Al-Qurtubi - Al-Ghaafir : 47
وَ اِذْ یَتَحَآجُّوْنَ فِی النَّارِ فَیَقُوْلُ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِیْبًا مِّنَ النَّارِ
وَاِذْ : اور جب يَتَحَآجُّوْنَ : وہ باہم جھگڑیں گے فِي النَّارِ : آگ (جہنم) میں فَيَقُوْلُ : تو کہیں گے الضُّعَفٰٓؤُا : کمزور لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو جو اسْتَكْبَرُوْٓا : وہ بڑے بنتے تھے اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم تھے لَكُمْ : تمہارے تَبَعًا : تابع فَهَلْ : تو کیا اَنْتُمْ : تم مُّغْنُوْنَ : دور کردوگے عَنَّا : ہم سے نَصِيْبًا : کچھ حصہ مِّنَ النَّارِ : آگ کا
اور جب وہ دوزخ میں جھگڑیں گے تو ادنیٰ درجے کے لوگ بڑے آدمیوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابع تھے تو کیا تم دوزخ (کے عذاب) کا کچھ ہم سے دور کرسکتے ہو
(واذ یتحاجون۔۔۔ ) واذیتحاجون فی النار جب وہ آگ میں جھگڑیں گے تو کمزورلوگ انہیں کہیں گے جو انبیاء کی اطاعت سے تکبر یا کرتے تھے : ہم دنیا میں تمہا ری ان معاملات میں پیروی کیا کرتے تھے جس شرک کی طرف تم ہمیں بلا یا کرتے تھے کیا تم ہم سے اس چیز کو اٹھاتے ہو عذاب میں س سے جز کی صورت میں ہمیں ملا ہے۔ تبع یہ واحد ہے اور بصریوں کے قول کے مطابق یہ جمع ہے اس کی واحد تابع ہے۔ اہل کوفہ نے کہا : یہ جمع ہے اس کا کوئی واحد نہیں جس طرح مصدر ہوا کرتا ہے اسی وجہ سے اس کی جمع نہیں بنائی جاتی اگر اس کی جمع بناتے تو کہتے۔ اتباع۔ قال الذین استکبرو انا کل فیھا، فیھا میں ھاء ضمیر سے مراد جہنم ہے اخفش نے کہا : کل مبتداء ہونے کی حیثت سے مرفوع ہے۔ کسائی اور فراء نے انا کلا فیھا نب کے طور پر پڑھا ہے انا میں جو ضمیر ہے اس سے کلا فعت اور تاکید ہے۔ ابن سمیقع اور عیسیٰ بن عمر نے اسی طرح پڑھا ہے۔ کوئی تاکید کو نعت کہتے ہیں۔ سیبویہ نے اس سے منع کیا ہے اس نے کل صفت بیان نہیں کرتا اور نہ ہی اس کے ساتھ صفت بیان کی جاتی ہے اس میں بدل بھی جائز نہیں کیونکہ جس کے با رے میں خبر دی جا رہی ہو اسکو کسی غیر کا بدل نہیں بنایا جاسکتا، مبرد نے اس کا یہ معنی بیان کیا ہے یہاں اسم ضمیر کا بدل ذکر کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ مخاطب ہے اور مخاطب کا بدل ذکر نہیں کیا جاتا اور اسی طرح مخاطب کا بدل بھی ذکر نہیں کیا جاتا کیونکہ ان دونوں میں کوئی اشکال نہیں ہوتا کہ ان کا بدل ذکر کیا جائے، یہ اس کی کلام کی نص ہ۔ ان اللہ قدحکم بین العباد۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ وہ کسی کا دوسرے کے گناہ کی وجہ سے مواخذہ نہیں کرے گا پس ہم میں سے ہر ایک کافر ہے ( اس لیے ہم دونوں طبقات کو جہنم میں ڈالا گیا ہے) وقال الذین فی النار یعنی کافر امتوں میں سے لوگوں نے کہا : عربوں میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جو یہ کہتے ہیں اللذون یہ جمع سالم ہے مغبر ہے اور جس نے حالت رفع میں الذین کہا تو اس نے اس مبنی قرار دیا ہے جس طرح وہ واحد میں مبنی تھا اخفش نے کہا : الذی کے ساتھ نون ملایا گیا ہے تو یہ خمسۃ عشر کی طرح ہوگیا اور یہ مبنی برفتحہ ہوگیا خزنہ یہ خازن کی جمع ہے یہ کہا جاتا ہے، خزان خزان۔ ادعوا ربکم یخفف عنا یوما من العذاب۔ یخفف جواب ہے اور مجزوم ہے اگر یہ فاء کے ساتھ ہو تو یہ منصوب ہوگا مگر کلام میں اثر جواب امر اور اس جیسی صورتوں میں فاء کے بغیر آتا ہے اسی وجہ سے قرآن فصیح ترین لغت میں آیا ہے جس طرح کہا : قفانبک من ذکر حبیب و منزل۔ تم دونوں ٹھہرو ! ہم محبوب اور منزل کو یاد کرکے رولیں۔ محمد بن کعب قرطبی نے کہا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے یا میرے سامنے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ جہنمیوں نے جنم کے داروغوں سے مدد چاہی تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :” وَقَالَ الَّذِیْنَ فِی النَّارِ لِخَزَنَۃِ جَہَنَّمَ ادْعُوْا رَبَّکُمْ یُخَفِّفْ عَنَّا یَوْمًا مِّنَ الْعَذَابِ ۔ “ انہوں نے ایک دن کیا کہ ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائے تو ان کے مطالبہ رد کردیا گیا۔ ” اَوَلَمْ تَکُ تَاْتِیْکُمْ رُسُلُکُمْ بِالْبَیِّنٰتِط قَالُوْا بَلٰیط قَالُوْا فَادْعُوْاج وَمَا دُعٰٓؤُا الْکٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ ۔ “ حدیث میں ہے امام ترمذی اور دوسرے محدثین حضرت ابو درداء ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ جہنمیوں پر بھوک مسلط کردی جائے گی یہاں تک کہ بھوک ان کے ہم پلہ ہوجائے گی جس عذاب میں وہ مبتلا ہوجائیں گے (1) وہ مدد طلب کریں گے تو انکی ضریع کے ساتھ مدد کی جائیگی نہ وہ جسم کو موٹا کرے گا اور نہ بھوک سے نفع دے گا وہ اسے کھائیں گے وہ انہیں کچھ نفع نہ دے گا وہ مدد طلب کریں گے تو ان کی مدد ایسے کھانے سے کی جائے گی جو گلے میں اٹک جاتا ہے تو اس کے ساتھ ان کے گلے اٹک جائیں گے وہ یاد کریں گے کہ وہ گلے میں رکاوٹ کو پانی سے ختم کرتے تھے وہ مشروب طلب کریں گے تو ٹکڑوں کے ساتھ کھولتا ہوا پانی ان کی طرف بلند کیا جائے گا جب وہ کھولتا ہوا پانی ان کے مونہوں کے قریب ہوگا تو وہ انہیں جلا دے گا جب وہ کھولتا ہوا پانی انکے پیٹوں میں پہنچے گا تو ان کی انتڑیوں اور جو کچھ ان کے پیٹوں میں ہوگا اس کو کاٹ کر رکھ دے گا۔ وہ فرشتوں سے مدد طلب کریں گے وہ کہیں گے :” ادعوا ربکم یخفف عنا یوما من العذاب۔ “ فرشتے انہیں جواب دیں گے :” اَوَلَمْ تَکُ تَاْتِیْکُمْ رُسُلُکُمْ بِالْبَیِّنٰتِط قَالُوْا بَلٰیط قَالُوْا فَادْعُوْاج وَمَا دُعٰٓؤُا الْکٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ ۔ “ ضلال کا معنی گھاٹا اور ہلاکت ہے۔
Top