Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 135
وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ١۪ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ١۪۫ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
وَالَّذِيْنَ
: اور وہ لوگ جو
اِذَا
: جب
فَعَلُوْا
: وہ کریں
فَاحِشَةً
: کوئی بےحیائی
اَوْ
: یا
ظَلَمُوْٓا
: ظلم کریں
اَنْفُسَھُمْ
: اپنے تئیں
ذَكَرُوا اللّٰهَ
: وہ اللہ کو یاد کریں
فَاسْتَغْفَرُوْا
: پھر بخشش مانگیں
لِذُنُوْبِھِمْ
: اپنے گناہوں کے لیے
وَ مَنْ
: اور کون
يَّغْفِرُ
: بخشتا ہے
الذُّنُوْبَ
: گناہ
اِلَّا اللّٰهُ
: اللہ کے سوا
وَلَمْ
: اور نہ
يُصِرُّوْا
: وہ اڑیں
عَلٰي
: پر
مَا فَعَلُوْا
: جو انہوں نے کیا
وَھُمْ
: اور وہ
يَعْلَمُوْنَ
: جانتے ہیں
اور (متقی) وہ لوگ ہیں کہ جب کسی کھلی برائی کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جان پر ظلم توڑتے ہیں تو اللہ کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا کون ہے جو گناہوں کو بخشے اور یہ جانتے بوجھتے اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے
وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِہِمْ قف وَمَنْ یَّغْفِرُالذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ قف ص وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ ۔ اُوْلٰٓئِکَ جَزَآؤُہُمْ مَّغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَجَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَاالْاَنْہَارُخٰلِدِیْنَ فِیْہَا ط وَنِعْمَ اَجْرُالْعٰمِلِیْنَ ۔ ط (اور (متقی) وہ لوگ ہیں کہ جب کسی کھلی برائی کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جان پر ظلم توڑتے ہیں تو اللہ کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا کون ہے جو گناہوں کو بخشے اور یہ جانتے بوجھتے اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔ یہ لوگ ہیں جن کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت اور ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور کیا ہی اچھا صلہ ہے عمل کرنے والوں کا) (135 تا 136) انفاق کی راہ کی ایک اور مزاحمت سیاقِ کلام کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ جس طرح ساہوکارانہ ذہنیت ہے جس سے روپے کی ایسی تونس پیدا ہوجاتی ہے کہ ساون کے اندھے کی طرح اسے ہر طرف روپیہ ہی روپیہ دکھائی دیتا ہے۔ ایسے آدمی سے یہ توقع رکھنا کہ وہ درہم و دینار کی محبت میں ڈوب کر انفاق فی سبیل اللہ سے کام لے گا، بہت مشکل بات ہے۔ اس لیے انفاق کے سلسلے میں سب سے پہلے اس کے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ یعنی سود کو ذکر فرمایا، اس پر تنبہیہ فرمائی، عذاب کی تہدیدسنائی تاکہ لوگ اس برائی سے بچ سکیں۔ اسی طرح انفاق کے راستے کی ایک دوسری بڑی رکاوٹ بدکاری اور عیاشی کی چاٹ لگ جانا ہے۔ جو شخص آوارگی اختیار کرتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ غلط صحبتیں اٹھاتا ہے تو وہ وقت دور نہیں رہتا جب وہ بےحیائی کا ارتکاب کرنے لگتا ہے اور پھر یہ بات مسلم ہے کہ بےحیائی تنہا نہیں آتی، اس کے ساتھ عیاشی بھی آتی ہے، چاریاری بھی آتی ہے، بدکاری تک بھی معاملہ پہنچتا ہے، پھر شراب وکباب کا دور چلتا ہے اور اسراف و تبذیر کا ایک ایک چلن زندہ ہو کر اس کے کردار کا لازمی عنصر بن جاتا ہے۔ کوئی بھی شخص جب ان عوارض کا شکار ہوجاتا ہے تو پھر اس کے گھر کا اجڑ جانا، بیوی سے لا تعلقی، بچوں کو نظر انداز کرنا، حتیٰ کہ فاقوں تک نوبت پہنچ جانا چند دنوں کی بات ہوتی ہے۔ اس لیے انفاق فی سبیل اللہ کے لیے جس طرح سودی ذہنیت کا خاتمہ ضروری ہے، اسی طرح بےحیائی کی ہر صورت کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ بےحیائی یکلخت کبھی نہیں آتی۔ سب سے پہلے تفریح کے نام سے فاسقانہ جذبات کو غذا مہیا کی جاتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسے جذبات رکھنے والا ایک چلتا پھرتا حیوان بن جاتا ہے۔ جس سے آپ کسی خیر کی توقع نہیں رکھ سکتے۔ وہ تفریح کے لیے مختلف فلسفے بگھارے گا۔ انسانی غموں کے علاج کے لیے اسے تریاق کے طور پر پیش کرے گا۔ لیکن وہ وقت دور نہیں جب ہر دیکھنے والے کو نظر آئے گا کہ یہ تو سفلی جذبات کی ایک فصل اٹھائی جا رہی تھی جس کے اب کٹنے کا وقت آگیا ہے۔ چناچہ اس کا راستہ روکنے کے لیے پروردگار نے تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا اور تقویٰ کے حاملین یعنی متقی لوگوں کی مختلف صفات بیان فرمائیں تاکہ یہ لوگ بداخلاقی کے عوارض سے محفوظ رہ سکیں۔ سب سے پہلے تو اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ انسانی معاشرے سے یہ توقع رکھنا کہ اس میں کبھی اخلاق سے گری ہوئی کوئی حرکت پیدا نہیں ہوسکتی یا کبھی بھی اس میں بےحیائی کو راستہ نہیں مل سکتا۔ یہ انسانی فطرت کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ فرشتوں کو اللہ نے ایسا پیدا فرمایا ہے کہ وہ کبھی معصیت یا بےحیائی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ ان کے اندر سرے سے یہ داعیہ رکھا ہی نہیں گیا۔ لیکن انسان جو ہر طرح کے احساسات کا حامل، جذبات سے متأثر ہونے والا، اچھی اور بری خواہشات کا پیکر اور سفلی جذبات کا اسیر کبھی کسی برائی کا ارتکاب نہ کرے یہ ناممکن ہے۔ صرف اللہ کے نبی ایسے ہوتے ہیں۔ اللہ جنھیں معصوم پیدا فرماتا ہے ان کی ہر برے ارادے اور برے عمل سے حفاظت فرماتا ہے۔ بعض ایسے خوش نصیب بھی ہوتے ہیں جنھیں محفوظ کہا جاتا ہے، لیکن عام انسانی مزاج گناہ، سرکشی اور معصیت سے ہمیشہ دور نہیں رہ سکتا۔ ایک حدیث قدسی ہے جس میں پروردگار ارشاد فرماتے ہیں کہ ” اگر ایسا ہوتا کہ انسانوں میں سے کوئی انسان کبھی خطا نہ کرتا، اس سے کبھی گناہ کا صدور نہ ہوتا، ان میں سے ہر ایک کا دل محمد ﷺ کے دل جیسا ہوجاتا تو میں ایسے لوگوں کو مٹا دیتا اور اس مخلوق کو پیدا کرتا جو اللہ کی فرمانبرداری بھی کرتی اور معصیت کا ارتکاب بھی کرتی اور پھر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتی۔ “ کیونکہ اللہ کو اگر صرف یہ مطلوب ہو تاکہ ایک ایسی مخلوق پیدا کرے جو کبھی گناہ نہ کرے تو وہ پہلے سے فرشتوں کی صورت میں موجود تھی۔ انسانوں کو تو اس لیے پیدا کیا اور ان میں خیر و شر کے جذبات رکھے اور ان کو خیر و شر کی پہچان کی تمیز بھی بخشی۔ پھر ان کو آزادی دے دی کہ وہ جس طرح چاہیں زندگی گزاریں۔ اب ان میں سے جو شخص بالکل گناہ کے قریب نہیں جائے گا وہ بھی بخشا جائے گا اور اسی طرح وہ لوگ جن سے کبھی نہ کبھی گناہ کا صدور ہوگا یا وہ کسی بےحیائی کا ارتکاب کر بیٹھیں گے اور پھر انھیں اللہ کی یاد آئے گی اور وہ ٹھٹھک کر رک جائیں گے اور ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائیں گے کہ ہمارے خالق ومالک نے تو ہمیں ایسے ہر گناہ سے روکا تھا اور یہ بھی بتایا تھا کہ اس کی نگاہیں ہر وقت ہماری تعاقب میں رہیں گی۔ یہ جانتے ہوئے بھی ہم سے یہ گناہ سرزد کیوں ہوا ؟ چناچہ جیسے ہی اللہ کی یاد آئی، تنبہ ہوا تو پشیمانی اور پریشانی نے آپکڑا۔ اب آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں، زبان سے التجائیں کی جا رہی ہیں، ہاتھ توبہ اور معافی کے لیے پھیلائے جا رہے ہیں اور اللہ کی رحمت کو پکارا جا رہا ہے۔ یہ وہ منظر ہے جسے پروردگار دیکھنا چاہتا ہے۔ فرشتے بھی پہلے موجود تھے جو معصوم تھے۔ ابلیس بھی موجود تھا جس نے سرکشی کی اور پلٹنے کا راستہ بھول گیا۔ اللہ نے آدم اور اس کی ذریت کو اٹھایا کہ وہ غلطیوں سے بچیں اور اگر کبھی نسیان یا خواہشات کا شکار ہو کر غلطی کر بیٹھیں تو فوراً اللہ سے معافی مانگیں۔ یہی وہ معافی اور رونا دھونا ہے اور عاجزی اور سر افگندگی ہے جو اللہ کو محبوب ہے۔ ماہر القادری مرحوم نے ٹھیک کہا : اس دل پہ خدا کی رحمت ہو جس دل کی یہ حالت ہوتی ہے اک بار خطا ہوجاتی ہے سو بار ندامت ہوتی ہے انسان سے اصل مطلوب یہی ہے۔ ہم گھروں میں دیکھتے ہیں کہ ایک بچہ وہ ہے جو کبھی شرارت نہیں کرتا، لدھڑ بنا سویا رہتا ہے، کوئی شوخی نہیں کرتا، برتن نہیں توڑتا، امی کو تنگ نہیں کرتا، تو وہ پیارا تو ضرور ہوتا ہے، لیکن زیادہ پیار نہیں لیتا۔ لیکن اس کی بہ نسبت دوسرا بچہ جو نہایت شوخ اور چنچل ہے، سارا دن شرارتیں کرتا ہے، برتن توڑتا ہے، امی کو تنگ کرتا ہے اور اس کی امی جب اسے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھاتی ہے تو اسی کی آغوش میں گھس کر پناہ گزیں ہوجاتا ہے۔ آپ تجربہ کر کے دیکھ لیجئے یہی بچہ گھر کی رونق سمجھا جاتا ہے اور یہی ماں باپ کی نگاہوں کا مرکز ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ماں باپ سے زیادہ رحیم و کریم اور نوازنے والے ہیں۔ وہ جب اپنے بندے کو دیکھتے ہیں کہ اس نے گناہ کیا، سرکشی دکھائی، لیکن جیسے ہی اپنے رب کی یاد آئی تو ساری سرکشی نکل گئی۔ اب اس کی آنکھیں آنسو برسا رہی ہیں، دل خون ہو رہا ہے کہ ہائیں ! میں یہ کیا کر بیٹھا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آتی ہے تو وہ اس کی پیشانی کے قطروں کو بھی موتی بنا دیتی ہے۔ کیا بات کہی اقبال نے ؎ موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے میرے عرق انفعال کے ایک پر لطف بات اس آیت کریمہ میں اک اور بہت پر لطف بات ارشاد فرمائی گئی ہے کہ اللہ کے بندے جب تنبہ ہونے اور خدا کی یاد آنے پر فوراً استغفار کی طرف لپکتے ہیں اور معافی پہ معافی مانگتے چلے جاتے ہیں۔ تو دیکھنے والا حیران ہوتا ہے کہ یہ لوگ آخر پلٹ پلٹ کر اللہ کے دروازے کی طرف ہی کیوں آتے ہیں ؟ اسی کے آستانے سے کیوں بار بار چمٹتے ہیں ؟ اس کے جواب میں ارشاد فرمایا : وَمَنْ یَّغْفِرُالذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ (اللہ کے سوا اور گناہوں کو کون بخش سکتا ہے ؟ ) اگر کوئی اور دروازہ بھی ہوتا تو اس کے بندے اس کا طواف کرتے، اس سے لپٹتے اور دعائیں مانگتے۔ جب آستانہ ہی ایک ہے تو پھر اس کے بندے کسی اور طرف کیسے جاسکتے ہیں ؟ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) کے حالات میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے کہ انھوں نے غیب سے ایک آواز سنی کہ کسی کا نام لے کر کہا جا رہا ہے کہ ” نکل جاؤ یہاں سے ہمیں تمہارا آنا منظور نہیں۔ “ شیخ نے جب یہ آواز بار بار سنی تو آپ نے اس شخص کو تلاش کرنا شروع کیا۔ چناچہ اس شخص کو پا لیا۔ اس سے پوچھا کہ بھائی یہ جو میں آواز سنتا ہوں آپ بھی سنتے ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ بہت دنوں سے سن رہا ہوں۔ تو شیخ نے کہا پھر چلے کیوں نہیں جاتے۔ اس نے غور سے شیخ کو دیکھا اور حیران ہو کر کہنے لگا کہ بھلے آدمی ! تم مجھے بتائو۔ میں کہاں جاؤں ؟ اگر تو اس آستانے کے سوا کوئی اور آستانہ ہے تو مجھے اس کا پتہ دے دو ۔ میں وہاں چلا جاتا ہوں۔ جب اس آستانے کے سوا کوئی اور آستانہ ہی نہیں تو میں کہاں جاؤں ؟ مجھے تو اسی سے لپٹ کر جان دینی ہے۔ چاہے ہزار دفعہ نکلنے کا حکم دیاجائے۔ کسی نے کیا خوب کہا ؎ جفا سے ہٹو تم وفا سے ٹلوں میں نہ یہ بات ہوگی نہ وہ بات ہوگی قسم آستاں کی نہ اٹھیں گے ہر گز یہیں دن چڑھے گا یہیں رات ہوگی شیخ کہتے ہیں کہ میں ابھی وہیں تھا جب وہ صاحب مجھے دوبارہ ملے اور انھوں نے مجھے بتایا کہ اللہ نے بالآخر میری سن لی۔ میری غلطیوں سے درگزر فرمایا اور مجھے وہ تمام مقامات پھر عطا کردیئے گئے جن سے میں محروم کیا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ جذبہ ہے جو حاصل بندگی ہے۔ انسان کی یہی وہ متاع بےبہا ہے جس پر اسے فخر کرنا چاہیے۔ جب وہ اللہ کے سامنے آنسو بہاتا ہے تو وہ قدروقیمت میں موتیوں سے کہیں بڑھ جاتے ہیں۔ جب اس کا دل ہر طرف سے کٹ کر اللہ ہی کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ ایسے دل کو اپنا مرکز بنا لیتا ہے۔ وہ جو ہاتھ بارگاہِ خداوندی میں پھیلاتا ہے اللہ تعالیٰ ان ہاتھوں کی ہمیشہ لاج رکھتا ہے۔ یہی وہ متاع بےبہا ہے جس پر اقبال نے وہ بات کہی جسے جسارت کہنا چاہیے کہ : متاعِ بےبہا ہے درد و سوز آرزو مندی متاعِ بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی حاصل کلام یہ کہ حقوق اللہ میں اللہ کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ کبھی اس کی معصیت نہ کی جائے اور اگر کبھی معصیت ہوجائے تو اس وقت تک بےکلی اور بےچینی الگ نہ ہو جب تک ادھر سے معافی نہ مل جائے۔ غلطی کا ہوجانا انسانی فطرت ہے لیکن اس پر اصرار کرنا شیطانی فطرت ہے۔ اس لیے ایک مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے گناہوں کو کبھی دہرانے کی جسارت نہ کرے، فوراً معافی مانگے پھر دیکھے کہ اللہ کتنا رحیم و کریم ہے اور یہ بات بھی ذہن میں رکھے کہ اللہ کا علم اس قدر وسیع اور محیط ہے کہ اس کے علم سے نہ بندوں کی غلطیاں باہر رہتی ہیں اور نہ غلطیوں کے بعد بندوں کا طرزعمل۔ اگر طرزعمل وہ اختیار کرتا ہے جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لیے اللہ کی بخشش انتظار میں ہے۔ اس کی جنتیں ان کی منتظر ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں۔ جب قیامت کے دن جنتوں کا دیدار ہوگا تب اندازہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے اعمال کی جزا کتنی عظیم رکھی ہے۔
Top