Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 135
وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ١۪ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ١۪۫ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اِذَا : جب فَعَلُوْا : وہ کریں فَاحِشَةً : کوئی بےحیائی اَوْ : یا ظَلَمُوْٓا : ظلم کریں اَنْفُسَھُمْ : اپنے تئیں ذَكَرُوا اللّٰهَ : وہ اللہ کو یاد کریں فَاسْتَغْفَرُوْا : پھر بخشش مانگیں لِذُنُوْبِھِمْ : اپنے گناہوں کے لیے وَ مَنْ : اور کون يَّغْفِرُ : بخشتا ہے الذُّنُوْبَ : گناہ اِلَّا اللّٰهُ : اللہ کے سوا وَلَمْ : اور نہ يُصِرُّوْا : وہ اڑیں عَلٰي : پر مَا فَعَلُوْا : جو انہوں نے کیا وَھُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہیں
اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے رہو اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور خدا کے سوا گناہ بخش بھی کون کرسکتا ہے ؟ اور جان بوجھ کر اپنے افعال پر اڑے نہیں رہتے
آیت نمبر 135۔ اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” والذین اذا فعلوا فاحشۃ اوظلموا انفسھم “۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایک صنف کا ذکر کیا ہے اور یہ پہلی صنف (کے لوگوں) سے (درجہ میں) کم ہیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمت اور احسان کے ساتھ ان کے ساتھ ملا دیا ہے اور یہ توبہ کرنے والے لوگ ہیں، حضرت ابن عباس ؓ نے حضرت عطا کی روایت میں کہا ہے : یہ آیت نبھان التمار کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس کی کنیت ابو مقبل تھی، اس کے پاس ایک حسین و جمیل عورت آئی اس نے اسے کھجوریں فروخت کیں اور پھر اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور اس کا بوسہ اور پھر اپنے اس عمل پر نادم اور شرمندہ ہوا تو حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، پھر یہ آیت نازل ہوئی۔ (1) (اسباب النزول، صفحہ 81) ابو داؤد طیالسی (رح) نے اپنی مسند میں حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت نقل کی ہے انہوں نے فرمایا : مجھے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بیان کیا ہے اور ابوبکر نے سچ کہا ہے : کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جو بندہ بھی کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے پھر وضو کرتا ہے اور دو رکعت نماز ادا کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی بخشش فرما دیتا ہے ، “ پھر آپ نے آیت تلاوت فرمائی۔ (آیت) ” والذین اذا فعلوا فاحشۃ اوظلموا انفسھم ذکروا اللہ فاستغفروا لذنوبھم “۔ الآیہ۔ اور دوسری یہ آیت۔۔۔ ومن یعمل سؤ او یظلم نفسہ “۔ اسے ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے : یہ حدیث حسن ہے (2) (جامع الترمذی، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 202، ایضا، جامع ترمذی، کتاب التفسیر من سورة آل عمران، حدیث 2932، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ عام ہے، تحقیق آیت کسی سبب خاص کے تحت نازل ہوتی ہے اور پھر وہ ان تمام کو شامل ہوتی ہے جو وہ کرے یا اس سے زیادہ فعل کرے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا سبب نزول یہ ہے کہ ایک ثقفی ایک غزوہ میں گیا اور اس نے اپنا ایک انصاری دوست اپنے گھر والوں کے پاس چھوڑا، تو اس نے اس میں خیانت کی کہ اس نے اسے دبوچ لیا