Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 135
وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ١۪ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ١۪۫ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
وَالَّذِيْنَ
: اور وہ لوگ جو
اِذَا
: جب
فَعَلُوْا
: وہ کریں
فَاحِشَةً
: کوئی بےحیائی
اَوْ
: یا
ظَلَمُوْٓا
: ظلم کریں
اَنْفُسَھُمْ
: اپنے تئیں
ذَكَرُوا اللّٰهَ
: وہ اللہ کو یاد کریں
فَاسْتَغْفَرُوْا
: پھر بخشش مانگیں
لِذُنُوْبِھِمْ
: اپنے گناہوں کے لیے
وَ مَنْ
: اور کون
يَّغْفِرُ
: بخشتا ہے
الذُّنُوْبَ
: گناہ
اِلَّا اللّٰهُ
: اللہ کے سوا
وَلَمْ
: اور نہ
يُصِرُّوْا
: وہ اڑیں
عَلٰي
: پر
مَا فَعَلُوْا
: جو انہوں نے کیا
وَھُمْ
: اور وہ
يَعْلَمُوْنَ
: جانتے ہیں
اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے رہو اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور خدا کے سوا گناہ بخش بھی کون کرسکتا ہے ؟ اور جان بوجھ کر اپنے افعال پر اڑے نہیں رہتے
آیت نمبر
135
۔ اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” والذین اذا فعلوا فاحشۃ اوظلموا انفسھم “۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایک صنف کا ذکر کیا ہے اور یہ پہلی صنف (کے لوگوں) سے (درجہ میں) کم ہیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمت اور احسان کے ساتھ ان کے ساتھ ملا دیا ہے اور یہ توبہ کرنے والے لوگ ہیں، حضرت ابن عباس ؓ نے حضرت عطا کی روایت میں کہا ہے : یہ آیت نبھان التمار کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس کی کنیت ابو مقبل تھی، اس کے پاس ایک حسین و جمیل عورت آئی اس نے اسے کھجوریں فروخت کیں اور پھر اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور اس کا بوسہ اور پھر اپنے اس عمل پر نادم اور شرمندہ ہوا تو حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، پھر یہ آیت نازل ہوئی۔ (
1
) (اسباب النزول، صفحہ
81
) ابو داؤد طیالسی (رح) نے اپنی مسند میں حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت نقل کی ہے انہوں نے فرمایا : مجھے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بیان کیا ہے اور ابوبکر نے سچ کہا ہے : کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جو بندہ بھی کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے پھر وضو کرتا ہے اور دو رکعت نماز ادا کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی بخشش فرما دیتا ہے ، “ پھر آپ نے آیت تلاوت فرمائی۔ (آیت) ” والذین اذا فعلوا فاحشۃ اوظلموا انفسھم ذکروا اللہ فاستغفروا لذنوبھم “۔ الآیہ۔ اور دوسری یہ آیت۔۔۔ ومن یعمل سؤ او یظلم نفسہ “۔ اسے ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے : یہ حدیث حسن ہے (
2
) (جامع الترمذی، کتاب الصلوۃ، جلد
1
، صفحہ
202
، ایضا، جامع ترمذی، کتاب التفسیر من سورة آل عمران، حدیث
2932
