Ruh-ul-Quran - Ar-Ra'd : 15
وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ ظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ۩  ۞
وَلِلّٰهِ : اور اللہ ہی کو يَسْجُدُ : سجدہ کرتا ہے مَنْ : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین طَوْعًا : خوشی سے وَّكَرْهًا : یا ناخوشی سے وَّظِلٰلُهُمْ : اور ان کے سائے بِالْغُدُوِّ : صبح وَالْاٰصَالِ : اور شام
اور اللہ تعالیٰ ہی کو سجدہ کررہے ہیں جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہے، خوشی سے اور مجبوراً اور ان کے سائے بھی ( سجدہ ریز ہیں) صبح کے وقت بھی اور شام کے وقت بھی۔
وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًاوَّکَرْھًاوَّظِلٰلُہُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ ۔ (سورۃ الرعد : 15) (اور اللہ تعالیٰ ہی کو سجدہ کررہے ہیں جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہے، خوشی سے اور مجبوراً اور ان کے سائے بھی ( سجدہ ریز ہیں) صبح کے وقت بھی اور شام کے وقت بھی۔ ) ہر چیز کی تکوینی شہادت یہ انسان کی کج فکری ہے کہ وہ اس قدر برخود غلط ہوجاتا ہے کہ کسی کے سامنے جھکنا بھی اسے گوارا نہیں ہوتا۔ وہ اپنے تئیں یہ سمجھتا ہے کہ مجھے جو اختیار اور اقتدار ملا ہے اس کی موجودگی میں میں کسی اور کی اطاعت کروں یا کسی کی ہدایت قبول کروں یا کسی کے سامنے جھکوں یہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ میں بقدر استطاعت دوسروں کو اپنے سامنے جھکائوں گا اور اپنی فرعونیت کا صور ہمت سے بڑھ کر پھونکنے کی کوشش کروں گا۔ لیکن ایسا شخص دو باتیں بھول جاتا ہے ایک تو یہ بات کہ جسے وہ اپنی فرعونیت سمجھتا ہے وہ درحقیقت ہَوائے نفس کا اتباع ہے۔ وہ جو جی میں آتا ہے وہ کرتا ہے اور جسے اس کا دل کہتا ہے یہی درحقیقت اس کا معبود ہے۔ ایسے لوگ بعض دفعہ دوسروں سے زیادہ کمزور ثابت ہوتے ہیں اور دوسری بات جسے وہ نظرانداز کردیتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر وہ اپنی جسمانی قوتوں اور ضرورتوں پر غور کرے تو اسے اندازہ ہوسکتا ہے کہ وہ قدم قدم پر اختیاری طور پر نہ سہی تکوینی طور پر اس ذات کا مطیع اور فرمانبردار ہے جس نے اس کو جسم و جان دیے اور قوتیں عطا کیں۔ ایک آدمی کو جب بھوک لگتی ہے تو وہ کھانے پر مجبور ہے، پیاس لگتی ہے تو پینے پر مجبور ہے، موسم کی شدت پریشان کرتی ہے تو پہننے پر مجبور ہے اور یہ کھانا پینا اور پہننا بھی اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اسی کی مرضی سے ہوگا جس نے بھوک مٹانے، پیاس بجھانے کی صلاحیت پیدا کی۔ اسی طرح ایک آدمی جو اپنی زبان اور دل سے اللہ تعالیٰ کا اقرار اور اس کی تصدیق سے انکار کرتا ہے وہ بھی اس بات پر مجبور ہے کہ جب بولے تو زبان سے بولے اور جب تصدیق کرے تو دل سے کرے۔ اور یہ زبان سے بولنا اور دل سے تصدیق کرنا یہ وہ تکوینی قانون ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھا ہے۔ اور ہر شخص اسی کا پابند ہے۔ اس نے حکم دے رکھا ہے کہ جب سوچو، دماغ سے سوچو۔ جب چلو، پائوں سے چلو۔ جب محسوس کرو، تو حواس کے ذریعے محسوس کرو۔ اسی پر باقی تمام طبعی اور تکوینی قوانین کو قیاس کر لیجیے جس سے آدمی کو یقین کرنا پڑتا ہے کہ میں خواہی نخواہی اللہ تعالیٰ ہی کے احکام کی تعمیل کرنے پر مجبور ہوں اور کچھ نہیں تو آدمی اتنا ہی سوچے کہ زندگی کسی کی عطا ہے، میں جسے گزار رہا ہوں۔ اور اس کا گزرنا بھی اس کے پیدا کرنے والے کے ہاتھ میں ہے۔ اسی طرح ایک دن ایسا آئے گا جب میری زندگی کا دیا بجھا دیا جائے گا۔ میں ہزار کوشش کروں کہ مجھے زندگی کے چند لمحے اور مل جائیں لیکن ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ یہی وہ بات ہے جس کے بارے میں اس آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ زمین و آسمان میں جو مخلوقات بھی آباد ہیں وہ طوعاً و کرہاً اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مجبور ہیں۔ اطاعت سے مراد اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کے احکام کی اطاعت ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ تم ہر چیز کے سائے کو دیکھ لو وہ صبح و شام اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ہر چیز کا سایہ مغرب یا مشرق کی طرف یہ ہمارا روز کا دیکھا جانے والا ماجرہ ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ سجدے سے مراد اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت ہے۔ اس لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو کائنات میں ایسی کونسی سے چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ احکام کی اطاعت کرنے پر مجبور نہیں۔ سورج چمکتا ہے، چاند دمکتا ہے، زمین بچھی ہوئی ہے اور یہ سب اپنے اپنے مدار میں گردش کررہے ہیں۔ ان میں کوئی بھی اپنی اس روش سے سرتابی نہیں کرسکتا جس کا انھیں حکم دیا جا چکا ہے۔
Top