Mutaliya-e-Quran - Aal-i-Imraan : 92
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
لَنْ تَنَالُوا : تم ہرگز نہ پہنچو گے الْبِرَّ : نیکی حَتّٰى : جب تک تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : اس سے جو تُحِبُّوْنَ : تم محبت رکھتے ہو وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ شَيْءٍ : سے (کوئی) چیز فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (خدا کی راہ میں) خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو، اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بے خبر نہ ہوگا
[لَنْ تَنَالُوا : تم لوگ ہرگز نہیں حاصل کرو گے ] [الْبِرَّ : نیکی کو ] [حَتّٰی : یہاں تک کہ ] [تُنْفِقُوْا : تم لوگ خرچ کرو ] [مِمَّا : اس میں سے جو ] [ تُحِبُّوْنَ : تم لوگ پسند کرتے ہو ] [وَمَا : اور جو بھی ] [تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو گے ] [مِنْ شَیْئٍ : کسی چیز میں سے ] [فَاِنَّ اللّٰہَ : تو یقینا اللہ ] [بِہٖ : اس کو ] [عَلِیْمٌ : جاننے والا ہے ] ترکیب :” وَمَا تُنْفِقُوْا “ کا ” مَا “ شرطیہ ہے اس لیے ” تُنْفِقُوْا “ مجزوم ہوا ہے۔ ” کَانَ “ کا اسم ” کُلُّ الطَّعَامِ “ ہے اور ” حِلًّا “ اس کی خبر ہے۔” حَرَّمَ “ کا فاعل ” اِسْرَائِ یْلُ “ ہے جو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے۔ ” اِفْتَرٰی “ کا فاعل ” مَنْ “ ہے اور ” اَلْکَذِبَ “ اس کا مفعول ہے۔ نوٹ : اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے۔ ایک مرتبہ آپ (علیہ السلام) سخت بیمار ہوئے تو منت مانی کہ صحت یاب ہونے پر اپنی سب سے محبوب چیز چھوڑ دوں گا۔ چناچہ صحت یاب ہونے کے بعد انہوں نے اونٹ کے گوشت اور دودھ کا استعمال ترک کردیا ‘ کیونکہ یہ انہیں بہت پسند تھا۔ اس کے بعد ان کی اولاد نے بھی اسے اپنے اوپر حرام کرلیا۔ واضح رہے کہ اسلام میں کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کی منت ماننے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کی تفصیل ‘ اِن شاء اللہ ‘ سورة التحریم میں آئے گی۔
Top