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ عام ہے، تحقیق آیت کسی سبب خاص کے تحت نازل ہوتی ہے اور پھر وہ ان تمام کو شامل ہوتی ہے جو وہ کرے یا اس سے زیادہ فعل کرے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا سبب نزول یہ ہے کہ ایک ثقفی ایک غزوہ میں گیا اور اس نے اپنا ایک انصاری دوست اپنے گھر والوں کے پاس چھوڑا، تو اس نے اس میں خیانت کی کہ اس نے اسے دبوچ لیا اور وہ عورت اپنے لئے اسے دور ہٹاتی رہی لیکن اس نے اس کے ہاتھ کا بوسہ لے لیا، پھر وہ اس پر نادم ہوا تو وہ زمین میں چیختے چلاتے نکل گیا وہ اپنے فعل پر انتہائی نادم تھا اور توبہ کر رہا تھا، پس وہ ثقفی واپس آیا تو اس کی زوجہ نے اس کے ساتھی کے فعل کے بارے اسے بتایا تو وہ اس کی تلاش میں نکل پڑا، پس وہ انصاری حضرت ابوبکر صدیق، اور حضرت عمر فاروق رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے پاس اس امید سے آیا کہ وہ ان کے پاس کوئی وسعت اور گنجائش پالے گا لیکن انہیں نے اسے خوب جھڑکا اور ڈانٹ ڈپٹ کی، پھر وہ حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ کو اپنے فعل کے بارے میں عرض کی، تو یہ آیت نازل ہوئی (
3
) (اسباب النزول، صفحہ
82
) حدیث کے مطابق عموم ہی اولی اور بہتر ہے۔ اور حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہم سے زیادہ مکرم تھے، اس حیثیت سے کہ ان میں سے گناہ کرنے والے کی سزا صبح کے وقت اس کے دروازے پر لکھی ہوئی تھی اور ایک روایت میں ہے کہ اس کے گناہ کا کفارہ اس کے گھر کی دہلیز پر لکھ دیا جاتا تھا ‘’ تو اپنی ناک توڑ دے، تو اپنا کان کاٹ لے تو اس طرح کر “۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی اور رحمت فرماتے ہوئے اور بنی اسرائیل کے اس فعل کے عوض یہ آیت نازل فرمائی۔ اور روایت کیا جاتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی، تو ابلیس روپڑا، اور الفاحشۃ کا اطلاق ہر معصیت (گناہ) پر کیا جاتا ہے، حالانکہ اکثر طور پر یہ زنا کے ساتھ خاص ہے یہاں تک کہ حضرت جابر بن عبداللہ اور سدی نے اس آیت میں اس کی تفسیر زنا کے ساتھ ہی کی ہے، اور قول باری تعالیٰ (آیت) ” او ظلموا انفسھم “۔ میں لفظ او کے بارے کہا گیا ہے کہ یہ واؤ کے معنی میں ہے اور مراد وہ (گناہ) ہیں جو کبائر میں شامل نہ ہوں۔ ذکروا اللہ “ اس کا معنی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی سزا کے خوف سے اور اس سے حیا کرتے ہوئے اس کا ذکر کرنے لگتے ہیں جو ضحاک (رح) نے کہا ہے : وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بڑی پیشی کا ذکر کرتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے دل میں یہ فکر کرنے لگتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے اس کے بارے پوچھے گا، اسے کلبی اور مقاتل نے بیان کیا ہے۔ اور مقاتل سے یہ بھی منقول ہے کہ وہ گناہ ہوجانے کے وقت زبان سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ (آیت) ” فاستغفروا لذنوبھم “۔ یعنی وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور ہر وہ دعا جس میں یہ معنی ہو یا اس کے الفاظ ہوں تو وہ استغفار کہلاتا ہے، اس سورة کی ابتداء میں سید الاستغفار کا ذکر ہوچکا ہے، اور یہ کہ اس کا وقت سحری کا ہے، پس استغفار عظیم ہے اور اس کا ثواب بہت بڑا ہے حتی کہ ترمذی نے حضور نبی کریم ﷺ سے حدیث ذکر کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” جس نے یہ کہا، استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم واتوب الیہ (
1