اور وہ عورت اپنے لئے اسے دور ہٹاتی رہی لیکن اس نے اس کے ہاتھ کا بوسہ لے لیا، پھر وہ اس پر نادم ہوا تو وہ زمین میں چیختے چلاتے نکل گیا وہ اپنے فعل پر انتہائی نادم تھا اور توبہ کر رہا تھا، پس وہ ثقفی واپس آیا تو اس کی زوجہ نے اس کے ساتھی کے فعل کے بارے اسے بتایا تو وہ اس کی تلاش میں نکل پڑا، پس وہ انصاری حضرت ابوبکر صدیق، اور حضرت عمر فاروق رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے پاس اس امید سے آیا کہ وہ ان کے پاس کوئی وسعت اور گنجائش پالے گا لیکن انہیں نے اسے خوب جھڑکا اور ڈانٹ ڈپٹ کی، پھر وہ حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ کو اپنے فعل کے بارے میں عرض کی، تو یہ آیت نازل ہوئی (3) (اسباب النزول، صفحہ 82) حدیث کے مطابق عموم ہی اولی اور بہتر ہے۔ اور حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہم سے زیادہ مکرم تھے، اس حیثیت سے کہ ان میں سے گناہ کرنے والے کی سزا صبح کے وقت اس کے دروازے پر لکھی ہوئی تھی اور ایک روایت میں ہے کہ اس کے گناہ کا کفارہ اس کے گھر کی دہلیز پر لکھ دیا جاتا تھا ‘’ تو اپنی ناک توڑ دے، تو اپنا کان کاٹ لے تو اس طرح کر “۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی اور رحمت فرماتے ہوئے اور بنی اسرائیل کے اس فعل کے عوض یہ آیت نازل فرمائی۔ اور روایت کیا جاتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی، تو ابلیس روپڑا، اور الفاحشۃ کا اطلاق ہر معصیت (گناہ) پر کیا جاتا ہے، حالانکہ اکثر طور پر یہ زنا کے ساتھ خاص ہے یہاں تک کہ حضرت جابر بن عبداللہ اور سدی نے اس آیت میں اس کی تفسیر زنا کے ساتھ ہی کی ہے، اور قول باری تعالیٰ (آیت) ” او ظلموا انفسھم “۔ میں لفظ او کے بارے کہا گیا ہے کہ یہ واؤ کے معنی میں ہے اور مراد وہ (گناہ) ہیں جو کبائر میں شامل نہ ہوں۔ ذکروا اللہ “ اس کا معنی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی سزا کے خوف سے اور اس سے حیا کرتے ہوئے اس کا ذکر کرنے لگتے ہیں جو ضحاک (رح) نے کہا ہے : وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بڑی پیشی کا ذکر کرتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے دل میں یہ فکر کرنے لگتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے اس کے بارے پوچھے گا، اسے کلبی اور مقاتل نے بیان کیا ہے۔ اور مقاتل سے یہ بھی منقول ہے کہ وہ گناہ ہوجانے کے وقت زبان سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ (آیت) ” فاستغفروا لذنوبھم “۔ یعنی وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور ہر وہ دعا جس میں یہ معنی ہو یا اس کے الفاظ ہوں تو وہ استغفار کہلاتا ہے، اس سورة کی ابتداء میں سید الاستغفار کا ذکر ہوچکا ہے، اور یہ کہ اس کا وقت سحری کا ہے، پس استغفار عظیم ہے اور اس کا ثواب بہت بڑا ہے حتی کہ ترمذی نے حضور نبی کریم ﷺ سے حدیث ذکر کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” جس نے یہ کہا، استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم واتوب الیہ (1) تو اس کو بخش دیا جائے گا اگرچہ وہ میدان جہاد سے ہی بھاگا ہو۔ “ اور مکحول نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا :” میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ استغفار کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا “۔ اور حضرت مکحول نے کہا ہے : میں نے کہا ہے : میں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے زیادہ استغفار کرتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا، اور حضرت مکحول ؓ خود بھی کثیر الاستغفار تھے، ہمارے علماء نے کہا ہے : مطلوب استغفار وہ ہے وجو اصرار کی گرہ کو کھول دیتا ہے، اور اس کا معنی دل میں ثبت ہوجاتا ہے نہ کہ صرف زبان سے تلفظ کرنا ہے پس جس نے اپنی زبان سے کہا : استغفر اللہ، اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کی معصیت ونافرمانی پر مصر رہا تو اس کا یہ استغفار مزید استغفار کا محتاج ہوتا ہے اور اس کے صغیرہ گناہ کبائر کے ساتھ مل جاتے ہیں، اور حضرت حسن بصری (رح) سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : ہمارا استغفار مزید استغفار کا محتاج ہوتا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں کہ آپ یہ قول اپنے زمانے میں کہتے تھے تو ہمارے اس زمانے میں کیفیت کیا ہوگی جس میں انسان ظلم وستم پر منہ کے بل گرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے اور اس پر ایسا حریص ہے کہ اسے چھوڑ نہیں سکتا اور تسبیح اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے درآنحالیکہ یہ گمان کر رہا ہوتا ہے کہ وہ اپنے گناہ کی اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کر رہا ہے اور یہ اس کی طرف سے استہزا اور استخفاف (حقیر سجھنا) ہے اور قرآن کریم میں ہے (آیت) ” ولا تتخذوا ایات اللہ ھزوا “۔ ترجمہ : اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات کو تمسخر نہ بناؤ) یہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ومن یغفرالذنوب الا اللہ “۔ یعنی سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں ہے جو گناہوں کی مغفرت فرما دے اور ان کی سزا کو زائل کر دے۔ (آیت) ” ولم یصروا “۔ یعنی جو کچھ انہوں نے کہا اس پر وہ ثابت قدم نہیں ہوجاتے اور نہ اس کا پختہ عزم کرتے ہیں، اور حضرت مجاہد نے کہا ہے : یعنی وہ اس پر ہمیشگی اور دوام اختیار نہیں کرتے، اور معبد بن صبیح نے کہا ہے : میں نے حضرت عثمان ؓ کے پیچھے نماز پڑھی اور میری ایک جانب علی ؓ تھے، پس آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا میں نے بغیر وضو کے نماز پڑھی ہے پھر آپ گئے اور وضو کیا اور پھر نماز پڑھائی، (آیت) ” ولم یصروا علی ما فعلوا وھم یعلمون “۔ اصرار کا معنی ہے ھو العزم بالقلب علی الامر وترک الاقلاع عنہ، یعنی کسی کام پر دل سے پختہ عزم کرنا اور اس سے باز رہنے کو ترک کرنا، اور اسی سے صر الدنانیر ہے یعنی انہیں مضبوط باندھنا، حطیئہ نے گھوڑے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے : عوابس بالثعث الکماۃ اذا ابتغوا غلال تھا بالمحصدات اصرت : یعنی وہ اپنے دشمنوں کے خلاف ثابت قدم رہے۔ اور حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے : الاصرار الثبوت علی المعاصی، یعنی اصرار سے مراد گناہوں پر ثابت ہونا اور ڈٹ جانا ہے، شاعر نے کہا ہے : یصر باللیل ما تخفی شواکلہ یا ویح کل مصر القلب خثار : اس میں اصرار کا لفظ مذکورہ معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔ سہل بن عبداللہ نے کہا ہے : جاہل مردہ ہے، بھولنے والا سونے والا ہے، اور گناہ کرنے والا نشے میں ہے اور اصرار کرنے والا ہلاک ہونے والا ہے اور اصرار کا معنی بار بار کرنا ہے یعنی وہ یہ کہتا رہے کہ میں کل توبہ کروں گا ؟ اور یہ نفس کا دعوی ہے وہ آنے والے کل کیسے توبہ کرے گا جب کہ وہ اس کا مالک ہی نہ ہوگا۔ اور سہل کے سوا کسی اور نے کہا ہے : اصرار کا معنی ہے کہ وہ توبہ نہ کرنے کی نیت کرے اور جب وہ خالص توبہ کی نیت کرے گا تو اصرار سے نکل جائے گا، اور سہل کا قول احسن ہے، اور حضور نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : لاتوبۃ مع اصرار (یعنی (گناہ پر) اصرار کے ساتھ کوئی توبہ نہیں ہے) مسئلہ نمبر : (3) ہمارے علماء نے کہا ہے : توبہ پر ابھارنے والی اور اصرار کو حل کرنے والی (شے) کتاب اللہ العزیز الغفار میں دائمی غوروفکر کرنا ہے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس میں جنت اور اطاعت کرنے والوں کے ساتھ وعدوں کی تفصیل ذکر کی ہے اور جو کچھ اس میں عذاب جہنم اور گنہگاروں کو ڈرانے کا بیان کیا ہے اور وہ اس پر ہمیشہ غوروفکر کرتا رہے یہاں تک کہ اس کا خوف اور امید قوی ہوجائے اور وہ رغبت رکھتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے اور یہ رغبت اور رہبت ہی خوف اور رجاء کا ثمرہ اور نتیجہ ہے، وہ سزا سے خوفزدہ رہتا ہے اور ثواب کی امید رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی راہ صواب کی توفیق دینے والا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے : بلاشبہ اس پر ابھارنے والی وہ تنبیہ الہی ہے جس کے ساتھ وہ اسے متنبہ کرتا ہے جس کے لئے وہ سعادت کا ارادہ کرے اور گناہوں کے قبیح اور ضرر کا کیونکہ وہ تو ہلاک کرنے والا زہر ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ی اختلاف لفظ میں ہے نہ کہ معنی میں، کیونکہ انسان اللہ تعالیٰ کے وعدہ اور وعید میں اس کی تنبیہ کے بغیر غوروفکر نہیں کرتا پس جب بندہ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ اپنے آپ کی طرف دیکھتا ہے تو وہ اپنے نفس کو ان گناہوں سے بھرا ہوا پاتا ہے جو اس نے کمائے ہیں اور ان برائیوں سے جن کا اس نے ارتکاب کیا ہے اور پھر اس کوتاہی اور سستی پر اس میں ندامت اور شرمندگی کے جذبات ابھر آتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی سزا کے خوف سے سابقہ اعمال کی مثل اعمال کرنا چھوڑ دیتا ہے تو ایسے آدمی پر یہ صادق آتا ہے کہ وہ تائب (توبہ کرنے والا) ہے اور اگر اس طرح نہ ہو تو پھر وہ معصیت پر اصرار کرنے والا ہوگا اور ہلاکت کے اسباب کو لازم پکڑنے والا ہوگا۔ سہل بن عبداللہ نے کہا ہے : تائب کی علامت یہ ہے کہ گناہ اسے کھانے پینے سے مشغول رکھے جیسا کہ وہ تین صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جو غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ (1) (صحیح بخاری، باب حدیث کعب ابن مالک، حدیث نمبر 4066، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (4) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وھم یعلمون “ اس میں کئی اقوال ہیں پس کہا گیا ہے : یعنی وہ اپنے گناہوں کا ذکر کرتے ہیں اور ان سے توبہ کرتے ہیں، نحاس نے کہا ہے : یہ اچھا قول ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے : اور وہ جانتے ہیں کہ میں اصرار پر سزا دوں گا اور عبداللہ بن عبید بن عمیر نے کہا ہے : اور وہ جانتے ہیں کہ میں اصرار پر سزا دوں گا اور عبداللہ بن عبید بن عمیر نے کہا ہے : اور وہ جانتے ہیں کہ میں اصرار پر سزا دوں گا اور عبداللہ بن عبید بن عمیر نے کہا ہے اور وہ یہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمالے۔ اور یہ قول بھی ہے : یہ جانتے ہیں جو میں نے ان پر حرام کی ہیں یہ ابن اسحاق نے کہا ہے، اور حضرت ابن عباس ؓ ، حسن ؓ مقاتل ؓ اور کلبی رحمۃ اللہ علیہتمام نے کہا ہے : اور وہ یہ جانتے ہیں کہ اصرار تکلیف دہ ہے اور اسے چھوڑ دینا سرکشی کی نسبت بہتر ہے، اور حسن بن فضل نے کہا ہے : اور وہ جانتے ہیں کہ ان کا رب ہے جو گناہ کو بخش دیتا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : انہوں نے یہ معنی حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے لیا ہے وہ حضور نبی مکرم ﷺ اور آپ اپنے رب کریم سے اسے بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بندہ ایک گناہ کرتا ہے اور کہتا ہے اے اللہ ! میرا گناہ بخش دے تو اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے ایک گناہ کیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ کو معاف فرما دیتا ہے اور گناہ کے سبب وہ پکڑ لیتا ہے پھر وہ لوٹتا ہے اور گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، اور کہتا ہے : اے میرے پروردگار ! میرے لئے میرا گناہ بخش دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسی کی مثل دو بار ذکر کیا اور آخر میں فرمایا : اعمل ما شئت فقد غفرت لک “۔ تو جو چاہے عمل کر میں نے تجھے بخش دیا (1) (مسلم، کتاب التوبہ جلد 2، صفحہ 357، کراچی، ایضا صحیح بخاری، کتاب التوحید، حدیث نمبر 6952، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے مسلم نے نقل کیا ہے، اس میں اس پر دلیل موجود ہے کی دو بار گناہ کرکے توبہ کو توڑنے کے بعد دوبارہ توبہ کرنا صحیح ہے۔ کیونکہ پہلی توبہ طاعت ہے وہ گزر چکی ہے اور صحیح ہے اور دوسرا گناہ سرزد ہونے کی وجہ سے اب وہ دوسری نئی توبہ کا محتاج ہے اور گناہ کی طرف لوٹنا اگرچہ اس کی ابتدا سے زیادہ قبیح ہے، کیونکہ گناہ کی نسبت توڑنے کی طرف ہے، تو توبہ کی طرف لوٹنا اس کی ابتدا سے زیادہ اچھا ہے، کیونکہ اس کی طرف کریم اور سخی کے دروازے کو التجا کے اصرار کے ساتھ لازم پکڑنے کی نسبت ہے اور یہ کہ اس کے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہیں۔ اور حدیث کے آخر میں یہ قول ” اعمل ما شئت “ یہ امر ہے اور اس کا معنی ایک قول کے مطابق اکرام (عزت کرنا) ہے پس یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے باب سے ہوجائے گا۔ (آیت) ” ادخلوھا بسلم “۔ (ق : 34) ترجمہ ؛ داخل ہوجاؤ جنت میں سلامتی سے۔ کلام کا آخر مخاطب کی حالت کے بارے خبر ہے کہ اس کے سابقہ گناہوں سے اس کی مغفرت کردی گئی ہے اور وہ اپنے مستقبل کے کاموں میں انشاء اللہ محفوظ ہوگا۔ آیت اور حدیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ گناہ کے اعتراف اور اس سے استغفار کرنے کا عظیم فائدہ ہے، حضور ﷺ نے فرمایا : ان العبد اذا اعترف بذنبہ ثم تاب الی اللہ تاب اللہ علیہ (2) (صحیح بخاری، کتاب المغازی باب حدیث الافک، جلد 2، صفحہ 596، اسلام آباد صحیح بخاری، کتاب الشہادات، حدیث 2467، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (بندہ جب اپنے گناہ کا اعتراف کرلے پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔ ) اسے صحیحین نے روایت کیا ہے۔ اور کسی شاعر نے کہا ہے : یستوجب العفو الفتی اذا اعترف بما جنی من الذنوب واقترف : نوجوان عفو درگزر کو واجب کرلیتا ہے جب وہ ان گناہوں کا اعتراف کرے جن کا ارتکاب اس نے کیا۔ اور ایک دوسرے نے کہا ہے : اقرر بذنبک ثم اطلب تجاوزہ ان الجحود جحود الذنب ذنبان : اپنے گناہ کا اقرار کر پھر اس سے درگزر کرنے کا مطالبہ کر بلاشبہ گناہ کا انکار کرنا دو گناہ ہیں۔ اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو تو یقینا اللہ تعالیٰ تمہیں لے جائے (ختم کر دے) اور ایک ایسی قوم لے آئے جو گناہ کریں گے اور استغفار کریں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں بخش دے گا۔ (والذی نفسی بیدہ لولم تذنبوا الذھب اللہ بکم ولجاء بقوم یذنبون ویستغفرون فیغفرلھم) (1) (مسلم کتاب التوبہ، جلد 2، صفحہ 355، آرام باغ کراچی) اور اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی غفار اور تواب کا یہی فائدہ ہے، ہم نے اسے ” الکتاب الاسنی فی شرح اسماء اللہ الحسنی “ میں بیان کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) گناہ وہ ہیں جن سے توبہ کی جاسکتی ہے چاہے وہ کفر ہو یا اس کے سوا کوئی اور پس کافر کی توبہ اس کا ایمان لانا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ وہ اپنے سابقہ کفر پر نادم بھی ہو، صرف ایمان لانا نفس توبہ نہیں ہے اور اگر گناہ کفر کے علاوہ ہو تو پھر یا تو وہ اللہ تعالیٰ کا حق ہوگا یا وہ کسی بندے کا حق ہوگا، پس حقوق اللہ میں سے ہونے کی صورت میں توبہ کے لئے اسے چھوڑ دینا کافی ہوتا ہے، سوائے ان کے جن میں شریعت نے صرف ترک کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان میں سے بعض کی طرف قضا کی نسبت کی ہے جیسا کہ نماز اور روزہ وغیرہ۔ اور ان میں بعض وہ ہیں جن کی طرف کفارہ کی نسبت کی ہے جیسا کہ قسم توڑ دینا اور ظہار وغیرہ میں، اور رہے حقوق العباد تو انہیں ان کے مستحقین تک پہنچانا ضروری ہے اور اگر وہ نہ پائے جائیں تو ان کی طرف سے صدقہ کیا جائے گا۔ اور جو کوئی تنگدستی کے سبب اس کی وسعت نہ پائے جو اس کے ذمہ واجب الاداء ہے تو پھر معاف فرمانا اللہ تعالیٰ کا معمول ہے اور اس کا فضل وافر ہے، پس کتنے تبعات کا وہ ضامن بنا ہے اور اس نے سیئات کو حسنات سے بدل دیا ہے، عنقریب کا مزید بیان آئے گا۔ مسئلہ نمبر : (6) انسان پر یہ لازم نہیں ہے کہ جب اسے اپنا گناہ یاد نہ ہو اور وہ اسے نہ جانتا ہو کہ وہ اس معین گناہ کی طرف سے توبہ کرے، بلکہ اس پر یہ لازم ہے کہ جب اسے گناہ یاد آجائے تو وہ اس سے توبہ کرلے، اور بہت سے لوگوں نے اس میں تاویل کی ہے جو ہمارے شیخ ابو محمد عبدالمعطی الاسکندر رانی ؓ نے ذکر کیا ہے کہ امام محاسبی (رح) یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اجناس معاصی سے توبہ کرنا صحیح نہیں ہوتا اور ویہ کہ ان تمام پر نادم ہونا کافی نہیں ہوتا، بلکہ یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے جوارح کے ہر فعل سے اور اپنے دل کے ہر عقیدہ سے معین طور پر توبہ کرے، انہوں نے ان کے قول سے یہی گمان کیا ہے، حالانکہ یہ ان کی مراد نہیں ہے اور نہ ان کا کلام اس کا تقاضا کرتا ہے، بلکہ مکلف کا حکم یہ ہے کہ جب وہ اپنے افعال کا حکم پہچان لے اور معصیت کو غیر سے پہچان لے، تو اس کے لئے ان تمام سے توبہ کرنا صحیح ہے جنہیں اس نے پہچان لیا، کیونکہ اگر اس نے اپنی ماضی کے فعل کے گناہ ہونے کو کہ پہچانا تو اس کے لئے اس سے توبہ کرنا ممکن نہ ہوگا نہ انفرادا اور نہ تفصیلا، اس کی مثال وہ آدمی ہے جو سود کے دروازوں میں سے کسی دروازے کو لے لیتا ہے اور وہ یہ نہیں پہچانتا کہ یہ ربوا ہے، پھر جب اس نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنا : (آیت) ” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وذروا مابقی من الربوا ان کنتم مؤمنین، فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ “۔ (البقرہ :) ترجمہ : اے ایمان والو ! ڈرو اللہ سے اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود سے اگر تم (سچے دل سے) ایماندار ہو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اعلان جنگ سن لو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے) تو اس پر یہ تہدید انتہائی شدید ثابت ہوئی اور اس کا گمان تھا کہ وہ سود سے سالم اور محفوظ ہے، لیکن اب اسے سود کی حقیقت کا علم ہوا پھر وہ اپنے گزرے ہوئے دنوں کے بارے میں متفکر ہوا یا اور اس نے جان لیا کہ وہ سابقہ دنوں میں سود میں سے بہت سی چیزیں لیتا رہا ہے، تو اب اس پر صحیح ہے کہ وہ ان تمام پر نادم ہو، اس کے اوقات کی تعیین اس پر لازم نہیں، اور اسی طرح ان تمام گناہوں اور برائیوں کا حکم ہے جن میں وہ واقع ہوتا رہا ہے، مثلاغیبت، چغلخوری اور ان کے علاوہ وہ محرمات جن کے حرام ہونے کا اسے علم نہیں تھا، پس جب فقاہت حاصل کرلے، اور اس کے کلام میں سے جو گزر چکا ہے اسے تلاش کرلے تو وہ مجموعی طور پر اس سے توبہ کرلے، اور اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سے جس میں اسے کوتاہی ہوئی ہے اس پر اظہار ندامت کرے، اور جب اس نے حلال سمجھا اسے جو اس پر ظلم تھا تو اس نے مجموعی طور پر اسے حلال قرار دیا اور اس کا نفس اپنا حق چھوڑنے کے ساتھ خوش رہا تو یہ جائز ہے، کیونکہ یہ مجہول شے ہبہ کرنے کے باب سے ہے، یہ بندے کے بخل اور اپنے حق کی طلب پر اس کی حرص کے ساتھ ساتھ ہے، تو پھر اس اکرم الاکرمین کے بارے کیفیت کیا ہوگی، جو طاعات اور انکے اسباب عطا فرمانے والا ہے اور صغیرہ وکبیرہ گناہوں سے درگزر فرمانے والا ہے ؟ ہمارے شیخ (رح) نے کہا ہے : یہ امام کی مراد ہے اور یہی وہ معنی ہے جس پر ان کا کلام دلالت کرتا ہے اس کے لئے جس نے اس کی تلاش کی اور جو یہ گمان کرنے والے نے گمان کرلیا ہے کہ ندامت صحیح نہ ہوگی مگر ہر معین اور ہر معینہ حرکات و سکنات پر تو یہ تکلیف مالایطاق کے باب سے ہے، جو شرعا واقع نہیں ہے اگرچہ عقلا جائز ہے، اور اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ یہ پہچان رکھتا ہو کہ شراب پیتے وقت اس نے کتنے گھونٹ پیئے ہیں، اور زنا کرتے وقت اس نے کتنی بار حرکت کی ہے اور حرام کی طرف چلتے ہوئے اس نے کتنے قدم چلے ہیں اور یہ ایسی شے ہے جس کی کوئی بھی طاقت نہیں رکھتا اور رہی اس سے تفصیلا توبہ کرنے کا حکم آیا ہے۔ اس بارے میں توبہ کے احکام اور اس کی شرائط کا مزید بیان سورة النساء وغیرہا میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (7) قول باری تعالیٰ (آیت) ” ولم یصروا “ میں اس پر واضح ججت اور قطعی دلیل موجود ہے کہ یہ اس کے لئے ہے جو کچھ اس نے زبان سے کہا، اور لسان الامۃ القاضی ابوبکر بن طیب نے کہا ہے کہ انسان کا اس کے سبب بھی مواخذہ کیا جائے گا جس پر اس نے اپنے ضمیر کو ثابت اور پختہ کرلیا اور جس برائی کا اس نے اپنے دل سے عزم مصمم کرلیا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : قرآن کریم میں ہے۔ (آیت) ” ومن یرد فیہ بالحاد بظلم نذقہ من عذاب الیم “۔ (الحج) ترجمہ : اور جو ارادہ کرے اس میں زیادتی کا ناحق تو ہم اسے چکھائیں گے دردناک عذاب۔ اور مزید فرمایا : (آیت) ” فاصبحت کالصریم “۔ (القلم) ترجمہ : چناچہ (لہلہاتا) باغ کٹے ہوئے کھیت کی مانند ہوگیا۔ پس انہیں ان کے پختہ عزم کے سبب ان کے فعل سے پہلے ہی سزا دے دی گئی اور اس کا بیان آگے آئے گا۔ اور بخاری شریف میں ہے ” جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر آمنے سامنے آتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں ہوں گے۔ “ صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ اس قاتل کے بارے میں تو سمجھ آئی لیکن مقتول نے کیا کیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ بھی تو اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا حریص تھا۔ “ (1) (صحیح بخاری، کتاب الفتن، جلد 2، صفحہ 1049، اسلام آباد) پس آپ ﷺ نے وعید کو حرص کے ساتھ معلق کیا ہے اور یہ عزم اور پختہ ارادہ ہی ہے اور ہتھیار کے اظہار کو لغو کردیا ہے۔ اور اس سے زیادہ نص وہ ہے جسے ترمذی نے نقل کیا ہے ابو کبثہ انماری کی حدیث سے، اور اسے صحیح مرفوع قرار دیا ہے۔ ” بیشک دنیا چار قسم کے آدمیوں کے لئے ہے ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال اور علم عطا فرمایا اور وہ اس میں اپنے رب سے ڈرتا رہتا ہے اور اس میں صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کے حق کو جانتا ہے تو یہ افضل ترین مقام و مرتبہ پر ہوگا اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے علم عطا فرمایا اور اسے مال نہ دیا اور وہ (نیت کے اعتبار سے صادق اور سچا ہو) اور وہ یہ کہتا ہو اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں اس میں فلاں آدمی کے عمل کی طرح عمل کرتا اور اس نے اس کی نیت کی تو ان دونوں کا اجر برابر ہوگا اور تیسرا وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا اور اسے علم نہیں دیا اور وہ (اپنے مال میں بغیر علم کے تصرف کرتا ہے) اور اس میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا، اور نہ وہ اس کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس میں اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی حق جانتا ہے تو وہ اخبث اور رذیل درجہ میں ہوگا اور چوتھا وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے نہ مال عطا فرمایا اور نہ ہی علم اور وہ کہتا ہے اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں یقینا اس میں فلاں آدمی کے عمل کی طرح عمل کرتا اور وہی اس کی نیت ہو تو دونوں کا بوجھ برابر ہوگا۔ (1) (جامع الترمذی، کتاب الزہد، جلد 2 صفحہ 56، اسلام آباد، صفحہ 507، لاہور) اور یہ وہ ہے جس کی طرف قاضی گئے ہیں اور اسی پر عام سلف اور اہل علم فقہاء محدثین اور متکلمین ہیں، اور اس کے خلاف جس نے یہ گمان کیا ہے کہ جس شے کا انسان قصد کرتا ہے اگرچہ وہ اس پر ثابت اور پختہ ہوجائے تو صرف ارادہ کے سبب اس کا مواخذہ نہیں کیا جائے گا، اس کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی اور اس کے لئے حضور نبی مکرم ﷺ کے اس ارشاد میں کوئی حجت نہیں ہے : ” جس نے گناہ کا ارادہ کیا اور اس پر عمل نہ کیا تو اس کے بارے کچھ نہیں لکھا جائے گا اور اگر اس کے مطابق عمل کیا تو اس پر ایک گناہ لکھا جائے گا (2) (مسلم، باب الاسراء برسول اللہ ﷺ الی السموات وفرض الصلوات جلد 1، صفحہ 91، آرام باغ کراچی) کیونکہ فلم یعملھا کا معنی ہے : اور اس نے اس پر عمل کرنے کا ارادہ نہ کیا، اور اس کی دلیل وہ ہے جو ہم نے ذکر کی ہے، اور فان عملھا کا معنی ہے : اگر اس نے اسے ظاہر کیا یا اس کا ارادہ کیا، اور اس کی دلیل بھی وہی ہے جو ہم نے بیان کردی ہے۔ وباللہ توفیقنا۔
Top