Tafseer-e-Saadi - Al-Ghaafir : 47
وَ اِذْ یَتَحَآجُّوْنَ فِی النَّارِ فَیَقُوْلُ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِیْبًا مِّنَ النَّارِ
وَاِذْ : اور جب يَتَحَآجُّوْنَ : وہ باہم جھگڑیں گے فِي النَّارِ : آگ (جہنم) میں فَيَقُوْلُ : تو کہیں گے الضُّعَفٰٓؤُا : کمزور لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو جو اسْتَكْبَرُوْٓا : وہ بڑے بنتے تھے اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم تھے لَكُمْ : تمہارے تَبَعًا : تابع فَهَلْ : تو کیا اَنْتُمْ : تم مُّغْنُوْنَ : دور کردوگے عَنَّا : ہم سے نَصِيْبًا : کچھ حصہ مِّنَ النَّارِ : آگ کا
اور جب وہ دوزخ میں جھگڑیں گے تو ادنیٰ درجے کے لوگ بڑے آدمیوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابع تھے تو کیا تم دوزخ (کے عذاب) کا کچھ ہم سے دور کرسکتے ہو
آیت 47 اللہ تبارک و تعالیٰ اہل جہنم کے جھگڑنے، ایک دوسرے پر عتاب کرنے اور جہنم کے داروغے سے مدد مانگنے اور اس کے بےفائدہ ہونے کے بارے میں آگاہ کرتا ہے، چناچہ فرمایا : (آیت) ” اور جب وہ دو زخ میں باہم جھگڑیں گے۔ “ یعنی پیروکار یہ حجت پیش کریں گے کہ ان کے قائدین نے ان کو گمراہ کیا اور قائدین اپنے پیروں کاروں سے بیزاری اور برأت کا اظہار کریں گے۔ (فیقول الضعفوآء) ” پس کمزور کہیں گے “ یعنی پیروکار کار (للذین استکبروآ) ان قائدین سے جنہوں نے حق کے خلاف تکبر کیا اور جنہوں نے ان کو اس موقف کی طرف بلایا جو ان کے تکبر کا باعث تھا۔ (انا کنا لکم تبعا) ” ہم تمہارے تابع تھے۔ “ تم نے ہم کو گمراہ کیا اور ہمارے سامنے شرک اور شر کو مزین کیا (فھل انتم معنون عنا نصیباً من النار) ” تو کیا تم دوزخ کے عذاب کا کچھ حصہ ہم سے دور کرسکتے ہو ؟ “ خواہ وہ کتنا ہی قلیل ہو (قال الذین استکبروآ) ” بڑے آدمی کہیں گے۔ “ یعنی اپنی بےبسی اور سب پر حکم الٰہی کے نفاذ کا ذکر کرتے ہوئے کہیں گے : (آیت) ” ہم سب اس (دوزخ) میں ہیں، بیشک اللہ بندوں کے درمیان فیصلہ کرچکا۔ “ یعنی ہر ایک کے لئے عذاب کا ایک حصہ ہے جس میں اضافہ یا کمی نہیں ہوگی اور حکیم نے جو فیصلہ کیا ہے اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوگا۔ (آیت) ” اور جو لوگ آگ میں ہوں گے وہ کہیں گے۔ “ یعنی وہ تکبر کرنے والے اور کمزور لوگ جو آگ میں ڈالے گئے تھے (آیت) ” راحت حاصل ہو، (قالوآ) تو جہنم کے داروغے ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے اور ان پر واضح کرتے ہوئے کہ سفارش اور چیخ و پکار ان کو کوئی فائدہ نہ دے گی یہ کہیں : (آیت) ” کیا تمہارے پاس تمہارے رسول نشانیاں لے کر نہیں آئے تھے ؟ “ جن دلائل سے تم پر حق اور صراط مستقیم واضح ہوتا اور تمہیں یہ معلوم ہوتا کہ کون سی چیز تمہیں اللہ کے قریب کرتی ہے اور کون سی چیز اللہ سے دور کرتی ہے۔ (قالو) ” وہ کہیں گے : کیوں نہیں ! “ اللہ تعالیٰ کے رسول دلائل و معجزات کے ساتھ ہماری طرف معبوث ہوئے اور ہم پر اللہ تعالیٰ کی حجت پائم ہوگئی مگر ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور حق کے واضح ہوجانے کے بعد بھی اس عناد رکھا۔ (قالوا) جہنم کے داروغے جہنمیوں سے، ان کی پکار اور سفارش سے بیزار ہو کر کہیں گے : (فادعوا) تم اللہ کو پکارو، مگر کیا یہ پکار تمہیں کوئی فائدہ دے گی ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : (آیت) ” یعنی ان کی دعا اور پکارا کارت جائے گی کیونکہ کفر تمام اعمال کو اسقط کردیتا ہے اور دعا کی قبولیت کی راہ میں حائل ہوجاتا ہے۔
Top