Tafseer-e-Saadi - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
لوگو ! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو
آیت 21، 22 یہ تمام لوگوں کے لئے امر عام ہے اور وہ اللہ کی عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت، اس کے نواہی سے اجتناب اور اس کی خبر کی تصدیق کی جامع ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اس چیز کا حکم دیا جس کے لئے ان کی تخلیق کی گئی ہے۔ فرمایا : (وما خلقت الجن والانس الالیعبدون) (الذاریات :56/51) ” میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا تاکہ وہ میری عبادت کریں۔ “ پھر صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے پر اس بات سے استدلال کیا ہے کہ وہ تمہارا رب ہے اس نے تمہیں بہت سی نعمتوں سے نواز کر تمہاری تربیت اور پرورش کی۔ وہ تمہیں عدم سے وجود میں لایا، اس نے ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے تھے، اس نے تمہیں ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کیں، اس نے زمین کو تمہارے لئے فرش بنایا جہاں تم اپنا ٹھکانا بناتے ہو، جہاں تم عمارات تعمیر کر کے، زراعت اور کاشتکاری کر کے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کر کے مختلف فوائد حاصلک رتے ہو، اس کے علاوہ تم زمین کے بعض دیگر فوائد سے استفادہ کرتے ہو۔ اس نے تمہارے اس مسکن کے لئے آسمان کو چھت بنایا۔ اس نے تمہایر ضروریات اور حاجات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس چھت میں بھی بہت سی نفع بخش چیزیں مثلاً سورج، چاند اور ستارے پیدا کئے۔ (وانزل من السمآء مآء) ” اور اتارا اس نے آسمان سے پانی۔ “ ہر وہ چیز جو آپ کے اوپر اور بلند ہے وہ آسمان کہلاتی ہے۔ بنا بریں علمائے تفسیر کہتے ہیں کہ یہاں آسمان سے مراد بادل ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے بادلوں سے پانی برسایا (فاخرج بہ من الثمرت) اور اس پانی کے ذریعے سے مختلف اقسام کے غلہ جات، مختلف انواع کے پھل اور میوہ جات، کھجوریں اور دیگر کھیتیاں اگائیں (رزقالکم) ” تمہارے رزق کے طور پر “ جس سے تم رزق اور خوراک حاصل کرتے ہو، اس رزق سے زندگی بسر کرنے کا سامان کرتے ہو اور اس سے تم لذت حاصل کرتے ہو۔ (فلا تجعلوا للہ اندادا) پس تم مخلوق میں سے اس کی برابری کرنے والے ہمسر بنا کر ان کی عبادت نہ کرو جیسے تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہو، اور ان سے ایسی محبت نہ کرو جیسے تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو، وہ بھی تمہاری مانند مخلوق ہیں ان کو بھی رزق دیا جاتا ہے اور ان کی زندگی کی بھی تدبیر کی جاتی ہے۔ وہ زمین و آسمان میں ایک ذرے کے بھی مالک نہیں۔ وہ تمہیں نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان (وانتم تعلمون) ” حالانکہ تم جانتے ہو “ کہ تخلیق کرنے، رزق عطا کرنے اور کائنات کی تدبیر کرنے میں اس کا کوئی شریک اور کوئی نظیر نہیں اور نہ الوہیت اور کمال میں اس کی کوئی برابری کرنے والا ہے۔ یہ سب کچھ جانتے وئے پھر تم کیسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی عبادت کرتے ہو۔ یہ بڑی عجیب بات اور سب سے بڑی حماقت ہے۔ یہ آیت کریمہ صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حکم اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور ہستی کی عبادت کرنے سے ممانعت کو جمع کرنے والی ہے، نیز اللہ تعالیٰ کی عبادت کے وجوب کی واضح دلیل اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت کے بطلان کے بیان پر مشتمل ہے۔ یہ توحید ربوبیت ہے جو اس امر کو متضمن ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی تخلیق کرتا، وہی رزق عطا کرتا اور وہی کائنات کی تدبیر کرتا ہے۔ جب ہر ایک شخص یہ اقرار کرتا ہے کہ ان تمام امور میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں تو اسے یہ اقرار بھی کرنا چاہیے کہ عبادت میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے اثبات اور شرک کے بطلان پر واضح ترین عقلی دلیل ہے۔ (لعلکم تتقون) ” تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ “ اس آیت کریمہ میں ایکم عنی کا احتمال یہ ہے کہ جب تم ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو گے تو اس کی ناراضی اور عذاب سے بچ جاؤ گے، کیونکہ تم نے ایک ایسا سبب اختیار کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو دور کرتا ہے۔ اس کے ایک دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ جب تم اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے بن جاؤ گے تو تم متقین میں شمار ہو گے جو تقویٰ کی صفت سے آرساتہ ہوتے ہیں۔ دونوں معنی صحیح ہیں اور دونوں میں تلازم پایا جاتا ہے، یعنی جو کوئی کامل طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اس کا شمار اہل تقویٰ میں ہوتا ہے اور جو کوئی متقی بن جاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے نجات حاصل ہوجاتی ہے۔
Top