Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 135
وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ١۪ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ١۪۫ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اِذَا : جب فَعَلُوْا : وہ کریں فَاحِشَةً : کوئی بےحیائی اَوْ : یا ظَلَمُوْٓا : ظلم کریں اَنْفُسَھُمْ : اپنے تئیں ذَكَرُوا اللّٰهَ : وہ اللہ کو یاد کریں فَاسْتَغْفَرُوْا : پھر بخشش مانگیں لِذُنُوْبِھِمْ : اپنے گناہوں کے لیے وَ مَنْ : اور کون يَّغْفِرُ : بخشتا ہے الذُّنُوْبَ : گناہ اِلَّا اللّٰهُ : اللہ کے سوا وَلَمْ : اور نہ يُصِرُّوْا : وہ اڑیں عَلٰي : پر مَا فَعَلُوْا : جو انہوں نے کیا وَھُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہیں
اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور خدا کے سوا گناہ بخش بھی کون سکتا ہے؟ اور جان بوجھ کر اپنے افعال پر اڑے نہیں رہتے
والذین اذا فعلوا فاحشۃ فاحشہ فحش سے ماخوذ ہے فحش کا اصل معنی ہے بدی اور حد سے باہر نکل جانا یہاں فاحشہ سے مرادگناہ گبیرہ کیونکہ مرتکب کبیرہ عصیان اور بدی کی حد سے آگے بڑھ جاتا ہے حضرت جابر ؓ نے فرمایا : فاحشہ زنا ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : مسلمانوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ہم سے تو بنی اسرائیل ہی اللہ کی نظر میں زیادہ عزت والے تھے ان میں سے اگر کوئی (رات کو) گناہ کرلیتا تھا تو صبح کو دروازہ کی چوکھٹ پر اس کا کفارہ لکھا ہو املتا تھا کہ اپنی ناک یا کان کاٹ ڈال یا ایسا کرلے۔ حضور ﷺ یہ سن کر خاموش ہوگئے تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ عطاء نے کہا اس آیت کا نزول نبہان خرمہ فروش کے حق میں ہوا تھا جس کی کنیت ابو معبد تھی قصہ یہ ہوا کہ ایک خوبصورت عورت چھوارے خریدنے اس کے پاس آئی نبہان نے کہا یہ چھوارے اچھے نہیں ہیں گھر کے اندر اس سے کھرے موجود ہیں چناچہ اس عورت کو لے کر نبہان گھر میں گیا اور اندر جا کر اس کو چمٹا لیا اور بوسہ لیا عورت نے کہا اللہ سے ڈر نبہان نے فوراً چھوڑ دیا اور اس حرکت پر پشیمان ہو کر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور قصہ عرض کردیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مقاتل اور کلبی کا بیان ہے کہ رسول اللہ نے دو آدمیوں کو بھائی بھائی بنا دیا تھا ایک انصاری تھا دوسر 1 ثقفی۔ ثقفی ایک جہاد پر گیا اور انصاری بھائی کو اپنے بال بچوں کا نگران بنا گیا ایک روز انصاری نے ثقفی کے گھروالوں کے لیے گوشت خریدا اور ثقفی کی بیوی نے جب انصاری سے گوشت لینا چاہا تو وہ عورت کے پیچھے پیچھے گھر میں آگیا اور اس کے ہاتھ کو چوم لیا پھر اس کی پشیمانی ہوئی اور واپس لوٹ آیا مگر خاک سر پر اڑاتا ہوا سرگرداں ہو کر (جنگل میں) نکل گیا۔ ثقفی لوٹ کر آیا اور انصاری استقبال کے لیے نہ آیا تو اس نے اپنی بیوی سے انصار کا حال پوچھا عورت نے کہا : ایسے بھائیوں کی تعداد خدا زیادہ نہ کرے اور پوری حالت بیان کردی ادھر انصاری پہاڑوں میں گھومتا اور توبہ استغفار کرتا پھر رہا تھا ثقفی نے اس کی تلاش کی اور جب مل گیا تو حضرت ابوبکر کی خدمت میں لے کر اس امید پر آیا کہ شاید کوئی سکون اور کشائش کا راستہ آپ کے پاس مل جائے۔ انصاری نے قصہ عرض کردیا اور کہا میں تباہ ہوگیا۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا : تیر ابرا ہو کیا تجھے معلوم نہیں کہ غازی کے سلسلے میں اللہ اتنی حمیت رکھتا ہے کہ مقیم کے سلسلے میں نہیں رکھتا اس کے بعد یہ دونوں حضرت عمر ؓ سے ملے اور حضرت عمر نے بھی وہی جواب دیا جو حضرت ابوبکر نے دیا تھا آخر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے مگر آپ نے بھی شیخین کا سا جواب دیا اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ و ظلموا انفسھم یا انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہو یعنی صغیرہ گناہ کرکے یا زنا سے کم درجہ کا گناہ کرکے جیسے بوسہ یا معانقہ اور ہاتھ لگانا۔ بعض علماء نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ فاحشہ کا ارتکاب کیا ہو قولاً اور اپنی جانوں پر ظلم کیا ہو عملاً ۔ بعض اہل علم نے کہا کہ فاحشہ وہ ہے جو متعدی گناہ ہو اور ظلم نفس سے وہ گناہ مراد ہے جو متعدی نہ ہو۔ یہی زیادہ ظاہر ہے مطلب آیت کا یہ ہے کہ جنت ان لوگوں کے لیے بھی تیار کی گئی ہے جو کسی فاحشہ کا ارتکاب یا اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں پھر۔ ذکروا اللہ فاستغفروا لذنوبھم اللہ کے عذاب کی یاد ان کو ہوجاتی ہے تو گناہ کے پیچھے وہ اپنے گناہوں کی معافی اللہ سے چاہتے ہیں، ذکر اللہ سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ کے عذاب کو یاد کرتے ہیں اور ان کو یہ احساس ہوجاتا ہے کہ اللہ ان سے پوچھے گا لہٰذا پشیمان ہو کر وہ توبہ و استغفار کرتے ہیں۔ مقاتل بن حبان کے نزدیک ذکر اللہ سے مراد ہے اللہ کی زبانی یاد۔ میں (مفسر) کہتا ہوں ممکن ہے کہ ذکرا اللہ سے صلوٰۃ استغفار مرادہو کیونکہ حضرت علی ؓ نے حضرت ابوبکر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ فرما رہے تھے کہ جو مؤمن بندہ یا جو شخص کوئی گناہ کرتا ہے پھر اچھی طرح وضوء کرکے کھڑا ہو کر نماز پڑھتا ہے پھر اللہ سے معافی کا طلب گار ہوتا ہے تو اللہ اس کا گناہ ضرور معاف فرما دیتا ہے۔ (رواہ ابوداؤد والترمذی والنسائی وابن ماجہ وابن حبان) ترمذی نے اتنا لفظ اور روایت کیا ہے پھر حضور ﷺ نے پڑھا : والذین اذا فعلوا فاحشۃ او ظلموا انفسھم۔۔ و من یغفر الذنوب الا اللہ استثناء مفرغ اور استفہام بمعنی نفی ہے یعنی اللہ کے علاوہ کوئی بھی گناہ معاف نہیں کرسکتا کیونکہ جو لوگ (دنیا یا آخرت میں) دوسروں کو معاف کرنے والے ہیں وہ صرف اپنے حقوق سے درگذر کرنے والے ہیں گناہ معاف نہیں کرسکتے۔ گناہ کو معاف کرنا توا اللہ کا حق ہے۔ (معصیت اللہ کے حق کے خلاف کرنے کا نام ہے) ۔ یا یوں کہا جائے کہ معاف کرنے والے اشخاص جو لوگوں کو معاف کرتے ہیں وہ اس امید پر معاف کرتے ہیں کہ اللہ ان کی مغفرت فرمادے گا گویا ان کی معافی تجارتی ہوتی ہے اور گناہوں کو معاف کرنے والا وہی ہوتا ہے جو بلا لالچ اور بغیرغرض کے معاف فرما دے گا اور ایسا سوائے خدا کے کوئی نہیں۔ یہ جملہ معترضہ درمیان میں وسعت رحمت اور عموم مغفرت کو ظاہر کرنے کے لیے لایا گیا ہے پھر اس میں استغفار کی ترغیب اور توبہ قبول ہونے کا وعدہ بھی ہے۔ ولم یصروا علی ما فعلوا یعنی وہ اپنے گناہوں پر جم کر نہ بیٹھ رہے صحاح میں ہے کہ (اس جگہ) اصرار کا معنی ہے گناہ میں گھس کر بیٹھ رہنا اور شدت کرنا اور ترک گناہ سے باز رہنا۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ استغناء کے لیے جس طرح گناہ پر ندامت ضروری ہے اسی طرح ترک گناہ کا عزم بھی لازم ہے خواہ آئندہ یہ عزم ترک ٹوٹ جائے اور گناہ صادر ہوجائے رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : جس نے استغفار کیا اس نے اصرار نہیں کیا خواہ دن میں لوٹ لوٹ کر سترّ بار (گناہ) کیا ہو۔ (رواہ ابو داؤد والترمذی) رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : گناہ پر قائم رہتے ہوئے استغفار کرنے والا ایسا ہے جیسے اپنے رب سے استہزاء کررہا ہو۔ (رواہ البیہقی و ابن عساکر عن ابن عباس) مسئلہ صغیرہ گناہوں پر جم جانا کبیرہ ہوجاتا ہے حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : استغفار کے ساتھ کوئی کبیرہ کبیرہ نہیں رہتا اور اصرار کے ساتھ کوئی صغیرہ صغیرہ نہیں رہتا (بلکہ کبیرہ ہوجاتا ہے) ۔ (رواہ الدیلمی فی مسند الفردوس) و ھم یعلمون یہ جملہ حالیہ ہے یعنی معصیت پر اصرار کو اس لیے انہوں نے ترک کردیا کہ وہ معصیت کو جانتے ہیں اور معصیت پر اصرار سے ان کو اللہ کا خوف روکتا ہے ترک گناہ کی وجہ ان کی اپنی سستی یا طبعی نفرت یا بندوں کا خوف یا موقع کا میسر نہ آنا نہیں ‘ کیونکہ اگر اطاعت کی نیت سے کسی ممنوع کام سے نفس کو روکا جائے تو اس پر ثواب مرتب ہوتا ہے (بغیر نیت اطاعت کے) محض ترک ممنوع موجب ثواب نہیں ہاں اس صورت میں اتنا فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ مطلقاً ترک معصیت کی وجہ سے اس عذاب سے بچاؤ ہوجائے گا۔ جو معصیت کے لیے مقرر ہے۔ گناہ پر قابو نہ پانا خود ایک قسم کا (عذاب سے) بچاؤ ہے۔ ضحاک نے کہا : ھم یعلمون سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ کو مغفرت معاصی کا مالک جانتے ہیں۔ حسین بن فضل نے کہا کہ وہ اس امر کو جانتے ہیں کہ ان کا ایک رب ہے جو گناہ معاف فرماتا ہے۔ بعض علماء نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ وہ اس بات کو جانتے ہیں کہ گناہ کتنے ہی ہوں اللہ کے عفو سے بڑے نہیں بعض دوسرے علماء نے یہ مطلب کہا ہے وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ اللہ سے معافی کے طلبگار ہوں گے تو اللہ معاف فرما دے گا۔ شیخین نے صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کردہ حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : کسی بندہ نے ایک گناہ کیا پھر عرض کیا : میرے رب مجھ سے ایک گناہ ہوگیا ہے تو اسے معاف کردے اللہ نے فرمایا : میرے بندے نے جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ کو معاف بھی کرتا ہے اور پکڑ بھی کرتا ہے میں نے اپنے بندہ کو معاف کردیا کچھ مدت کے بعد اسی شخص نے پھر ایک گناہ کیا اور عرض کیا : پروردگار مجھ سے ایک اور گناہ ہوگیا تو معاف کردے اللہ نے فرمایا : میرا بندہ واقف ہے کہ اس کا ایک مالک ہے جو گناہ بخش دیتا ہے اور (کبھی) گرفت بھی کرلیتا ہے میں نے اپنے بندہ کا گناہ بخش دیا کچھ وقت کے بعد بندہ نے ایک اور گناہ کیا اور عرض کیا : پروردگار تو معاف فرما دے اللہ نے فرمایا : میرا بندہ سمجھتا ہے کہ اس کا ایک مالک ہے جو گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گرفت بھی کرلیتا ہے میں نے اپنے بندہ کو، بخشا اب وہ جو کچھ چاہے کرے۔ طبرانی اور حاکم نے بسند صحیح حضرت ابن عباس کی روایت سے یہ فرمان رسول اللہ نقل کیا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : جو شخص مجھے مغفرت معاصی پر قادر جانتا ہے میں اس کو بخش دیتا ہوں اور (اس کے گناہوں کی کثرت کی) پرواہ بھی نہیں کرتا جب کہ اس نے کسی چیز کو میرا ساجھی (شریک ‘ 12) نہ ٹھہرایا ہو۔
Top