) تو اس کو بخش دیا جائے گا اگرچہ وہ میدان جہاد سے ہی بھاگا ہو۔ “ اور مکحول نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا :” میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ استغفار کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا “۔ اور حضرت مکحول نے کہا ہے : میں نے کہا ہے : میں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے زیادہ استغفار کرتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا، اور حضرت مکحول ؓ خود بھی کثیر الاستغفار تھے، ہمارے علماء نے کہا ہے : مطلوب استغفار وہ ہے وجو اصرار کی گرہ کو کھول دیتا ہے، اور اس کا معنی دل میں ثبت ہوجاتا ہے نہ کہ صرف زبان سے تلفظ کرنا ہے پس جس نے اپنی زبان سے کہا : استغفر اللہ، اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کی معصیت ونافرمانی پر مصر رہا تو اس کا یہ استغفار مزید استغفار کا محتاج ہوتا ہے اور اس کے صغیرہ گناہ کبائر کے ساتھ مل جاتے ہیں، اور حضرت حسن بصری (رح) سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : ہمارا استغفار مزید استغفار کا محتاج ہوتا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں کہ آپ یہ قول اپنے زمانے میں کہتے تھے تو ہمارے اس زمانے میں کیفیت کیا ہوگی جس میں انسان ظلم وستم پر منہ کے بل گرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے اور اس پر ایسا حریص ہے کہ اسے چھوڑ نہیں سکتا اور تسبیح اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے درآنحالیکہ یہ گمان کر رہا ہوتا ہے کہ وہ اپنے گناہ کی اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کر رہا ہے اور یہ اس کی طرف سے استہزا اور استخفاف (حقیر سجھنا) ہے اور قرآن کریم میں ہے (آیت) ” ولا تتخذوا ایات اللہ ھزوا “۔ ترجمہ : اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات کو تمسخر نہ بناؤ) یہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
2
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ومن یغفرالذنوب الا اللہ “۔ یعنی سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں ہے جو گناہوں کی مغفرت فرما دے اور ان کی سزا کو زائل کر دے۔ (آیت) ” ولم یصروا “۔ یعنی جو کچھ انہوں نے کہا اس پر وہ ثابت قدم نہیں ہوجاتے اور نہ اس کا پختہ عزم کرتے ہیں، اور حضرت مجاہد نے کہا ہے : یعنی وہ اس پر ہمیشگی اور دوام اختیار نہیں کرتے، اور معبد بن صبیح نے کہا ہے : میں نے حضرت عثمان ؓ کے پیچھے نماز پڑھی اور میری ایک جانب علی ؓ تھے، پس آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا میں نے بغیر وضو کے نماز پڑھی ہے پھر آپ گئے اور وضو کیا اور پھر نماز پڑھائی، (آیت) ” ولم یصروا علی ما فعلوا وھم یعلمون “۔ اصرار کا معنی ہے ھو العزم بالقلب علی الامر وترک الاقلاع عنہ، یعنی کسی کام پر دل سے پختہ عزم کرنا اور اس سے باز رہنے کو ترک کرنا، اور اسی سے صر الدنانیر ہے یعنی انہیں مضبوط باندھنا، حطیئہ نے گھوڑے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے : عوابس بالثعث الکماۃ اذا ابتغوا غلال تھا بالمحصدات اصرت : یعنی وہ اپنے دشمنوں کے خلاف ثابت قدم رہے۔ اور حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے : الاصرار الثبوت علی المعاصی، یعنی اصرار سے مراد گناہوں پر ثابت ہونا اور ڈٹ جانا ہے، شاعر نے کہا ہے : یصر باللیل ما تخفی شواکلہ یا ویح کل مصر القلب خثار : اس میں اصرار کا لفظ مذکورہ معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔ سہل بن عبداللہ نے کہا ہے : جاہل مردہ ہے، بھولنے والا سونے والا ہے، اور گناہ کرنے والا نشے میں ہے اور اصرار کرنے والا ہلاک ہونے والا ہے اور اصرار کا معنی بار بار کرنا ہے یعنی وہ یہ کہتا رہے کہ میں کل توبہ کروں گا ؟ اور یہ نفس کا دعوی ہے وہ آنے والے کل کیسے توبہ کرے گا جب کہ وہ اس کا مالک ہی نہ ہوگا۔ اور سہل کے سوا کسی اور نے کہا ہے : اصرار کا معنی ہے کہ وہ توبہ نہ کرنے کی نیت کرے اور جب وہ خالص توبہ کی نیت کرے گا تو اصرار سے نکل جائے گا، اور سہل کا قول احسن ہے، اور حضور نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : لاتوبۃ مع اصرار (یعنی (گناہ پر) اصرار کے ساتھ کوئی توبہ نہیں ہے) مسئلہ نمبر : (
