Al-Qurtubi - Al-Baqara : 210
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیَهُمُ اللّٰهُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۠   ۧ
ھَلْ : کیا يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار کرتے ہیں اِلَّآ : سوائے (یہی) اَنْ : کہ يَّاْتِيَهُمُ : آئے ان کے پاس اللّٰهُ : اللہ فِيْ ظُلَلٍ : سائبانوں میں مِّنَ : سے الْغَمَامِ : بادل وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے وَقُضِيَ : اور طے ہوجائے الْاَمْرُ : قصہ وَاِلَى : اور طرف اللّٰهِ : اللہ تُرْجَعُ : لوٹیں گے الْاُمُوْرُ : تمام کام
کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا (کا عذاب) بادل کے سائبانوں میں آ نازل ہو اور فرشتے بھی (اتر آئیں) اور کام تمام کردیا جائے ؟ اور سب کاموں کا رجوع خدا ہی کی طرف ہے
ارشاد باری تعالیٰ ” ھل ینظرون “ یعنی اسلام میں داخل نہ ہونے والے، اور ” ھل “ یہاں سے مراد انکار ہے۔ یعنی وہ انتظار نہیں کر رہے ہیں (آیت) ” الا ان یاتیھم اللہ فی ظلل من الغمام والملئکۃ “ نظرتہ اور انتظرتہ “ ایک ہی معنی میں ہیں۔ اور النظر اور الانتظار بھی ہم معنی ہیں۔ حضرت قتادہ، ابو جعفر یزید بن قعقاع اور ضحاک نے فی ظلال من الغمام پڑھا ہے۔ اور ابو جعفر نے والملائکۃ کو الغمام پر عطف کرتے ہوئے مجرور پڑھا ہے۔ اور اس کی تقدیر عبارت ہے مع الملائکۃ یعنی ملائکہ کے ساتھ۔ عرب کہتے ہیں : اقبل الامیر فی العسکر۔ امیر آیا لشکر کے ساتھ، یعنی اس میں فی بمعنی مع ہے۔ ظلل یہ ظلۃ کی جمع مکسر ہے، جیسا کہ ظلمۃ کی جمع ظلم ہے اور اس کی جمع سالم ظللات ہے۔ سیبویہ نے یہ شعر کہا ہے : اذا الوحش ضم الوحش فی ظللا تھا سواقط من حر وقد کان اظہرا اس میں ظللات ظلۃ کی جمع سالم ذکر کی گئی ہے۔ اور ظلات اور ظلال یہ ظل کی جمع کثرت ہے اور اس کی جمع قلت اظلال ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ ظلال ظلۃ کی جمع ہے جیسا کہ قلتۃ کی جمع قلال ہے۔ جیسا کہ شاعر نے بھی کہا ہے : ممزوجۃ بماء القلال “ (گھڑوں کے پانی میں ملائی گئی ہے) اخفش سعید نے کہا ہے کہ والملائکۃ مجرور ہے۔ یہ وفی الملائکۃ کے معنی میں ہے۔ فرمایا : اس میں رفع عمدہ ہے، جیسا کہ ان آیات میں ہے : (آیت) ” ھل ینظرون الا ان تاتیھم الملئکۃ (الانعام : 158) اور (آیت) ” وجآء ربک والملک صفا صفا (الفجر :) فراء نے کہ ہے : حضرت عبداللہ ؓ کی قرات میں (آیت) ” ھل ینظرون الا ان تاتیھم الملئکۃ فی ظلل من الغمام “۔ حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے : ملائکہ ان پاس کی ارواح قبض کرنے لئے آئیں گے۔ اور کہا جاتا ہے کہ قیامت کے دن (وہ آئیں گے) اور یہی زیادہ ظاہر اور واضح ہے۔ ابوالعالیہ اور ربیع نے کہا ہے کہ ملائکہ ان کے پاس چھائے ہوئے بادلوں کی صورت میں آئیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے پاس آئے گا جس حالت میں چاہے گا۔ اور زجاج نے کہا ہے : کلام اس طرح ہے (آیت) ” فی ضلل میں الغمام ومن الملائکۃ “ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سبحانہ کے حق میں کلام اپنے ظاہر پر نہیں ہے، بلکہ معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا امر اور اس کا حکم ان کے پاس آجائے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حساب و عذاب میں سے جس کا ان کے ساتھ وعدہ فرما رکھا ہے اس کے ساتھ چھائے ہوئے بادلوں میں ان کے پاس آجائے، جیسا کہ یہ ارشاد گرامی ہے : (آیت) ” فاتھم اللہ من حیث لم یحتسبوا “۔ (الحشر : 2) ترجمہ : پس ان پر اللہ (کا قہر) اس جگہ سے جگہ سے جس کا انہیں نہ آیا تھا) یعنی اللہ نے انہیں ذلیل ورسوا کردیا۔ یہ زجاج کا قول ہے اور پہلا اخفش سعید کا قول ہے۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ الاتیان (یعنی آنے) کا معنی راجعا الی الجزاء (جزا کی طرف رجوع کرتے ہوئے) ہو۔ اور جزا کو اسی طرح اتیان کا نام دیا گیا ہو جیسا کہ نمرود کے قصہ میں تخویف اور تعذیب کو اتیان کا نام دیا گیا ہے اور فرمایا ہے : (آیت) ” فاتی اللہ بنیانھم من القواعد فخر علیہم السقف من فوقھم “۔ (النحل : 26) ترجمہ : پس اللہ تعالیٰ نے ان کے (فریب) کی عمارت جڑوں سے اکھیڑ کو رکھ دی۔ پس گر پڑی ان پر چھت ان کے اوپر سے۔ اور بنی نضیر کے قصہ میں فرمایا : (آیت) ” فاتھم اللہ من حیث لم یحتسبوا وقذف فی قلوبھم الرعب “۔ (الحشر : 2) اور طرح فرمایا : (آیت) “ وان کان مثقال حبۃ من خردل اتینا بھا (الانبیائ : 47 ) ترجمہ : (اور اگر (کسی کا کوئی عمل) رائی کے دانے کے برابر بھی ہوگا تو ہم اسے بھی لاحاضر کریں گے۔ ) بلاشبہ اتیان ان معانی کا احتمال رکھتا ہے، کیونکہ اہل لغت کے نزدیک اتیان کا اصل معنی ” کسی شے کی طرف قصد کرنا “ ہے۔ پس آیت کا معنی یہ ہے : کیا وہ انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں جزا اور بدلہ دینے کے ارادہ سے اپنی مخلوق میں سے کسی مخلوق کے ساتھ افعال میں سے کوئی فعل ظاہر فرمائے اور ان کے امور کے بارے میں فیصلہ فرمائے جو وہ فیصلہ فرما دے ؟ اور جس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کوئی فعل کیا اور اسے نزول اور استوا کا نام دیا۔ اسی طرح وہ کوئی فعل کرتا ہے اور اسے اتیان کا نام دیتا ہے اور اس کے افعال بغیر آلہ اور علت کے ہوتے ہیں کیونکہ اس کی ذات اس سے پاک ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے ابو صالح کی روایت میں کہا ہے : یہ ان پوشیدہ اور مخفی چیزوں میں سے ہے جس کی تفسیر بیان نہیں کی جاسکتی۔ بعض ان کی تاویل سے خاموش رہے ہیں اور بعض نے تاویل کی ہے جیسا کہ ہم نے بیان کردیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ فابمعنی با ہے یعنی ” باتیھم بظلل “۔ (یعنی وہ ان کے پاس آئے چھائے ہوئے بادلوں کے ساتھ) اور اسی کے مطابق حدیث طیبہ ہے : ” یاتیھم اللہ فی صورۃ ای بصورۃ امتحانالھم “ (1) (بخاری شریف : باب الصراط جسم جھنم، حدیث نمبر 6088، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (اللہ تعالیٰ ان کے پاس آئے گا ایک صورت میں، یعنی ایک صورت کے ساتھ ان کا امتحان لینے کے لئے) ۔ یہ جائز نہیں کہ اسے اور جو کچھ اس کے مشابہ قرآن و حدیث میں مذکور ہے اسے وجہ انتقال، حرکت اور زوال پر محمول کیا جائے، کیونکہ یہ اجرام و اجسام کی صفات میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے انتہائی بلندو برتر ہے۔ وہ ذوالجلال والا کرام ہے اور اجسام کی مماثلت سے بلند وبالا اور برتر ہے۔ ” الغمام “ اس سے مراد ہے سفیدباریک بادل، اس کا یہ نام اس لئے رکھا گیا ہے کیونکہ یہ ڈھانپ لیتا ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ (آیت) ” قضی الامر “ کو حضرت معاذبن جبل ؓ نے (آیت) ” وقضاء الامر “ پڑھا ہے۔ اور یحییٰ بن یعمر نے (آیت) ” قضی الامر “ جمع کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور جمہور نے (آیت) ” قضی الامر “ پڑھا ہے اور معنی یہ ہے کہ جزاواقع ہو اور گناہ کرنے والوں کو عذاب دیاجائے۔ ابن عامر، حمزہ اور کسائی نے (آیت) ” ترجع الامور “ صیغہ معروف کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور یہی اصل ہے۔ اور اس کی دلیل (آیت) ” الآ الی اللہ تصیر الامور “۔ (الشوری : 52) اور (آیت) الی اللہ مرجعکم “ (المائدہ : 48) ہے۔ اور باقیوں نے ” ترجع “ صیغہ مجہول کی صورت میں پڑھا ہے۔ اور یہ بھی قراۃ حسنہ ہے۔ اور اس کی دلیل (آیت) ” ثم تردون “۔ (التوبہ : 94) اور (آیت) ” ثم ردوالی “ (الانعام : 62) اور (آیت) ” ولئن رددت الی ربی “۔ (الکہف : 36) ارشادات باری تعالیٰ ہیں۔ دونوں قراتیں معنی کے اعتبار سے حسن اور اچھی ہیں لیکن اصل پہلی قرات ہے اور اسے مجہول پڑھنے میں توسع ہے اور یہ فرع ہے۔ اور تمام کے تمام امور اللہ تعالیٰ کی طرف ہی لوٹیں گے، پہلے بھی اور بعد والے بھی۔ اور قیامت کے دن میں اس کے ذکر کے سبب اس پر تنبیہ اور آگاہ کرنا ہے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ملوک کے پاس ہے وہ زوال پذیر ہے۔
Top