بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اتَّقُوْا : ڈرو رَبَّكُمْ : اپنا رب اِنَّ : بیشک زَلْزَلَةَ : زلزلہ السَّاعَةِ : قیامت شَيْءٌ : چیز عَظِيْمٌ : بڑی بھاری
اے لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو ، یقین کرو کہ آنیوالی گھڑی کا زلزلہ بڑا ہی سخت واقع ہو گا
لوگو ! اللہ سے ڈرو کہ آنے والی گھڑی کا زلزلہ نہایت ہی سخت چیز ہے : 1۔ ” آنے والی گھڑی “ سے کیا مراد ہے ؟ وہی جس کو عربی زبان میں (ساعۃ) یا (قیامۃ) کہا گیا ہے وہ گھڑی جب اس دنیا کا پورا نظام درہم برہم کر کے رکھ دیا جائے گا ۔ (زلزلۃ) بھونچال یعنی جلا ڈالنے کو کہتے ہیں ۔ امام راغب کہتے ہیں کہ اس میں تکرار حروف تکرار معنی کے لئے کیا گیا ہے اور اس کا مطلب ہے بار بار ہلانا یا بار بار لرزانا اور جھڑجھڑانا ۔ اور ظاہر ہے کہ ہر زلزلہ میں یہ صورت ہوتی ہے خواہ وہ کتنی ہی خفیف ہو اور کتنی ہی کم ۔ یہی وہ زلزلہ ہے جس سے ہرچیز کی ہلاکت ہوجائے گی ۔ جاننا چاہئے کہ فرد ‘ جماعت اور عالم کے احوال میں ایک خاص مناسبت ہے ۔ جس طرح آدمی پیدا ہوتا ہے ‘ بڑھتا ہے ‘ بیمار ہوتا ہے ‘ تندرست ہوتا ہے ‘ گناہگار ہوتا ہے ‘ نیکوکار ہوتا ہے ‘ نیک نام ہوتا ہے ‘ بدنام ہوتا ہے اور خاص طبعی قوانین کی مطابقت سے وہ قوت حاصل کرتا ہے اور ان کی مخالفت سے وہ بیمار ہوتا ہے پھر ایک خاص عمر کو پہنچ کر رفتہ رفتہ اس کے قوائے عمل سرد پڑجاتے ہیں اور انجام کار وہ مر جاتا ہے بعینہ یہی تمام احوال جماعتوں اور قوموں کو بھی پیش آتے ہیں وہ بھی پیدا ہوتی ہیں ‘ تندرست ہوتی ہیں ‘ کمزور وبیمار ہوتی ہیں ‘ گنہگار ہوتی ہے ‘ نیکوکار ہوتی ہیں ‘ بدنام ہوتی ہیں ‘ نیک نام ہوتی ہے اور پھر ایک خاص وقت اور عمر کو پہنچ کر ان کے عملی قوی کمزور ومضحل ہوجاتے ہیں اور وہ فنا ہوجاتی ہیں ۔ دنیا میں اس اصول پر ہزاروں ‘ لاکھوں قومیں پیدا ہو کر فنا ہوچکی ہیں جن کے نام بھی تاریخ کے صفحوں پر آج موجود نہیں ۔ جس احوال پر افراد اور افراد کا مجموعہ جماعتیں اور جماعتوں کا مجموعہ قومیں پیدا ہوتی اور فنا ہوتی ہیں اس اصول پر اقوام عالم کا مجموعہ جو پیدا ہو کر بڑھتا اور ترقی کرتا چلا جا رہا ہے کیا وہ ایک دن فنائے محض کے آغوش میں جا کر نہ سوئے گا ؟ یقینا وہ سوئے گا اور یہی اس کی موت اور فنا ہوگی ۔ قرآن کریم نے قیامت کے ثبوت میں اکثر اقوام عالم کی تباہی کی مثال دے کر سمجھایا ہے اور اس استدلال سے قیامت کا لازم ہونا بیان کیا ہے ۔ جس طرح ایک فرد مختلف قوتوں سے بلکہ متضاد قوتوں سے پیدا کیا گیا ہے بالکل اسی طرح اس کائنات عالم کی ہرچیز کو متضاد عناصر ہی سے پیدا کیا گیا ہے اور جہاں نظر دوڑاؤ گے تضاد ہی تضاد نظر آئے گا ‘ دن ہے تو رات بھی ہے ‘ روشنی تاریکی ‘ سردی گرمی ‘ آگ پانی ‘ بہار خزاں ‘ تندرستی بیماری ‘ دولت و ثروت افلاس ‘ آسمان و زمین ‘ نیکی بدی ‘ خیر وشر اور حیات وموت غرض جس کو بھی دیکھو یہی معلوم ہوگا کہ یہ اربع عناصر کی چہار دیواری متضاد قوی اور حالات کی بنیادوں پر قائم ہے ان میں جب تک اعتدال قائم ہے اس دنیا کی کل چل رہی ہے جس دن ان کے اعتدال میں فرق آیا وہی اس کی فنا کا دن ہوگا ۔ فرد ‘ جماعت ‘ قوم کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اس سلسلہ کو جاری کرنے والے نے اس کو باقی رکھنا ہے اور جب اس نے اس کو جاری نہ رکھنا ہو تو جو ہوتا ہے اس کا نام موت ہے اور جس طرح وہ فرد ‘ جماعت ‘ قوم کے لئے تسلیم ہے بالکل اسی طرح وہ عالم کے لئے بھی تسلیم کرنا چاہئے ۔ رہی مدت عمر تو اس کے متعلق نہ کوئی فرد جانتا ہے ‘ نہ جماعت ‘ نہ قوم اور اسی طرح نہ عالم ہی اس کو جانتا ہے لیکن اس نظام عالم کو پیدا کرنے والا ؟ یقینا وہ اس وقت کو جانتا ہے اور اسی کی اطلاع کے مطابق اور اس کے عوارضات میں سے قیامت کا زلزلہ بھی ہے ۔ ایک بار پھر غور کرو کہ جس طرح افراد ‘ جماعتیں اور قوموں میں بیماری کے بعد تندرستی اور تندرستی کے بعد بیماری کی صلاحیت موجود ہے اسی طرح اس نظام کائنات میں بھی تندرستی کے بعد بیماری اور بیماری کے بعد تندرستی کی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں ۔ کتنی دفعہ یہ واقعہ پیش آیا ہے کہ دنیا ظلم وجور سے لبریز ہوگئی اور کشت وخون کے سیلاب نے اس کے امن امان کو غرق کردیا کہ دفعتا وہ پھر ابھری اور اس کا غرق شدہ امن وامان کشتی نوح (علیہ السلام) بن کر کرہ ارض کو بچالیا مختصر یہ کہ بارہا اس باغ ہستی میں خزاں آئی اور پھر بہار کا موسم اس پر چھا گیا ۔ اجرام سماوی کی باہمی مسابقت میں ہماری زمین کئی دفعہ ٹکرا جانے کے قریب پہنچی اور پھر بال بال بچ گئی ، یہ کرے اپنی رفتار میں بسا اوقات گرنے کے قری پہنچے اور پھر سنبھل گئے مگر فساد وصلاح کا یہ نظام اس وقت تک چل رہا ہے اور اسی وقت تک چلتا رہے گا جب تک ان متضاد وقوی اور کائنات کے استدلالات میں اعتدال قائم ہے جس روز اعتدال فنا ہوگا نظام ارض کا پورا کارخانہ بھی درہم برہم ہوجائے گا ۔ اس وقت زمین اپنی عمر کی پوری تاریخ اور کارناموں کے ساتھ اپنے خالق کے سامنے کھڑی ہوگی اور اپنے اوپر کی ہر کوتاہی و قصور کی شہادت اپنی زبان سے دے گی جس کی ابتدا اسی زلزلہ سے ہوگی جس کا ذکر زیر نظر آیت میں کیا گیا ہے اس لئے اس کو قرآن کریم کی زبان میں (شیء عظیم) کہا گیا ہے اور دوسری جگہ زمین کی شہادت اس طرح پیش کی گئی ہے کہ : ” جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا دی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہوگیا ہے ؟ اس روز وہ اپنے (اوپر گزرے ہوئے) حالات بیان کرے گی ۔ کیونکہ تیرے رب نے اس کو حکم دیا ہوگا ۔ اس روز لوگ متفرق حالت میں لوٹیں گے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں ‘ پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور اسی طرح جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا ۔ “ (الزلزال 99 : 1 تا 8)
Top