3
) ہمارے علماء نے کہا ہے : توبہ پر ابھارنے والی اور اصرار کو حل کرنے والی (شے) کتاب اللہ العزیز الغفار میں دائمی غوروفکر کرنا ہے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس میں جنت اور اطاعت کرنے والوں کے ساتھ وعدوں کی تفصیل ذکر کی ہے اور جو کچھ اس میں عذاب جہنم اور گنہگاروں کو ڈرانے کا بیان کیا ہے اور وہ اس پر ہمیشہ غوروفکر کرتا رہے یہاں تک کہ اس کا خوف اور امید قوی ہوجائے اور وہ رغبت رکھتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے اور یہ رغبت اور رہبت ہی خوف اور رجاء کا ثمرہ اور نتیجہ ہے، وہ سزا سے خوفزدہ رہتا ہے اور ثواب کی امید رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی راہ صواب کی توفیق دینے والا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے : بلاشبہ اس پر ابھارنے والی وہ تنبیہ الہی ہے جس کے ساتھ وہ اسے متنبہ کرتا ہے جس کے لئے وہ سعادت کا ارادہ کرے اور گناہوں کے قبیح اور ضرر کا کیونکہ وہ تو ہلاک کرنے والا زہر ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ی اختلاف لفظ میں ہے نہ کہ معنی میں، کیونکہ انسان اللہ تعالیٰ کے وعدہ اور وعید میں اس کی تنبیہ کے بغیر غوروفکر نہیں کرتا پس جب بندہ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ اپنے آپ کی طرف دیکھتا ہے تو وہ اپنے نفس کو ان گناہوں سے بھرا ہوا پاتا ہے جو اس نے کمائے ہیں اور ان برائیوں سے جن کا اس نے ارتکاب کیا ہے اور پھر اس کوتاہی اور سستی پر اس میں ندامت اور شرمندگی کے جذبات ابھر آتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی سزا کے خوف سے سابقہ اعمال کی مثل اعمال کرنا چھوڑ دیتا ہے تو ایسے آدمی پر یہ صادق آتا ہے کہ وہ تائب (توبہ کرنے والا) ہے اور اگر اس طرح نہ ہو تو پھر وہ معصیت پر اصرار کرنے والا ہوگا اور ہلاکت کے اسباب کو لازم پکڑنے والا ہوگا۔ سہل بن عبداللہ نے کہا ہے : تائب کی علامت یہ ہے کہ گناہ اسے کھانے پینے سے مشغول رکھے جیسا کہ وہ تین صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جو غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ (
1
) (صحیح بخاری، باب حدیث کعب ابن مالک، حدیث نمبر
4066
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (
4
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وھم یعلمون “ اس میں کئی اقوال ہیں پس کہا گیا ہے : یعنی وہ اپنے گناہوں کا ذکر کرتے ہیں اور ان سے توبہ کرتے ہیں، نحاس نے کہا ہے : یہ اچھا قول ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے : اور وہ جانتے ہیں کہ میں اصرار پر سزا دوں گا اور عبداللہ بن عبید بن عمیر نے کہا ہے : اور وہ جانتے ہیں کہ میں اصرار پر سزا دوں گا اور عبداللہ بن عبید بن عمیر نے کہا ہے : اور وہ جانتے ہیں کہ میں اصرار پر سزا دوں گا اور عبداللہ بن عبید بن عمیر نے کہا ہے اور وہ یہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمالے۔ اور یہ قول بھی ہے : یہ جانتے ہیں جو میں نے ان پر حرام کی ہیں یہ ابن اسحاق نے کہا ہے، اور حضرت ابن عباس ؓ ، حسن ؓ مقاتل ؓ اور کلبی رحمۃ اللہ علیہتمام نے کہا ہے : اور وہ یہ جانتے ہیں کہ اصرار تکلیف دہ ہے اور اسے چھوڑ دینا سرکشی کی نسبت بہتر ہے، اور حسن بن فضل نے کہا ہے : اور وہ جانتے ہیں کہ ان کا رب ہے جو گناہ کو بخش دیتا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : انہوں نے یہ معنی حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے لیا ہے وہ حضور نبی مکرم ﷺ اور آپ اپنے رب کریم سے اسے بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بندہ ایک گناہ کرتا ہے اور کہتا ہے اے اللہ ! میرا گناہ بخش دے تو اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے ایک گناہ کیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ کو معاف فرما دیتا ہے اور گناہ کے سبب وہ پکڑ لیتا ہے پھر وہ لوٹتا ہے اور گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، اور کہتا ہے : اے میرے پروردگار ! میرے لئے میرا گناہ بخش دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسی کی مثل دو بار ذکر کیا اور آخر میں فرمایا : اعمل ما شئت فقد غفرت لک “۔ تو جو چاہے عمل کر میں نے تجھے بخش دیا (
1
) (مسلم، کتاب التوبہ جلد
2
، صفحہ
357
، کراچی، ایضا صحیح بخاری، کتاب التوحید، حدیث نمبر
6952
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے مسلم نے نقل کیا ہے، اس میں اس پر دلیل موجود ہے کی دو بار گناہ کرکے توبہ کو توڑنے کے بعد دوبارہ توبہ کرنا صحیح ہے۔ کیونکہ پہلی توبہ طاعت ہے وہ گزر چکی ہے اور صحیح ہے اور دوسرا گناہ سرزد ہونے کی وجہ سے اب وہ دوسری نئی توبہ کا محتاج ہے اور گناہ کی طرف لوٹنا اگرچہ اس کی ابتدا سے زیادہ قبیح ہے، کیونکہ گناہ کی نسبت توڑنے کی طرف ہے، تو توبہ کی طرف لوٹنا اس کی ابتدا سے زیادہ اچھا ہے، کیونکہ اس کی طرف کریم اور سخی کے دروازے کو التجا کے اصرار کے ساتھ لازم پکڑنے کی نسبت ہے اور یہ کہ اس کے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہیں۔ اور حدیث کے آخر میں یہ قول ” اعمل ما شئت “ یہ امر ہے اور اس کا معنی ایک قول کے مطابق اکرام (عزت کرنا) ہے پس یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے باب سے ہوجائے گا۔ (آیت) ” ادخلوھا بسلم “۔ (ق :
34
) ترجمہ ؛ داخل ہوجاؤ جنت میں سلامتی سے۔ کلام کا آخر مخاطب کی حالت کے بارے خبر ہے کہ اس کے سابقہ گناہوں سے اس کی مغفرت کردی گئی ہے اور وہ اپنے مستقبل کے کاموں میں انشاء اللہ محفوظ ہوگا۔ آیت اور حدیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ گناہ کے اعتراف اور اس سے استغفار کرنے کا عظیم فائدہ ہے، حضور ﷺ نے فرمایا : ان العبد اذا اعترف بذنبہ ثم تاب الی اللہ تاب اللہ علیہ (
2
) (صحیح بخاری، کتاب المغازی باب حدیث الافک، جلد
2
، صفحہ
596
، اسلام آباد صحیح بخاری، کتاب الشہادات، حدیث
2467
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (بندہ جب اپنے گناہ کا اعتراف کرلے پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔ ) اسے صحیحین نے روایت کیا ہے۔ اور کسی شاعر نے کہا ہے : یستوجب العفو الفتی اذا اعترف بما جنی من الذنوب واقترف : نوجوان عفو درگزر کو واجب کرلیتا ہے جب وہ ان گناہوں کا اعتراف کرے جن کا ارتکاب اس نے کیا۔ اور ایک دوسرے نے کہا ہے : اقرر بذنبک ثم اطلب تجاوزہ ان الجحود جحود الذنب ذنبان : اپنے گناہ کا اقرار کر پھر اس سے درگزر کرنے کا مطالبہ کر بلاشبہ گناہ کا انکار کرنا دو گناہ ہیں۔ اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو تو یقینا اللہ تعالیٰ تمہیں لے جائے (ختم کر دے) اور ایک ایسی قوم لے آئے جو گناہ کریں گے اور استغفار کریں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں بخش دے گا۔ (والذی نفسی بیدہ لولم تذنبوا الذھب اللہ بکم ولجاء بقوم یذنبون ویستغفرون فیغفرلھم) (
