Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 45
یَسْئَلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰۤى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْۤا اَرِنَا اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ١ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِكَ١ۚ وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا
يَسْئَلُكَ : آپ سے سوال کرتے ہیں اَهْلُ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اَنْ : کہ تُنَزِّلَ : اتار لائے عَلَيْهِمْ : ان پر كِتٰبًا : کتاب مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان فَقَدْ سَاَلُوْا : سو وہ سوال کرچکے ہیں مُوْسٰٓى : موسیٰ اَكْبَرَ : بڑا مِنْ ذٰلِكَ : اس سے فَقَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَرِنَا : ہمیں دکھائے اللّٰهَ : اللہ جَهْرَةً : علانیہ فَاَخَذَتْهُمُ : سو انہیں آپکڑا الصّٰعِقَةُ : بجلی بِظُلْمِهِمْ : ان کے ظلم کے باعث ثُمَّ : پھر اتَّخَذُوا : انہوں نے بنالیا الْعِجْلَ : بچھڑا (گؤسالہ) مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : کہ جَآءَتْهُمُ : ان کے پاس آئیں الْبَيِّنٰتُ : نشانیاں فَعَفَوْنَا : سو ہم نے درگزر کیا عَنْ ذٰلِكَ : اس سے (اس کو) وَاٰتَيْنَا : اور ہم نے دیا مُوْسٰى : موسیٰ سُلْطٰنًا : غلبہ مُّبِيْنًا : ظاہر (صریح)
جب کہا فرشتوں نے اے مریم اللہ تجھ کو بشار دیتا ہے ایک اپنے حکم کی جس کا نام مسیح ہے عیسیٰ مریم کا بیٹا مرتبہ والا دنیا میں اور آخرت میں اور اللہ کے معتربوں میں
خلاصہ تفسیر
(اس وقت کو یاد کرو) جبکہ فرشتوں نے (حضرت مریم (علیہا السلام) سے یہ بھی) کہا کہ اے مریم بیشک اللہ تعالیٰ تم کو بشارت دیتے ہیں ایک کلمہ کی جو منجانب اللہ ہوگا (یعنی ایک بچہ پیدا ہونے کی جو بلا واسطہ باپ کے پیدا ہونے کے سبب کلمۃ اللہ کہلاوے گا) اس کا نام (و لقب) مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا (ان کے یہ حالات ہوں گے کہ) باآبرو ہوں گے (اللہ تعالیٰ کے نزدیک) دنیا میں (بھی کہ ان کو نبوت عطا ہوگی) اور آخرت میں (بھی کہ اپنی امت کے مومنین کے باب میں مقبول الشفاعت ہوں گے) اور (جیسے ان میں نبوت و شفاعت کی صفت ہوگی جس کا تعلق دوسروں سے بھی ہے، اسی طرح ذاتی کمال کے ساتھ بھی موصوف ہوں گے) منجملہ مقربین (عنداللہ) ہوں گے اور (صاحب معجزہ بھی ہوں گے) آدمیوں سے (دونوں حالت میں یکساں) کلام کریں گے، گہوارہ میں (یعنی بالکل بچپن میں بھی) اور بڑی عمر میں (بھی دونوں کلاموں میں تفاوت نہ ہوگا) اور (اعلی درجہ کے) شائستہ لوگوں میں سے ہوں گے۔
معارف و مسائل
نزول عیسیٰ ؑ کی ایک دلیل بڑی عمر میں بھی حضرت عیسیٰ ؑ کا کلام معجزہ ہی ہے
اس آیت میں حضرت عیسیٰ ؑ کی ایک صفت یہ بھی بتلائی ہے کہ وہ بچپن کے گہوارے میں جب کوئی کلام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اس حالت میں بھی کلام کریں گے، جیسا دوسری آیت میں مذکور ہے کہ جب لوگوں نے ابتدا ولادت کے بعد حضرت مریم (علیہا السلام) پر تہمت کی بنا پر لعن طعن کیا تو یہ نو مولود بچے حضرت عیسیٰ ؑ بول اٹھے۔ (انی عبداللہ۔ 19: 3) الخ۔ اور اور اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ جب وہ کہل یعنی ادھیڑ عمر کے ہوں گے، اس وقت بھی لوگوں سے کلام کریں گے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ بچپن کی حالت میں کلام کرنا تو ایک معجزہ اور نشانی تھی اس کا ذکر تو اس جگہ کرنا مناسب ہے مگر ادھیڑ عمر میں لوگوں سے کلام کرنا تو ایک ایسی چیز ہے جو ہر سنان مومن، کافر، عالم، جاہل کیا ہی کرتا ہے۔ یہاں اس کو بطور وصف خاص ذکر کرنے کے کیا معنی ہوسکتے ہیں ؟
اس سوال کا ایک جواب تو وہ ہے جو بیان القرآن کے خلاصہ تفسیر سے سمجھ میں آیا، کہ مقصد اصل میں حالت بچپن ہی کے کلام کا بیان کرنا ہے، اس کے ساتھ بڑی عمر کے کلام کا ذکر اس غرض سے کیا گیا کہ ان کا بچپن کا کلام بھی ایسا نہیں ہوگا جیسے بچے ابتدا میں بولا کرتے ہیں بلکہ عاقلانہ، عالمانہ، فصیح وبلیغ کلام ہوگا۔ جیسے ادھیڑ عمر کے آدمی کیا کرتے ہیں، اور اگر حضرت عیسیٰ ؑ کے واقعہ اور اس کی پوری تاریخ پر غور کیا جائے تو اس جگہ ادھیڑ عمر میں کلام کرنے کا تذکرہ ایک مستقل عظیم فائدہ کے لئے ہوجاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اسلامی اور قرآنی عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے۔
روایات سے یہ ثابت ہے کہ ان کو اٹھانے کے وقت حضرت عیسیٰ ؑ کی عمر تقریبا تیس پینتیس (حاشیہ 1) سال کے درمیان تھی جو عین عنفوان شباب کا زمانہ تھا، ادھیڑ عمر جس کو عربی میں کہل کہتے ہیں وہ اس دنیا میں ان کی ہوئی ہی نہ تھی۔ اس لئے ادھیڑ عمر میں لوگوں سے کلام جب ہی ہوسکتا ہے جبکہ وہ پھر دنیا میں تشریف لائیں، اس لئے جس طرح ان کا بچپن کا کلام معجزہ تھا اسی طرح ادھیڑ عمر کا کلام بھی معجزہ ہی ہے۔
(حاشیہ 1) دیکھئے تفسیر قرطبی جلد 2 صفحہ 91۔ لیکن محقق علماء کرام کی ایک تعداد کی رائے یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو اٹھائے جانے کے وقت ان کی عمر اسی سال تھی۔ ملاحظہ فرمائیے۔ الجواب الفصیح از مولانا بدر عالم میرٹھی ؒ۔ محمد تقی عثمانی۔ 14/4/1426 ھ)
Top