بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Hud : 1
الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ خَبِیْرٍۙ
الٓرٰ : الف لام را كِتٰبٌ : کتاب احْكِمَتْ : مضبوط کی گئیں اٰيٰتُهٗ : اس کی آیات ثُمَّ : پھر فُصِّلَتْ : تفصیل کی گئیں مِنْ : سے لَّدُنْ : پاس حَكِيْمٍ : حکمت والے خَبِيْرٍ : خبردار
الف۔ لام۔ را (حروف مقطعات) (یہ قرآن وہ) کتاب ہے جس کی آیتوں کو محکم (مفصل ) کر کے ایک حکمت اور خبر رکھنے والے کی طرف سے صاف صاف بیان کیا گیا ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 4 احکمت (مضبوط کی گئی ہے) فصلت (کھول کھول کر بیان کی گئی) الاتعبدوا (یہ کہ تم عبادت نہ کرو گے) نذیر (برے انجام سے ڈرانے والا) بشیر (اچھے اعمال پر خوش خبری دینے والا) استغفروا (تم گناہوں کی معافی مانگو) تو بوا (تم توبہ کرو، توجہ کرو) یمتع (وہ سامان (زندگی) دے گا مسمی (مقرر ، متعین) یوت (وہ دے گا) ذی فضل (فضل والا، زیادہ کام کرنے والا) اخاف (میں ڈرتا ہوں) تشریح : آیت نمبر 1 تا 4 سورئہ ھود کی ان چار آیات میں سمندر کو کو زے میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ ان آیات کی مختصر تشریح ملاحظہ کر لیجیے۔ 1) آلر اس سورت کا آغاز حروف مقطعات سے کیا گیا ہے۔ یعنی جن حروف کے معنی اور مراد کا علم اللہ رب العزت ہی کو ہے۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان حروف کے معانی اپنے محبوب رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو بتا دیئے ہوں۔ لیکن آپ ﷺ نے ان کے معافی نہیں بتائے۔ صحابہ کرام نے بھی ان حروف کے معانی نہیں پوچھے لہٰذا اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے ہمیں اس بات پر یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ ان کے معنی اور مراد کیا ہیں۔ اس سے پہلے سورة بقرہ وغیرہ میں تفصیل سے بتا دیا گیا ہے۔ ان معلومات کی ذہن میں تازہ کرنے کے لئے اتنا سمجھل یجیے کہ حروف مقطعات قرآن کریم کی انتسل سورتوں کی ابتداء میں آئے ہیں۔ کہیں یہ حروف ایک حرف ہیں کہیں دو تین، چار اور پانچ کا مجموعہ ہیں۔ بہرحال پانچ حروف سے زیادہ کا مجموعہ نہیں ہے۔ 2) کتاب احکمت ایتہ یعنی ان قرآنی آیات کو اللہ تعالیٰ نے نہایت مستحکم ، مضبوط جچی تلی دلیلوں کے ساتھ بھیجا ہے۔ دنیا کے حالات کسی بھی رخ پر جائیں۔ کوئی بھی کروٹ لیں کائنات میں کتنی ہی بڑی سے بڑی تبدیلی آجائے۔ علم و تحقیق میں جتنی بھی ترقی ہوجائے لیکن قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصولوں اور حقائق میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ ہمارا دور کمپیوٹر اور سائنسی ترقی کا دور ہے۔ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کمپیوٹر اور سائنس جنتی بھی ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہیں وہ ہر دن اسلام کیا صولوں کی سچائی کو کھولتے چلے جا رہے ہیں۔ ہمیں ان سائنسی ترقیات سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کی فکر تو ان مذہبوں کو ہونی چاہئے جن کی بنیاد مستحکم اور مضبوط سچائیوں پر نہیں ہے لیکن جس قرآن کریم کی بنیاد ان مستحکم بنیادوں پر ہے جو اللہ نے ہمیں عطا فرمائی ہیں تو انسان کے علم و تحقیق کو جوان ہونے دیجئے پھر دنیا کی ہر قوم قرآن کی سچائیوں کو ماننے پر مجبور ہوجائے گی۔ 3) لم فصلت من لدن حکمک خبیر ترجمہ : پھر ان آیات کو ایک حکمت اور خبر رکھنے والی ذات نے صاف صاف اور کھول کر بیان کردیا ہے۔ قرآن کریم کی ہزاروں خصوصیات میں سے ایک سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی آیات اس قدر واضح اور کھلی ہوئی ہیں کہ جن میں گہرائی کے باوجود کوئی منطقی اور فلسفیانہ انداز نہیں ہے بلکہ اس قدر سادہ اور صاف صاف باتیں بتائی گئی ہیں جن کو ہر شخص نہایت آسانی اور سہولت سے سمجھ سکتا ہے اور ان کو ان آیات پر عمل کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوتی۔ ایک تو واضح اور کھلی ہوئی آیات ہیں اور پھر اس ذات کی طرف سے ان آیات کو نازل کیا گیا ہے جس کی نگاہ سے کائنتا کا کوئی ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ وہی ذات ہر طرح کی حکمت و مصلحت سے بخوبی واقف ہے۔ 4) الا تعبدوا الا اللہ ترجمہ :- تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت و بندگی نہ کرو۔ اس حکیم وخبیر ذات کا پہلا حکم ی ہے کہ اللہ ہی سب کا پروردگار ہے وہی خلاق ومالک ہے اس کے سوا کسی کی عبادت و بندگی نہ کی جائے، کیونکہ انسان جب اس در سے اپنی پیشانی کو ہٹا کر کسی بھی غیر اللہ کے در پر اپنی ” جبین نیاز “ کو جھکاتا ہے تو یہ اس کی سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے۔ وہی معبود ہے اس کے سوا کوئی عبادت و بندگی کے لائق نہیں ہے لہٰذا انسان کی عزت و عظمت کا راز اسی میں پوشیدہ ہے کہ وہ سوائے اللہ کے کسی کے سامنے سر نیاز کو نہ جھکائے ورنہ اس کو ہر در پر اپنی پیشانی جھکانی پڑے گی۔ کسی شاعر نے اچھی بات کہی ہے۔ وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات تمام انبیاء کرام صرف اسی پغیام کو لے کر آئے ہیں کہ انسان کی تباہی اس دن سے شروع ہوجاتی ہے جب وہ اللہ کی ذات صفات میں شرک کرتے ہوئے اپنی پیشانی کو دوسروں کے سامنے جھکاتا ہے ۔ قرآن کریم میں تمام انبیاء کرام کی زبان سے یہی کہلوایا گیا ہے کہ اے لوگو ! تم ایک اللہ کو چھوڑ کر کسی کی عبادت و بندگی نہ کرو۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بات بھی اپنی اپنی قوم کو بتا دی تھی کہ اگر تم اللہ کے ساتھ شرک و کفر سے باز نہ آئے تو اللہ تمہاری بستیوں کو اور تمہاری ترقیات کو تہس نہس کر دے گا کیونکہ وہ ہر گناہ کو معاف کردیتا ہے لیکن شرک بہت بڑا گناہ ہے یہ وہ ظلم عظیم ہے جس کو اللہ کبھی معاف نہیں کرتا۔ اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے بھی یہی پغیام دیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن لوگوں نے کفر و شرک کے ہر انداز سے توبہ کر کے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کی وہی کامیاب و بامراد ہوئے۔ دنیا بھی ان کو ملی اور آخرت بھی ان کا مقدر بن گئی لیکن جنہوں نے کفر و شرک کو اپنا دین و ایمان بنا لیا اللہ تعالیٰ نے ان سے سب کچھ چھین کر دنیا اور آخرت کی بربادی ان کے لئے مقرر فرما دی۔ جب نبی کریم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا اس وقت سارے عرب میں غیر اللہ کی عبادت و بندگی کا یہ حال تھا کہ بیت اللہ میں تین سو ساٹھ پتھروں کے بےجان بت رکھے ہوئے تھے جو ان کی مختلف تمناؤں کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے جب یہ فرمایا کہ اے مکہ کے لوگو ! اللہ کے گھر میں غیر اللہ کے بت۔ یہ کیا تماشا ہے۔ اس کو بیت اللہ بھی کہتے ہو اور غیروں سے مانگتے ہو۔ ان کا جواب یہی ہوتا تھا کہ ہم مانتے ہیں کہ اللہ ہی سب کچھ ہے لیکن جب تک یہ بت اس کی بارگاہ میں ہماری سفارش نہ کردیں اس وقت تک اللہ ہماری بات نہیں سن سکتا۔ ان کا یہ بھی جواب ہوتا تھا کہ ہم ہی کیا ہمارے باپ داداے یہی کرتے آئے ہیں جن بارگاہوں اور آستانوں سے ہمارے باپ دادا سب کچھ حاصل کرتے رہے ہیں وہی ہمارے حاجت روا ہیں۔ نبی مکرم ﷺ نے بتایا کہ یہ تمہاری سب سے بڑی بھول ہے۔ اگر تم ان سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ تمہارا انجام بھی وہی کرے گا جو تم سے پہلی قوموں کا کرچکا ہے۔ بہرحال سعادت مند روحیں آپ کی طرف متوجہ ہوئیں۔ ان لوگوں نے اللہ سے معافی مانگی اور وہ صحابیت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوگئے وہ ایسی عظمتوں کے پیکر بن گئے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ ان کی عظمت پر ناز کرتا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے اپنی روش زندگی کو تبدیل نہیں کیا انہوں نے اپنی دنیا میں خراب کرلی اور آخرت بھی۔ (5) اننی لکم منہ نذیر و بشیر ترجمہ،- بیشک میں تو اس کی طرف سے ڈرانے والا اور بشارت دینے والا با کر بھیجا گیا ہوں۔ آیت کے اس ٹکڑے میں نبی کریم ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان سب سے یہ کہہ دیجئے کہ میں تو اس اللہ کی طرف سے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا گیا ہوں جو اس ساری کائنات کا مالک ہے۔ میرا کام تو یہ ہے کہ میں تمہیں یہ بات بتا دوں کہ اگر تم نے اللہ کو ایک نہ مانا اور اس کی عبادت و بندگی سے منہ موڑا تو تمہارے ان اعمال کا اثر یہ ہوگا کہ تمہاری دنیا اور آخرت سب کچھ برباد ہو کر رہ جائے گی اور اگر تم نے اللہ کی عبادت و بندگی اختیار کرلی اور ہر طرح کے کفر و شرک سے توبہ کرلی تو دنیا بھی تمہاری ہے اور آخرت کا عیش و آرام بھی تمہیں دیا جائے گا۔ 6) وان استغفرواربکم ترجمہ :- تم اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگ لو۔ درحقیقت انسان کی کامیابی اس دن شروع ہوجاتی ہے جس دن اس کے اندر یہ احساس زندہ ہوجاتا ہے کہ وہ گناہوں کی جس دلدل میں پھنسا ہوا ہے وہ اس کو تباہ و برباد کر دے گی۔ اس احساس کے ساتھ جب وہ اپنے پروردگار سے استغفار کرتا ہے۔ اپنے گناہوں سے معافی مانگتا ہے اور یہ طے کرلیتا ہے کہ میں اب ان گناہوں میں ملوث نہ ہوں گا تو اس سچی توبہ اور استغفار کے نتیجے میں اس کی دونوں جہانوں کی کامیابی شروع ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو انسان کا احساس ندامت بہت پسند ہے۔ جب وہ اس طرف قدم بڑھاتا ہے تو اللہ اس کو اپنی رحمت کے دامن میں پناہ عطا فرما دیتا ہے۔ 7) ثم تو بوالیہ ترجمہ،- پھر اسی کی طرف متوجہ رہو۔ جس کی طرف لوٹ کرجاتا ہے۔ توبہ کے معنی ہیں پلٹ جانا یعنی جب انسان اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر پوری طرح اللہ کا ہو رہتا ہے تو پھر وہ اللہ کی تمام رحمتوں کا مستحق بن جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب کوئی انسان اللہ سے توبہ کرتا ہے اسی کے سامنے جھکا رہتا ہے تو اللہ اس کے گناہوں کو اسی طرح معاف فرما دیتا ہے جیسے یہ آج ہی ” ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توبہ و استغفار کی توفیق عطا فرمائے۔ “ آمین 8) یمتعکم متاعاً حسنا الی اجل مسمی و یوت کل ذی فضل فضلہ ترجمہ :- پھر وہ تمہیں ایک مقرر اور معین مدت تک بہترین سامان زندگی اور اس پر اپنا مزید فضل و کرم عطا فرمائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک انسان اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر اور اللہ کی طرف متوجہ ہو کر اس سے ماگنتا ہے تو پھر دنیا کی طلب اس کا مقصد نہیں ہوتی بلکہ آخرت کی کامیابی پیش نظر ہوتی ہے۔ لیکن اللہ کا نظام یہ ہے کہ وہ آخرت کے ساتھ ساتھ اس کی دنیا کو بھی اچھا کردیتا ہے اور یہ اس کا فضل و کرم ہے کہ وہ سکون قلب کی دولت سے مالا مال کردیتا ہے۔ اگر وہ ایک طرف قیصر و کسریٰ کے تاج و تخت کو ان کے پاؤں کی دھول بنا دیتا ہے تو دوسری طرف ان کو ایسے اطمینان قلب کی دولت عطا کردیتا ہے جو ان کو دنیا کے ہزاروں غموں سے اور لالچوں سے بےنیاز کردیتا ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس دولت کی کثرت ہو لیکن نہ تو اس کو سکون قلب ہو نہ بیوی بچوں کی خوشیاں نصیب ہوں تو وہ دولت کے ڈھیر اس کے کس کام کے۔ انسان ساری زندگی سکون حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کرتا رہتا ہے اور وہی اس کو حاصل نہیں ہوتا تو پھر اس دولت سے تو وہ غربت اچھی جس میں کم از کم ذہنی فکری اور قلبی سکون تو نصیب ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں بالکل وضاحت سے فرما دیا گیا ہے کہ سکون قلب صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی یاد میں ہے اور کسی چیز میں سکون نہیں ہے۔ 9) وان تولوا فانی اخاف علیکم عذاب یوم کبیر ترجمہ :- اور اگر تم پلٹ گئے تو مجھے تم پر ایک بہت بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ و خوف ہے۔ یعنی اگر تم پھر اسی روشن زندگی پر پلٹ گئے تو پھر قیامت کے دن اس عذاب سے بچنانا ممکن ہوگا جو ایک بہت بڑا عذاب ثابت ہوگا۔ 10) الی اللہ مرجعکم دھو علی کل شئی قدیر ترجمہ،- اللہ ہی کی طرف تم سب کو لوٹنا ہی وہی ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ یعنی انسان کی دارین کی کامیابی صرف اللہ کی طرف لوٹنے میں ہے۔ وہی ہر چیز پر پوری پوری قدرت کا ملہ رکھتا ہے۔ انسان کی کامیابی کا راز اسی میں پوشیدہ ہے کہ وہ اپنے اس رحیم و کریم اللہ کی طرف پلٹ جائے جو اس کا خالق ومالک ہے اور ہر نعمت دینے پر مکمل قدرت و طاقت رکھتا ہے۔
Top