Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 135
وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ١۪ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ١۪۫ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اِذَا : جب فَعَلُوْا : وہ کریں فَاحِشَةً : کوئی بےحیائی اَوْ : یا ظَلَمُوْٓا : ظلم کریں اَنْفُسَھُمْ : اپنے تئیں ذَكَرُوا اللّٰهَ : وہ اللہ کو یاد کریں فَاسْتَغْفَرُوْا : پھر بخشش مانگیں لِذُنُوْبِھِمْ : اپنے گناہوں کے لیے وَ مَنْ : اور کون يَّغْفِرُ : بخشتا ہے الذُّنُوْبَ : گناہ اِلَّا اللّٰهُ : اللہ کے سوا وَلَمْ : اور نہ يُصِرُّوْا : وہ اڑیں عَلٰي : پر مَا فَعَلُوْا : جو انہوں نے کیا وَھُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہیں
اور (متقی) وہ لوگ ہیں کہ جب کسی کھلی برائی کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جان پر ظلم توڑتے ہیں تو اللہ کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا کون ہے جو گناہوں کو بخشے اور یہ جانتے بوجھتے اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے
وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِہِمْ قف وَمَنْ یَّغْفِرُالذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ قف ص وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ ۔ اُوْلٰٓئِکَ جَزَآؤُہُمْ مَّغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَجَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَاالْاَنْہَارُخٰلِدِیْنَ فِیْہَا ط وَنِعْمَ اَجْرُالْعٰمِلِیْنَ ۔ ط (اور (متقی) وہ لوگ ہیں کہ جب کسی کھلی برائی کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جان پر ظلم توڑتے ہیں تو اللہ کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا کون ہے جو گناہوں کو بخشے اور یہ جانتے بوجھتے اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔ یہ لوگ ہیں جن کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت اور ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور کیا ہی اچھا صلہ ہے عمل کرنے والوں کا) (135 تا 136) انفاق کی راہ کی ایک اور مزاحمت سیاقِ کلام کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ جس طرح ساہوکارانہ ذہنیت ہے جس سے روپے کی ایسی تونس پیدا ہوجاتی ہے کہ ساون کے اندھے کی طرح اسے ہر طرف روپیہ ہی روپیہ دکھائی دیتا ہے۔ ایسے آدمی سے یہ توقع رکھنا کہ وہ درہم و دینار کی محبت میں ڈوب کر انفاق فی سبیل اللہ سے کام لے گا، بہت مشکل بات ہے۔ اس لیے انفاق کے سلسلے میں سب سے پہلے اس کے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ یعنی سود کو ذکر فرمایا، اس پر تنبہیہ فرمائی، عذاب کی تہدیدسنائی تاکہ لوگ اس برائی سے بچ سکیں۔ اسی طرح انفاق کے راستے کی ایک دوسری بڑی رکاوٹ بدکاری اور عیاشی کی چاٹ لگ جانا ہے۔ جو شخص آوارگی اختیار کرتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ غلط صحبتیں اٹھاتا ہے تو وہ وقت دور نہیں رہتا جب وہ بےحیائی کا ارتکاب کرنے لگتا ہے اور پھر یہ بات مسلم ہے کہ بےحیائی تنہا نہیں آتی، اس کے ساتھ عیاشی بھی آتی ہے، چاریاری بھی آتی ہے، بدکاری تک بھی معاملہ پہنچتا ہے، پھر شراب وکباب کا دور چلتا ہے اور اسراف و تبذیر کا ایک ایک چلن زندہ ہو کر اس کے کردار کا لازمی عنصر بن جاتا ہے۔ کوئی بھی شخص جب ان عوارض کا شکار ہوجاتا ہے تو پھر اس کے گھر کا اجڑ جانا، بیوی سے لا تعلقی، بچوں کو نظر انداز کرنا، حتیٰ کہ فاقوں تک نوبت پہنچ جانا چند دنوں کی بات ہوتی ہے۔ اس لیے انفاق فی سبیل اللہ کے لیے جس طرح سودی ذہنیت کا خاتمہ ضروری ہے، اسی طرح بےحیائی کی ہر صورت کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ بےحیائی یکلخت کبھی نہیں آتی۔ سب سے پہلے تفریح کے نام سے فاسقانہ جذبات کو غذا مہیا کی جاتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسے جذبات رکھنے والا ایک چلتا پھرتا حیوان بن جاتا ہے۔ جس سے آپ کسی خیر کی توقع نہیں رکھ سکتے۔ وہ تفریح کے لیے مختلف فلسفے بگھارے گا۔ انسانی غموں کے علاج کے لیے اسے تریاق کے طور پر پیش کرے گا۔ لیکن وہ وقت دور نہیں جب ہر دیکھنے والے کو نظر آئے گا کہ یہ تو سفلی جذبات کی ایک فصل اٹھائی جا رہی تھی جس کے اب کٹنے کا وقت آگیا ہے۔ چناچہ اس کا راستہ روکنے کے لیے پروردگار نے تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا اور تقویٰ کے حاملین یعنی متقی لوگوں کی مختلف صفات بیان فرمائیں تاکہ یہ لوگ بداخلاقی کے عوارض سے محفوظ رہ سکیں۔ سب سے پہلے تو اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ انسانی معاشرے سے یہ توقع رکھنا کہ اس میں کبھی اخلاق سے گری ہوئی کوئی حرکت پیدا نہیں ہوسکتی یا کبھی بھی اس میں بےحیائی کو راستہ نہیں مل سکتا۔ یہ انسانی فطرت کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ فرشتوں کو اللہ نے ایسا پیدا فرمایا ہے کہ وہ کبھی معصیت یا بےحیائی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ ان کے اندر سرے سے یہ داعیہ رکھا ہی نہیں گیا۔ لیکن انسان جو ہر طرح کے احساسات کا حامل، جذبات سے متأثر ہونے والا، اچھی اور بری خواہشات کا پیکر اور سفلی جذبات کا اسیر کبھی کسی برائی کا ارتکاب نہ کرے یہ ناممکن ہے۔ صرف اللہ کے نبی ایسے ہوتے ہیں۔ اللہ جنھیں معصوم پیدا فرماتا ہے ان کی ہر برے ارادے اور برے عمل سے حفاظت فرماتا ہے۔ بعض ایسے خوش نصیب بھی ہوتے ہیں جنھیں محفوظ کہا جاتا ہے، لیکن عام انسانی مزاج گناہ، سرکشی اور معصیت سے ہمیشہ دور نہیں رہ سکتا۔ ایک حدیث قدسی ہے جس میں پروردگار ارشاد فرماتے ہیں کہ ” اگر ایسا ہوتا کہ انسانوں میں سے کوئی انسان کبھی خطا نہ کرتا، اس سے کبھی گناہ کا صدور نہ ہوتا، ان میں سے ہر ایک کا دل محمد ﷺ کے دل جیسا ہوجاتا تو میں ایسے لوگوں کو مٹا دیتا اور اس مخلوق کو پیدا کرتا جو اللہ کی فرمانبرداری بھی کرتی اور معصیت کا ارتکاب بھی کرتی اور پھر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتی۔ “ کیونکہ اللہ کو اگر صرف یہ مطلوب ہو تاکہ ایک ایسی مخلوق پیدا کرے جو کبھی گناہ نہ کرے تو وہ پہلے سے فرشتوں کی صورت میں موجود تھی۔ انسانوں کو تو اس لیے پیدا کیا اور ان میں خیر و شر کے جذبات رکھے اور ان کو خیر و شر کی پہچان کی تمیز بھی بخشی۔ پھر ان کو آزادی دے دی کہ وہ جس طرح چاہیں زندگی گزاریں۔ اب ان میں سے جو شخص بالکل گناہ کے قریب نہیں جائے گا وہ بھی بخشا جائے گا اور اسی طرح وہ لوگ جن سے کبھی نہ کبھی گناہ کا صدور ہوگا یا وہ کسی بےحیائی کا ارتکاب کر بیٹھیں گے اور پھر انھیں اللہ کی یاد آئے گی اور وہ ٹھٹھک کر رک جائیں گے اور ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائیں گے کہ ہمارے خالق ومالک نے تو ہمیں ایسے ہر گناہ سے روکا تھا اور یہ بھی بتایا تھا کہ اس کی نگاہیں ہر وقت ہماری تعاقب میں رہیں گی۔ یہ جانتے ہوئے بھی ہم سے یہ گناہ سرزد کیوں ہوا ؟ چناچہ جیسے ہی اللہ کی یاد آئی، تنبہ ہوا تو پشیمانی اور پریشانی نے آپکڑا۔ اب آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں، زبان سے التجائیں کی جا رہی ہیں، ہاتھ توبہ اور معافی کے لیے پھیلائے جا رہے ہیں اور اللہ کی رحمت کو پکارا جا رہا ہے۔ یہ وہ منظر ہے جسے پروردگار دیکھنا چاہتا ہے۔ فرشتے بھی پہلے موجود تھے جو معصوم تھے۔ ابلیس بھی موجود تھا جس نے سرکشی کی اور پلٹنے کا راستہ بھول گیا۔ اللہ نے آدم اور اس کی ذریت کو اٹھایا کہ وہ غلطیوں سے بچیں اور اگر کبھی نسیان یا خواہشات کا شکار ہو کر غلطی کر بیٹھیں تو فوراً اللہ سے معافی مانگیں۔ یہی وہ معافی اور رونا دھونا ہے اور عاجزی اور سر افگندگی ہے جو اللہ کو محبوب ہے۔ ماہر القادری مرحوم نے ٹھیک کہا : اس دل پہ خدا کی رحمت ہو جس دل کی یہ حالت ہوتی ہے اک بار خطا ہوجاتی ہے سو بار ندامت ہوتی ہے انسان سے اصل مطلوب یہی ہے۔ ہم گھروں میں دیکھتے ہیں کہ ایک بچہ وہ ہے جو کبھی شرارت نہیں کرتا، لدھڑ بنا سویا رہتا ہے، کوئی شوخی نہیں کرتا، برتن نہیں توڑتا، امی کو تنگ نہیں کرتا، تو وہ پیارا تو ضرور ہوتا ہے، لیکن زیادہ پیار نہیں لیتا۔ لیکن اس کی بہ نسبت دوسرا بچہ جو نہایت شوخ اور چنچل ہے، سارا دن شرارتیں کرتا ہے، برتن توڑتا ہے، امی کو تنگ کرتا ہے اور اس کی امی جب اسے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھاتی ہے تو اسی کی آغوش میں گھس کر پناہ گزیں ہوجاتا ہے۔ آپ تجربہ کر کے دیکھ لیجئے یہی بچہ گھر کی رونق سمجھا جاتا ہے اور یہی ماں باپ کی نگاہوں کا مرکز ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ماں باپ سے زیادہ رحیم و کریم اور نوازنے والے ہیں۔ وہ جب اپنے بندے کو دیکھتے ہیں کہ اس نے گناہ کیا، سرکشی دکھائی، لیکن جیسے ہی اپنے رب کی یاد آئی تو ساری سرکشی نکل گئی۔ اب اس کی آنکھیں آنسو برسا رہی ہیں، دل خون ہو رہا ہے کہ ہائیں ! میں یہ کیا کر بیٹھا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آتی ہے تو وہ اس کی پیشانی کے قطروں کو بھی موتی بنا دیتی ہے۔ کیا بات کہی اقبال نے ؎ موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے میرے عرق انفعال کے ایک پر لطف بات اس آیت کریمہ میں اک اور بہت پر لطف بات ارشاد فرمائی گئی ہے کہ اللہ کے بندے جب تنبہ ہونے اور خدا کی یاد آنے پر فوراً استغفار کی طرف لپکتے ہیں اور معافی پہ معافی مانگتے چلے جاتے ہیں۔ تو دیکھنے والا حیران ہوتا ہے کہ یہ لوگ آخر پلٹ پلٹ کر اللہ کے دروازے کی طرف ہی کیوں آتے ہیں ؟ اسی کے آستانے سے کیوں بار بار چمٹتے ہیں ؟ اس کے جواب میں ارشاد فرمایا : وَمَنْ یَّغْفِرُالذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ (اللہ کے سوا اور گناہوں کو کون بخش سکتا ہے ؟ ) اگر کوئی اور دروازہ بھی ہوتا تو اس کے بندے اس کا طواف کرتے، اس سے لپٹتے اور دعائیں مانگتے۔ جب آستانہ ہی ایک ہے تو پھر اس کے بندے کسی اور طرف کیسے جاسکتے ہیں ؟ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) کے حالات میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے کہ انھوں نے غیب سے ایک آواز سنی کہ کسی کا نام لے کر کہا جا رہا ہے کہ ” نکل جاؤ یہاں سے ہمیں تمہارا آنا منظور نہیں۔ “ شیخ نے جب یہ آواز بار بار سنی تو آپ نے اس شخص کو تلاش کرنا شروع کیا۔ چناچہ اس شخص کو پا لیا۔ اس سے پوچھا کہ بھائی یہ جو میں آواز سنتا ہوں آپ بھی سنتے ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ بہت دنوں سے سن رہا ہوں۔ تو شیخ نے کہا پھر چلے کیوں نہیں جاتے۔ اس نے غور سے شیخ کو دیکھا اور حیران ہو کر کہنے لگا کہ بھلے آدمی ! تم مجھے بتائو۔ میں کہاں جاؤں ؟ اگر تو اس آستانے کے سوا کوئی اور آستانہ ہے تو مجھے اس کا پتہ دے دو ۔ میں وہاں چلا جاتا ہوں۔ جب اس آستانے کے سوا کوئی اور آستانہ ہی نہیں تو میں کہاں جاؤں ؟ مجھے تو اسی سے لپٹ کر جان دینی ہے۔ چاہے ہزار دفعہ نکلنے کا حکم دیاجائے۔ کسی نے کیا خوب کہا ؎ جفا سے ہٹو تم وفا سے ٹلوں میں نہ یہ بات ہوگی نہ وہ بات ہوگی قسم آستاں کی نہ اٹھیں گے ہر گز یہیں دن چڑھے گا یہیں رات ہوگی شیخ کہتے ہیں کہ میں ابھی وہیں تھا جب وہ صاحب مجھے دوبارہ ملے اور انھوں نے مجھے بتایا کہ اللہ نے بالآخر میری سن لی۔ میری غلطیوں سے درگزر فرمایا اور مجھے وہ تمام مقامات پھر عطا کردیئے گئے جن سے میں محروم کیا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ جذبہ ہے جو حاصل بندگی ہے۔ انسان کی یہی وہ متاع بےبہا ہے جس پر اسے فخر کرنا چاہیے۔ جب وہ اللہ کے سامنے آنسو بہاتا ہے تو وہ قدروقیمت میں موتیوں سے کہیں بڑھ جاتے ہیں۔ جب اس کا دل ہر طرف سے کٹ کر اللہ ہی کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ ایسے دل کو اپنا مرکز بنا لیتا ہے۔ وہ جو ہاتھ بارگاہِ خداوندی میں پھیلاتا ہے اللہ تعالیٰ ان ہاتھوں کی ہمیشہ لاج رکھتا ہے۔ یہی وہ متاع بےبہا ہے جس پر اقبال نے وہ بات کہی جسے جسارت کہنا چاہیے کہ : متاعِ بےبہا ہے درد و سوز آرزو مندی متاعِ بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی حاصل کلام یہ کہ حقوق اللہ میں اللہ کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ کبھی اس کی معصیت نہ کی جائے اور اگر کبھی معصیت ہوجائے تو اس وقت تک بےکلی اور بےچینی الگ نہ ہو جب تک ادھر سے معافی نہ مل جائے۔ غلطی کا ہوجانا انسانی فطرت ہے لیکن اس پر اصرار کرنا شیطانی فطرت ہے۔ اس لیے ایک مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے گناہوں کو کبھی دہرانے کی جسارت نہ کرے، فوراً معافی مانگے پھر دیکھے کہ اللہ کتنا رحیم و کریم ہے اور یہ بات بھی ذہن میں رکھے کہ اللہ کا علم اس قدر وسیع اور محیط ہے کہ اس کے علم سے نہ بندوں کی غلطیاں باہر رہتی ہیں اور نہ غلطیوں کے بعد بندوں کا طرزعمل۔ اگر طرزعمل وہ اختیار کرتا ہے جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لیے اللہ کی بخشش انتظار میں ہے۔ اس کی جنتیں ان کی منتظر ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں۔ جب قیامت کے دن جنتوں کا دیدار ہوگا تب اندازہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے اعمال کی جزا کتنی عظیم رکھی ہے۔
Top