1
) (مسلم کتاب التوبہ، جلد
2
، صفحہ
355
، آرام باغ کراچی) اور اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی غفار اور تواب کا یہی فائدہ ہے، ہم نے اسے ” الکتاب الاسنی فی شرح اسماء اللہ الحسنی “ میں بیان کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
5
) گناہ وہ ہیں جن سے توبہ کی جاسکتی ہے چاہے وہ کفر ہو یا اس کے سوا کوئی اور پس کافر کی توبہ اس کا ایمان لانا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ وہ اپنے سابقہ کفر پر نادم بھی ہو، صرف ایمان لانا نفس توبہ نہیں ہے اور اگر گناہ کفر کے علاوہ ہو تو پھر یا تو وہ اللہ تعالیٰ کا حق ہوگا یا وہ کسی بندے کا حق ہوگا، پس حقوق اللہ میں سے ہونے کی صورت میں توبہ کے لئے اسے چھوڑ دینا کافی ہوتا ہے، سوائے ان کے جن میں شریعت نے صرف ترک کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان میں سے بعض کی طرف قضا کی نسبت کی ہے جیسا کہ نماز اور روزہ وغیرہ۔ اور ان میں بعض وہ ہیں جن کی طرف کفارہ کی نسبت کی ہے جیسا کہ قسم توڑ دینا اور ظہار وغیرہ میں، اور رہے حقوق العباد تو انہیں ان کے مستحقین تک پہنچانا ضروری ہے اور اگر وہ نہ پائے جائیں تو ان کی طرف سے صدقہ کیا جائے گا۔ اور جو کوئی تنگدستی کے سبب اس کی وسعت نہ پائے جو اس کے ذمہ واجب الاداء ہے تو پھر معاف فرمانا اللہ تعالیٰ کا معمول ہے اور اس کا فضل وافر ہے، پس کتنے تبعات کا وہ ضامن بنا ہے اور اس نے سیئات کو حسنات سے بدل دیا ہے، عنقریب کا مزید بیان آئے گا۔ مسئلہ نمبر : (
6
) انسان پر یہ لازم نہیں ہے کہ جب اسے اپنا گناہ یاد نہ ہو اور وہ اسے نہ جانتا ہو کہ وہ اس معین گناہ کی طرف سے توبہ کرے، بلکہ اس پر یہ لازم ہے کہ جب اسے گناہ یاد آجائے تو وہ اس سے توبہ کرلے، اور بہت سے لوگوں نے اس میں تاویل کی ہے جو ہمارے شیخ ابو محمد عبدالمعطی الاسکندر رانی ؓ نے ذکر کیا ہے کہ امام محاسبی (رح) یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اجناس معاصی سے توبہ کرنا صحیح نہیں ہوتا اور ویہ کہ ان تمام پر نادم ہونا کافی نہیں ہوتا، بلکہ یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے جوارح کے ہر فعل سے اور اپنے دل کے ہر عقیدہ سے معین طور پر توبہ کرے، انہوں نے ان کے قول سے یہی گمان کیا ہے، حالانکہ یہ ان کی مراد نہیں ہے اور نہ ان کا کلام اس کا تقاضا کرتا ہے، بلکہ مکلف کا حکم یہ ہے کہ جب وہ اپنے افعال کا حکم پہچان لے اور معصیت کو غیر سے پہچان لے، تو اس کے لئے ان تمام سے توبہ کرنا صحیح ہے جنہیں اس نے پہچان لیا، کیونکہ اگر اس نے اپنی ماضی کے فعل کے گناہ ہونے کو کہ پہچانا تو اس کے لئے اس سے توبہ کرنا ممکن نہ ہوگا نہ انفرادا اور نہ تفصیلا، اس کی مثال وہ آدمی ہے جو سود کے دروازوں میں سے کسی دروازے کو لے لیتا ہے اور وہ یہ نہیں پہچانتا کہ یہ ربوا ہے، پھر جب اس نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنا : (آیت) ” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وذروا مابقی من الربوا ان کنتم مؤمنین، فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ “۔ (البقرہ :) ترجمہ : اے ایمان والو ! ڈرو اللہ سے اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود سے اگر تم (سچے دل سے) ایماندار ہو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اعلان جنگ سن لو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے) تو اس پر یہ تہدید انتہائی شدید ثابت ہوئی اور اس کا گمان تھا کہ وہ سود سے سالم اور محفوظ ہے، لیکن اب اسے سود کی حقیقت کا علم ہوا پھر وہ اپنے گزرے ہوئے دنوں کے بارے میں متفکر ہوا یا اور اس نے جان لیا کہ وہ سابقہ دنوں میں سود میں سے بہت سی چیزیں لیتا رہا ہے، تو اب اس پر صحیح ہے کہ وہ ان تمام پر نادم ہو، اس کے اوقات کی تعیین اس پر لازم نہیں، اور اسی طرح ان تمام گناہوں اور برائیوں کا حکم ہے جن میں وہ واقع ہوتا رہا ہے، مثلاغیبت، چغلخوری اور ان کے علاوہ وہ محرمات جن کے حرام ہونے کا اسے علم نہیں تھا، پس جب فقاہت حاصل کرلے، اور اس کے کلام میں سے جو گزر چکا ہے اسے تلاش کرلے تو وہ مجموعی طور پر اس سے توبہ کرلے، اور اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سے جس میں اسے کوتاہی ہوئی ہے اس پر اظہار ندامت کرے، اور جب اس نے حلال سمجھا اسے جو اس پر ظلم تھا تو اس نے مجموعی طور پر اسے حلال قرار دیا اور اس کا نفس اپنا حق چھوڑنے کے ساتھ خوش رہا تو یہ جائز ہے، کیونکہ یہ مجہول شے ہبہ کرنے کے باب سے ہے، یہ بندے کے بخل اور اپنے حق کی طلب پر اس کی حرص کے ساتھ ساتھ ہے، تو پھر اس اکرم الاکرمین کے بارے کیفیت کیا ہوگی، جو طاعات اور انکے اسباب عطا فرمانے والا ہے اور صغیرہ وکبیرہ گناہوں سے درگزر فرمانے والا ہے ؟ ہمارے شیخ (رح) نے کہا ہے : یہ امام کی مراد ہے اور یہی وہ معنی ہے جس پر ان کا کلام دلالت کرتا ہے اس کے لئے جس نے اس کی تلاش کی اور جو یہ گمان کرنے والے نے گمان کرلیا ہے کہ ندامت صحیح نہ ہوگی مگر ہر معین اور ہر معینہ حرکات و سکنات پر تو یہ تکلیف مالایطاق کے باب سے ہے، جو شرعا واقع نہیں ہے اگرچہ عقلا جائز ہے، اور اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ یہ پہچان رکھتا ہو کہ شراب پیتے وقت اس نے کتنے گھونٹ پیئے ہیں، اور زنا کرتے وقت اس نے کتنی بار حرکت کی ہے اور حرام کی طرف چلتے ہوئے اس نے کتنے قدم چلے ہیں اور یہ ایسی شے ہے جس کی کوئی بھی طاقت نہیں رکھتا اور رہی اس سے تفصیلا توبہ کرنے کا حکم آیا ہے۔ اس بارے میں توبہ کے احکام اور اس کی شرائط کا مزید بیان سورة النساء وغیرہا میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (
7
) قول باری تعالیٰ (آیت) ” ولم یصروا “ میں اس پر واضح ججت اور قطعی دلیل موجود ہے کہ یہ اس کے لئے ہے جو کچھ اس نے زبان سے کہا، اور لسان الامۃ القاضی ابوبکر بن طیب نے کہا ہے کہ انسان کا اس کے سبب بھی مواخذہ کیا جائے گا جس پر اس نے اپنے ضمیر کو ثابت اور پختہ کرلیا اور جس برائی کا اس نے اپنے دل سے عزم مصمم کرلیا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : قرآن کریم میں ہے۔ (آیت) ” ومن یرد فیہ بالحاد بظلم نذقہ من عذاب الیم “۔ (الحج) ترجمہ : اور جو ارادہ کرے اس میں زیادتی کا ناحق تو ہم اسے چکھائیں گے دردناک عذاب۔ اور مزید فرمایا : (آیت) ” فاصبحت کالصریم “۔ (القلم) ترجمہ : چناچہ (لہلہاتا) باغ کٹے ہوئے کھیت کی مانند ہوگیا۔ پس انہیں ان کے پختہ عزم کے سبب ان کے فعل سے پہلے ہی سزا دے دی گئی اور اس کا بیان آگے آئے گا۔ اور بخاری شریف میں ہے ” جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر آمنے سامنے آتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں ہوں گے۔ “ صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ اس قاتل کے بارے میں تو سمجھ آئی لیکن مقتول نے کیا کیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ بھی تو اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا حریص تھا۔ “ (
1
) (صحیح بخاری، کتاب الفتن، جلد
2
، صفحہ
1049
، اسلام آباد) پس آپ ﷺ نے وعید کو حرص کے ساتھ معلق کیا ہے اور یہ عزم اور پختہ ارادہ ہی ہے اور ہتھیار کے اظہار کو لغو کردیا ہے۔ اور اس سے زیادہ نص وہ ہے جسے ترمذی نے نقل کیا ہے ابو کبثہ انماری کی حدیث سے، اور اسے صحیح مرفوع قرار دیا ہے۔ ” بیشک دنیا چار قسم کے آدمیوں کے لئے ہے ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال اور علم عطا فرمایا اور وہ اس میں اپنے رب سے ڈرتا رہتا ہے اور اس میں صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کے حق کو جانتا ہے تو یہ افضل ترین مقام و مرتبہ پر ہوگا اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے علم عطا فرمایا اور اسے مال نہ دیا اور وہ (نیت کے اعتبار سے صادق اور سچا ہو) اور وہ یہ کہتا ہو اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں اس میں فلاں آدمی کے عمل کی طرح عمل کرتا اور اس نے اس کی نیت کی تو ان دونوں کا اجر برابر ہوگا اور تیسرا وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا اور اسے علم نہیں دیا اور وہ (اپنے مال میں بغیر علم کے تصرف کرتا ہے) اور اس میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا، اور نہ وہ اس کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس میں اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی حق جانتا ہے تو وہ اخبث اور رذیل درجہ میں ہوگا اور چوتھا وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے نہ مال عطا فرمایا اور نہ ہی علم اور وہ کہتا ہے اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں یقینا اس میں فلاں آدمی کے عمل کی طرح عمل کرتا اور وہی اس کی نیت ہو تو دونوں کا بوجھ برابر ہوگا۔ (
1
) (جامع الترمذی، کتاب الزہد، جلد
2
صفحہ
56
، اسلام آباد، صفحہ
507
، لاہور) اور یہ وہ ہے جس کی طرف قاضی گئے ہیں اور اسی پر عام سلف اور اہل علم فقہاء محدثین اور متکلمین ہیں، اور اس کے خلاف جس نے یہ گمان کیا ہے کہ جس شے کا انسان قصد کرتا ہے اگرچہ وہ اس پر ثابت اور پختہ ہوجائے تو صرف ارادہ کے سبب اس کا مواخذہ نہیں کیا جائے گا، اس کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی اور اس کے لئے حضور نبی مکرم ﷺ کے اس ارشاد میں کوئی حجت نہیں ہے : ” جس نے گناہ کا ارادہ کیا اور اس پر عمل نہ کیا تو اس کے بارے کچھ نہیں لکھا جائے گا اور اگر اس کے مطابق عمل کیا تو اس پر ایک گناہ لکھا جائے گا (
2
) (مسلم، باب الاسراء برسول اللہ ﷺ الی السموات وفرض الصلوات جلد
1
، صفحہ
91
، آرام باغ کراچی) کیونکہ فلم یعملھا کا معنی ہے : اور اس نے اس پر عمل کرنے کا ارادہ نہ کیا، اور اس کی دلیل وہ ہے جو ہم نے ذکر کی ہے، اور فان عملھا کا معنی ہے : اگر اس نے اسے ظاہر کیا یا اس کا ارادہ کیا، اور اس کی دلیل بھی وہی ہے جو ہم نے بیان کردی ہے۔ وباللہ توفیقنا۔
Top