Ruh-ul-Quran - Yunus : 20
وَ یَقُوْلُوْنَ لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ۚ فَقُلْ اِنَّمَا الْغَیْبُ لِلّٰهِ فَانْتَظِرُوْا١ۚ اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ۠   ۧ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں لَوْ : اگر کیوں لَآ اُنْزِلَ : نہ اتری عَلَيْهِ : اس پر اٰيَةٌ : کوئی نشانی مِّنْ رَّبِّهٖ : اس کے رب سے فَقُلْ : تو کہ دیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں الْغَيْبُ : غیب لِلّٰهِ : اللہ کیلئے فَانْتَظِرُوْا : سو تم انتظار کرو اِنِّىْ : میں مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ مِّنَ : سے الْمُنْتَظِرِيْنَ : انتظار کرنے والے
اور وہ کہتے ہیں کہ اس نبی پر اس کے رب کی جانب سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی تو آپ کہہ دیجیے کہ غیب کا علم تو بس اللہ ہی کو ہے۔ تو تم لوگ انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں۔
وَیَقُوْلُوْنَ لَوْلَآاُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ ج فَقُلْ اِنَّمَا الْغَیْبُ لِلّٰہِ فَانْتَظِرُوْا ج اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْن۔ (یونس : 20) (اور وہ کہتے ہیں کہ اس نبی پر اس کے رب کی جانب سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی تو آپ کہہ دیجیے کہ غیب کا علم تو بس اللہ ہی کو ہے۔ تو تم لوگ انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں۔ ) اللہ کے نبیوں کی تاریخ یہ ہے کہ انھیں جس عظیم منصب یعنی انسانوں کی ہدایت پر مامور کیا جاتا ہے وہ اس کی ادائیگی کے لیے ہمت سے بڑھ کر جان لڑاتے ہیں۔ زبان کی پوری قوت، ذہن کی تمام تر رعنائی اور قلب کا سارا سوز و گداز اس راستے میں جھونک دیتے ہیں۔ دن بھر لوگوں کو دعوت دیتے، مخالفت برداشت کرتے اور سمجھاتے گزرتا ہے اور رات کو مخالفین کی ہدایت کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ ان کی قوم ان پر مظالم توڑتی ہے لیکن وہ ان کے ساتھ انتہائی مربیانہ سلوک کرتے ہیں۔ وہ ہر ممکن طریقے سے ان کا جینا مشکل کردیتے ہیں لیکن یہ ان کی زندگی کی آسانیوں کے لیے صبح و شام انھیں دعوت دیتے ہیں۔ اپنی شخصیت کی ساری دلآویزیاں جب ان پر نچھاور کردینے کے بعد بھی ان کی طرف سے قبولیت کا امکان پیدا نہیں ہوتا تو پھر انھیں دنیا میں اللہ کے عذاب سے اور قیامت میں آخرت کے عذاب سے اس طرح ڈراتے ہیں کہ ان کے دل اس سے کا نپیں لیکن وہ اسے اپنی مخالفت نہ سمجھیں۔ کیونکہ انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ نصیحت کو نصیحت سمجھ کر بہت کم قبول کرتا ہے۔ اس پر وہ چیز اثراندازہوتی ہے جس میں ترغیب ہو یا ترہیب ہو۔ یعنی اسے اس کا یقین دلادیا جائے کہ تم اگر اس بات کو قبول کرلوتو تمہیں اس کے نتیجے میں یہ اور یہ کامرانیاں ملیں گی۔ اور اگر تم نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا تو اس کے نتیجے میں تمہیں یہ اور یہ نعمتیں ملیں گی اور ایسی اور ایسی ناکامیوں سے واسطہ پڑے گا۔ چناچہ اللہ کے نبی اپنی دعوت کو ہمیشہ ان دونوں باتوں سے موثر بناتے ہیں اور اللہ کی کتاب بھی ہمیشہ وعدہ اور وعید کو اہمیت دیتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی دعوت اسلامی کی قبولیت کے نتیجے میں اچھی اور آسودہ زندگی، دنیا کی حکمرانی اور آخرت کی سرخروئی کی نہ صرف نویدسنائی بلکہ وعدہ بھی فرمایا اور عدم قبولیت کی صورت میں دو عذابوں سے ڈرایا کہ اگر تمنے اللہ کے نبی کی دعوت کو اجتماعی طور پر مسترد کردیا اور نبی کو ہجرت پر مجبور کردیا تو پھر اندیشہ ہے کہ تم پر دنیا ہی میں اللہ کا ایسا عذاب ٹوٹے جس سے تمہاری جڑ کٹ جائے اور اگر مشیت الٰہی کی مصلحتوں سے دنیا میں اللہ کا عذاب نہ آئے تو آخرت میں ابدی سزا سے تمہیں کوئی نہیں بچا سکتا اور وہ سزا ایسی ہے جسے قرآن کریم نے عذاب ِ اکبر کے نام سے یاد فرمایا ہے۔ مشرکین مکہ اپنے نخوت اور تکبر کے باعث اس دھمکی اور وعید پر بہت برہم ہوتے اور بجائے اس سے مثبت اثر لینے کے آنحضرت ﷺ کا منہ چڑاتے اور بار بار عذاب کا مطالبہ کرتے اور بعض دفعہ تو ان کا یہ مطالبہ استہزاء کی شکل اختیار کرجاتا۔ اس آیت کریمہ میں ” آیت “ سے دنیا کا عذاب ہی مراد ہے اور مشرکین مکہ اس کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ آخر وہ عذاب کہاں رک گیا ہے۔ اگر اسے آنا ہوتا تو اب تک آچکا ہوتا۔ ہمارے رویئے میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہم نے تمہاری دعوت کا تمسخر اڑانے میں اور تمہاری ذات اور مسلمانوں کو اذیت پہنچانے میں تو کوئی کوتاہی نہیں کی تو پھر آخر تمہارا عذاب کیوں نہیں آرہا ؟ قرآن کریم نے ان کا مطالبہ نقل کرنے کے بعد اس کا نہایت مختصر جواب دیا ہے، لیکن اس کے الفاظ مختصر ضرور ہیں معنی اور مفہوم مختصر نہیں۔ مقصود کہنے کا یہ ہے کہ میں تمہاری طرف ہدایت لے کر آیا ہوں تم بجائے مجھ سے ہدایت مانگنے کے عذاب کا مطالبہ کررہے ہو۔ اللہ کے رسول، اللہ کی رحمت بن کر آتے ہیں، عذاب بن کر نہیں آتے۔ ان کی ساری کوشش تو قوم کو عذاب سے بچانے کے لیے ہوتی ہے۔ ہدایت کے لیے سعی و کاوش میں، میں نے کوئی کمی نہیں کی اور میں ہر ممکن طریقے سے تمہیں عذاب سے بچانے کی کوشش کررہا ہوں لیکن تمہاری طرف سے بار بار یہ مطالبہ ہورہا ہے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ عذاب کا سررشتہ میرے ہاتھ میں نہیں، وہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس نے مجھے تمہیں آگاہ کرنے کا حکم دیا۔ میں نے تمہیں اس سے آگاہ کردیا۔ اب رہی یہ بات کہ وہ عذاب کیوں نہیں آیا تو یہ سراسر ایسی بات ہے جس کا تعلق غیب سے ہے تو مجھے اللہ نے پیغمبر بنا کے بھیجا ہے، غیب دان بنا کر نہیں بھیجا۔ عالم غیب کی ہر وہ بات جتنی اللہ تعالیٰ مجھے بتاتا ہے اور جس کا تعلق ہدایت سے ہوتا ہے، میں اسے تم تک پہنچا دیتا ہوں، لیکن جس بات کو مجھ پر اتارا نہیں جاتا اسے میں نہیں جانتا۔ اتنی بات یقینی ہے کہ تم نے اگر پہلی قوموں جیسا رویہ اختیار کیا تو جس طرح پہلی قوموں پر عذاب آیا، تم پر بھی آئے گا، لیکن وہ کب آئے گا، اس کی شکل کیا ہوگی، میں اسے نہیں جانتا۔ کیونکہ غیب کا خزانہ اللہ کے پاس ہے۔ تمہیں اگر عذاب سے ڈرنے کی بجائے اس کے آنے کا انتظار ہے تو انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں۔ البتہ میرے انتظار اور تمہارے انتظار میں فرق ہے۔ میرا انتظار اس شخص کی مانند ہے جو ایک جاں بلب مریض کو دیکھتا ہے اور اس کی حالت کو دیکھتے ہوئے اسے اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ مریض کا آخری وقت دور نہیں۔ وہ اس کے آخری وقت کے انتظار میں رہتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ نہایت بےکلی اور بےچینی سے اس کی صحت کے لیے دعائیں بھی مانگتا ہے۔ لیکن تمہارا انتظار ایک تمسخر ہے لیکن تمہیں اندازہ نہیں کہ جتنی قومیں بھی عذاب کا شکار ہوئیں وہ اسے تمسخر ہی سمجھتی تھیں لیکن آخرکار اس عذاب نے انھیں تباہ و برباد کردیا اور وہ دنیا کی تاریخ میں عبرت بن کر رہ گئیں۔ اللہ نہ کرے تمہارا انجام بھی ان جیسا ہو۔
Top