Mazhar-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 135
وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ١۪ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ١۪۫ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اِذَا : جب فَعَلُوْا : وہ کریں فَاحِشَةً : کوئی بےحیائی اَوْ : یا ظَلَمُوْٓا : ظلم کریں اَنْفُسَھُمْ : اپنے تئیں ذَكَرُوا اللّٰهَ : وہ اللہ کو یاد کریں فَاسْتَغْفَرُوْا : پھر بخشش مانگیں لِذُنُوْبِھِمْ : اپنے گناہوں کے لیے وَ مَنْ : اور کون يَّغْفِرُ : بخشتا ہے الذُّنُوْبَ : گناہ اِلَّا اللّٰهُ : اللہ کے سوا وَلَمْ : اور نہ يُصِرُّوْا : وہ اڑیں عَلٰي : پر مَا فَعَلُوْا : جو انہوں نے کیا وَھُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہیں
اور وہ لوگ جب کہ برا کام کریں یا اپنی جان پر ظلم کریں (یعنی گناہ) تو اسی وقت خدا کو یاد کریں پھر اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں اور خدا کے سوا گناہوں کو کون بخش سکتا ہے ؟ اور نہ اصرار کریں اس پر جو دانستہ کیا
گناہوں کی توبہ کا طریقہ شان نزول : ابی صالحہ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک صحابی انصاری اور دوسرے ثقفی میں دینی بھائی چارہ کرادیا تھا۔ ثقفی تو آحضرت ﷺ کے ساتھ لڑائی پر گیا اور انصاری مدینہ میں رہا۔ ثقفی نے جاتے وقت اپنی بیوی کی خبر گیری انصاری کو سونپی جو سودا سلف لا کردیا کرتا تھا۔ ایک دن انصاری نے گوشت لا کر کو اڑ کی جھری میں سے دیا۔ عورت نے ہاتھ نکال کر گوشت لے لیا۔ اس عورت کا ہاتھ دیکھ کر انصاری کی نیت بگڑ گئی اور وہ گھر میں گھس گیا اور عورت کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔ اتنے میں خدا نے ہدایت کی فوراً باہر چلا آیا اور بہت نادم ہوا۔ سر پر خاک ڈالی اور جنگل اور پہاڑوں میں ندامت زدہ پھرتا رہا۔ ثقفی نے لڑائی سے واپس آکر دینی بھائی کا حال اپنی بی بی سے پوچھا، اس نے سارا قصہ بیان کیا۔ ثقفی جنگل سے تلاش کرکے اس کو لایا اور پہلے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس لے گیا اور سارا قصہ نقل کیا۔ انصاری نے بھی اپنے قصور کا اقرار کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے انصاری سے فرمایا :” تجھے معلوم نہیں کہ اللہ کو لڑائی پر جانے والے لوگوں کے اہل و عیال کی کیا کچھ عزت و حرمت مدنظر ہے “۔ پھر یہ دونوں حضرت عمر ؓ کے پاس گئے انہوں نے بھی یہی فرمایا۔ پھر یہ آنحضرت ﷺ کے پاس گئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ جو لوگ کبیرہ یا صغیرہ گناہ کرکے اللہ کو یاد کرتے ہیں کہ ایک دن اللہ کو منہ دکھانا ہے اور اس ڈر سے توبہ و استغفار کرتے ہیں تو وہ فوراً معاف کردیتا ہے۔ گناہ پر ہٹ کرنے ( ڈٹ جانے) اور اڑانے کے یہ معنی ہیں کہ آدمی گناہ کرکے توبہ نہ کرے۔ حدیث میں ہے کہ توبہ کے لئے دو رکعت نفل پڑھے اور پھر عاجزی سے توبہ کرے۔ کیونکہ عاجزی اللہ کو پسند ہے، اللہ معاف کرے گا۔
Top