Al-Qurtubi - Al-Hajj : 77
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۩  ۞
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : وہ لوگ جو ایمان لائے ارْكَعُوْا : تم رکوع کرو وَاسْجُدُوْا : اور سجدہ کرو وَاعْبُدُوْا : اور عبادت کرو رَبَّكُمْ : اپنا رب وَافْعَلُوا : اور کرو الْخَيْرَ : اچھے کام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح (دوجہان میں کامیابی) پاؤ
مومنو ! رکوع کرتے اور سجدے کرتے اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہو اور نیک کام کرو تاکہ فلاح پاؤ
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا ارْکَعُوْا وَاسْجُدُوْا (اے ایمان والو ! تم رکوع کرو اور سجدہ کرو) اپنی نمازوں میں جب پہلے پہلے اسلام لائے تو وہ بلارکوع و سجود کے نماز پڑھتے تھے۔ پھر ان کو حکم ہوا کہ رکوع و سجود کیا کریں۔ مسئلہ : اس میں دلیل ہے کہ اعمال ایمان کا حصہ نہیں ہیں۔ اور یہ سجدہ نماز کا ہے۔ سجدہ تلاوت نہیں ہے۔ وَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ (اور تم اپنے رب کی عبادت کرو) تم اپنے رکوع و سجود سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا قصد کرو۔ نہ کہ بتوں کا وَافْعَلُوْا الْخَیْرَ (اور بھلائی کے کام کرو) ایک قول یہ ہے جبکہ ذکر کو دیگر طاعات پر مقام و مرتبہ حاصل ہے تو اولاً ایمان والوں کو نماز کی طرف بلایا کہ نماز خالص ذکر ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واقم الصلوۃ لذکری ] طہ : 14[ پھر نماز کے علاوہ عبادت کی طرف بلایا۔ مثلاً روزہ، حج وغیرہ۔ پھر تمام دیگر طاعات کی طرف دعوت دی۔ دوسرا قول یہ ہے اس سے مراد صلہ رحمی اور مکارم اخلاق ہیں۔ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو) نمبر 1۔ تاکہ تم کامیاب ہو جائو۔ نمبر 2۔ تم یہ تمام اعمال کرو اس حالت میں کہ تم فلاح کی امیدرکھنے والے ہو۔ یقین کر کے نہ بیٹھ جانے والے ہو۔ اور نہ تم اپنے اعمال پر بھروسہ کر کے بیٹھنے والے ہو۔
Top