Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 135
وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ١۪ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ١۪۫ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اِذَا : جب فَعَلُوْا : وہ کریں فَاحِشَةً : کوئی بےحیائی اَوْ : یا ظَلَمُوْٓا : ظلم کریں اَنْفُسَھُمْ : اپنے تئیں ذَكَرُوا اللّٰهَ : وہ اللہ کو یاد کریں فَاسْتَغْفَرُوْا : پھر بخشش مانگیں لِذُنُوْبِھِمْ : اپنے گناہوں کے لیے وَ مَنْ : اور کون يَّغْفِرُ : بخشتا ہے الذُّنُوْبَ : گناہ اِلَّا اللّٰهُ : اللہ کے سوا وَلَمْ : اور نہ يُصِرُّوْا : وہ اڑیں عَلٰي : پر مَا فَعَلُوْا : جو انہوں نے کیا وَھُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہیں
اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جب کوئی بیجا حرکت کربیٹھتے یا اپنے ہی حق میں کوئی ظلم کر ڈالتے ہیں تو اللہ کو یاد کرلیتے ہیں اور اپنے گناہوں سے معافی طلب کرنے لگتے ہیں،269 ۔ اور اللہ تعالیٰ کے سوا ہے کون جو گناہوں کو بخشتا ہو۔ اور یہ (لوگ) اپنے کیے ہوئے پر اصرار نہیں کرتے درآنحالیکہ وہ جان رہے ہوں،270 ۔
269 ۔ (قاعدہ شرعی کے مطابق) (آیت) ” فعلوافاحشۃ “۔ فاحشۃ کا اطلاق ہر گناہ کے لیے عام ہے، یہاں مراد وہ برائی ہے جو کسی دوسرے کے ساتھ کی جائے یعنی کسی حق عبد کی ادائی میں کوتاہی ہوجائے، الفاحشۃ مطلق علی کل معصیۃ (قرطبی) اصل الفحش مجاوزۃ الحد فی السوء (روح) الفاحشۃ الذنب الذی فیہ۔۔ (بحر) (آیت) ” اوظلموا انفسھم “۔ یعنی حقوق اللہ کا اتلاف اگر ان سے ہوجائے۔ ولعل الفاحشۃ مایتعدی وظلم النفس ما لیس کذلک (بیضاوی) ظلم النفس مابین العبد وبین ربہ (بحر) (آیت) ” ذکروا اللہ “۔ کا اشارہ اس طرف ہے کہ نافرمانیاں ان سے پورے قصد وتعمد کے بعد خباثت نفس کی بنا پر سرزد نہیں ہوا کرتیں، بلکہ احکام الہی کا ذہول ان کے ذہن سے وقتی طور پر ہوجاتا ہے۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ گاہ گاہ لغزشوں کا صادر ہوتے رہنا، قرب وتعلق مع اللہ کے منافی نہیں۔ اصل اور مقدم شے ہر غلطی اور کوتاہی کی تلافی اور تدارک کی فکر اور اس کی مناسب تدبیر ہے۔ (آیت) ” فاستغفروا “۔ استغفار صحیح ومعتبر وہی ہے جو محض زبان سے نہیں دل کی حسرت وندامت کے ساتھ اور اس عزم کے ساتھ ہو کہ اب وہ گناہ دوبارہ نہیں ہونے پائے گا ورنہ اگر ہاتھ میں تسبیح چل رہی ہے اور دل بدستور گناہوں سے لذت لے رہا ہے تو اکابر نے کہا ہے کہ یہ استغفار خود قابل استغفار ہے اور عجب نہیں کہ ایسے استغفار کا شمار استہزاء میں ہوجائے الاستغفار المطلوب ھو الذی یحل عقد الاصرار ویثبت معناہ فی الجنان لاالتلفظ باللسان (قرطبی) روی عن الحسن البصری انہ قال استغفار نا یحتاج الی استغفار (قرطبی) ھذا یقولہ فی زمانہ فکیف فی زماننا ھذا الذی یری فیہ الانسان قائما علی الظلم حریصا علیہ لا یقلع والسبحۃ فی یدہ زاعما انہ یستغفر اللہ من ذنبہ۔۔۔ واستخفاف (قرطبی) 270 ۔ (یعنی اپنی کسی غلطی پر جان بوجھ کر ہرگز جمے نہیں رہتے) (آیت) ” ومن یغفر الذنوب الا اللہ “۔ یہ تنبیہ ہے اس پر کہ گناہوں کی معافی صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، کسی نبی، ولی، فرشتہ وغیرہ کے ہاتھ میں نہیں، اور اس میں خصوصیت کے ساتھ رد ہے اس مسیحی عقیدہ کا کہ گناہوں کی معافی مسیح بلکہ ان کے نائبوں کے اختیار میں ہے۔ ملاحظہ ہوانجیل :۔ ” جس طرح باپ نے مجھے بھیجا ہے، میں تمہیں بھیجتا ہوں، اور یہ کہہ کر ان پر پھونکا اور ان سے کہا کہ روح القدس کو لو، جن کے گناہ تم بخشو، ان کے بخشے گئے ہیں اور جن کے گناہ تم بخشو، ان کے بخشے گئے ہیں، اور جن کے گناہ تم قائم رکھو، ان کے قائم رکھے گئے ہیں “۔ (یوحنا۔ 20:2 1 ۔ 24) (آیت) ” یعلمون “۔ ای یعلمون قبح فعلھم “۔ (روح) والمراد لم یصروا عالمین (روح)
Top