Al-Qurtubi - Ibrahim : 26
وَ مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِیْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِیْثَةِ اِ۟جْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ
وَمَثَلُ : اور مثال كَلِمَةٍ خَبِيْثَةٍ : ناپاک بات كَشَجَرَةٍ خَبِيْثَةِ : مانند درخت ناپاک اجْتُثَّتْ : اکھاڑ دیا گیا مِنْ : سے فَوْقِ : اوپر الْاَرْضِ : زمین مَا لَهَا : نہیں اس کے لیے مِنْ قَرَارٍ : کچھ بھی قرار
اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے (نہ جڑ مستحکم نہ شاخیں بلند) زمین کے اوپر ہی سے اکھیڑ کر پھینک دیا جائے اسکو ذرا بھی قرار (وثبات) نہیں۔
آیت نمبر 26 قولہ تعالیٰ : ومثل کلمۃ خبیثۃ کشجرۃ خبیثۃ، کلمۃ خبیثۃ سے مراد کلمہ کفر ہے۔ اور ایک قول کے مطابق اس سے مراد بذات خود کافر ہے۔ اور شجرہ خبیثہ سے حضرت انس ؓ کی حدیث کے مطابق ایلوا ہے، یہی حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد کا قول بھی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ ایسا درخت ہے جو زمین پر پیدا ہی نہیں ہوا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ہی ایک قول کے مطابق اس کا معنی تھوم کا پودا بھی بیان ہوا ہے۔ ایک قول یہ ہے : اس سے مراد کھنبی یا کائی ہے۔ ایک قول کے مطابق : یہ کشوث ہے اور کشوث ایسا درخت ہے جس کے نہ پتے ہوتے ہیں اور نہ ہی زمین میں اس کی کوئی جڑ ہوتی ہے، شاعر نے کہا : وھم کشوت فلا اصل ولا ورق۔ وہ کشوث ہیں نہ (ان کی) کوئی جڑ ہے اور نہ پتے اجتثت من فوق الارض اس کو اپنی جڑوں سے اکھیڑ لیا گیا۔ اسی سے لقیط کا یہ شعر ہے : ھو الجلاء الذی یجتث اصلکم فمن رأی مثل ذایوما ومن سمعا مؤرج نے کہا : اے اس کے جثہ سے پکڑ لیا گیا اور اس سے مراد اس کی ذات ہے اور جثہ انسانی ذات ہے چاہے وہ بیٹھا ہوا ہو یا کھڑا ہو۔ اور جثہ کا معنی ہے اس نے اسے اکھیڑ دیا جب کہ اجتثہ کا معنی ہے کہ وہ زمین کے اوپر سے اکھڑ گیا یعنی اس کا ایسا مضبوط تنا نہیں ہے جو زمین سے اپنی جڑوں کے ذریعے تری حاصل کرتا ہو۔ ما لھا من قرار یعنی زمین میں کوئی جڑ باقی نہیں رہے گی۔ ایک قول کے مطابق قرار کا معنی ثبات ہے، پس اسی طرح کافر کے لیے نہ کوئی حجت ہوگی، نہ ثبات اور نہ اس میں کوئی بھلائی ہے، اور نہ اس کا کوئی پاکیزہ قول بلند ہوگا اور نہ ہی نیک عمل۔ معاویۃ بن صالح نے علی بن ابی طلحہ سے اللہ کے ارشاد ضرب اللہ مثلا کلمۃ طیبۃ کے بارے میں روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا : یہ لا الہ الا اللہ ہے۔ شجرہ طیبہ، مومن ہے۔ اصلھا ثابت سے مراد یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ مومن کے دل میں ثابت ہے۔ اور ومثل کلمۃ خبیثۃ سے مراد شرک جب کہ کشجرۃ خبیثۃ سے مراد مشرک ہے۔ اجتثت من فوق الارض مالھا من قرار سے مراد یہ ہے کہ مشرک کی کوئی اصل ہی نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ عمل کرے۔ ایک قول کے مطابق : ضرب المثل کا تعلق ایمان کی طرف دعوت اور شرک کی طرف دعوت کے ساتھ ہے۔ کیونکہ کلمۃ سے قول اور دعوت الی الشیء مفہوم ہوتا ہے۔
Top