ہے کوئی جوانی ہی میں مرجاتا ہے۔ کوئی شخص بڑھاپے کی اس نکمی عمر تک پہنچ جاتا ہے جس کو ” ارذل العمر ” کہا جاتا ہے جہاں دیکھنے ‘ سننے ‘ سمجھنے کی طاقتیں کمزور پڑجاتی ہیں۔ عقل و فہم اور شعور و دانش ‘ علم و تجربہ اور معلومات اس کے ذہن و فکر سے اس طرح مٹا دیئے جاتے ہیں کہ وہ سب کچھ جاننے کے باوجود کچھ بھی نہیں جانتا ‘ ایک ننھے بچے اور اس بوڑھے میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ اس نکمی اور بیکار زندگی سے اللہ کے حبیب ﷺ نے بھی پناہ مانگی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی عمر کتنی ہی زیادہ یا مختصر ہو آخر کار اس کو موت کے دروازے سے گذر کر اللہ کے ہاں پہنچنا ہے۔ وہ اس دنیا اور اس کے وسائل اور معاملات کو چھوڑ کر رخصت ہوجاتا ہے اللہ کا یہ نظام ہے جو ازل سے چلا آرہا ہے اور چلتا رہے گا۔ یہ اس کا نظام ہے کہ ایک انسانی وجود بنتا ہے ‘ ابھرتا ہے ‘ رونقیں پیدا کرتا ہے اور پھر موت کی آخوش میں جا کر سوجاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس دنیا میں دن رات ہوتا رہتا ہے جس کو ہر ایک اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ یہاں کسی کو ہمیشہ کی زندگی حاصل نہیں ہے۔ فرمایا کہ اسی طرح اس کائنات کا بھی یہی عالم ہے کہ یہ ابھر کر ‘ رونقیں بکھیر کر آخر کار ایک دن ختم ہوجائے گی اسی کو قیامت کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری مثال یہ دی ہے کہ تم کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہو کہ ایک خشک ‘ بنجر اور مردہ زمین ہے جب اس پر بارش برستی ہے تو اس میں ایک نئی زندگی کے آثار پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ بارش کے پانی سے زمین پھولتی ہے ‘ ابھرتی ہے ‘ کونپلیں پیدا ہوتی ہیں ‘ قسم قسم کے نباتات ‘ سبزہ ‘ سبزی اور پھل پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ہر طرف سرسبزی و شادابی ‘ حسن و خوبصورتی اور پھبن پیدا ہوجاتی ہے ‘ درخت جھومنے اور کھیت لہلہانے لگتے ہیں۔ پھر اس کے بعد کھیتیاں سوکھنا اور زرد ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ درختوں کے پتے جھڑ کر بےرونق وہ جاتے ہیں اور اسی طرح بہار خزاں سے بدل جاتی ہے۔ فرمایا کہ تم جس طرح اس سارے عمل کو دیکھتے ہو اسی طرح یہ نظام کائنات ہے جو اپنی عمر طبعی کو پہنچ کر اس دنیا کی رونقیں اور خوبصورتیاں ختم ہوجائیں گی اور قیامت قائم ہوجائے گی۔ ان حقائق کی روشنی میں اگر کوئی آنکھوں کا اندھا ہو تو اور بات ہے ورنہ جس شخص میں ذرا بھی عقل و فہم اور بصیرت موجود ہے وہ قیامت کا انکار کر ہی نہیں سکتا۔ یہ تو اللہ کا نظام ہے جو چلتا رہے گا۔ فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ جب قیامت قائم ہوجائے گی کیا ہم نے اس کی تیاری کررکھی ہے ؟ کیونکہ جو شخص وہاں ناکام ہوگیا اس کو دوبارہ موقع نصیب نہ ہوگا۔
Top