بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafheem-ul-Quran - Al-Hajj : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اتَّقُوْا : ڈرو رَبَّكُمْ : اپنا رب اِنَّ : بیشک زَلْزَلَةَ : زلزلہ السَّاعَةِ : قیامت شَيْءٌ : چیز عَظِيْمٌ : بڑی بھاری
لوگو، اپنے ربّ کے غضب سے بچو ، حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی(ہولناک)چیز ہے۔ 1
سورة الْحَجّ 1 یہ زلزلہ قیامت کی ابتدائی کیفیات میں سے ہے اور اغلب یہ ہے کہ اس کا وقت وہ ہوگا جبکہ زمین یکایک الٹی پھر نی شروع ہوجائے گی اور سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔ یہ بات قدیم مفسرین میں سے عَلْقَمہ اور شعبی نے بیان کی ہے کہ یکون ذٰلک عند طلوع الشمس من مغربھا۔ اور یہی بات اس طویل حدیث سے معلوم ہوتی ہے جو ابن جریر اور طبرانی اور ابن ابی حاتم وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے نقل کی ہے۔ اس میں نبی ﷺ نے بتایا ہے کہ نفخ صور کے تین مواقع ہیں۔ ایک نفخ فَزَع، دوسرا نفخ صَعْق اور تیسرا نفخ قیام لرب العالمین۔ یعنی پہلا نفخ عام سراسیمگی پیدا کرے گا، دوسرے نفخ پر سب مر کر گر جائیں گے اور تیسرے نفخ پر سب لوگ زندہ ہو کر خدا کے حضور پیش ہوجائیں گے۔ پھر پہلے نفح کی تفصیلی کیفیت بیان کرتے ہوئے آپ بتاتے ہیں کہ اس وقت زمین کی حالت اس کشتی کی سی ہوگی جو موجوں کے تھپیڑے کھا کر ڈگمگا رہی ہو، یا اس معلق قندیل کی سی جس کو ہوا کے جھونکے بری طرح جھنجھوڑ رہے ہوں۔ اس وقت زمین کی آبادی پر جو کچھ گزرے گی اس کا نقشہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کھینچا گیا ہے۔ مثلاً فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃً وَحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَۃً فَیَوْمَئِذٍ وَّ قَعَتِ الْوَاقِعَۃُ۔ (الحاقہ) " پس جب صور میں ایک پھونک ماردی جائے گی اور زمین اور پہاڑ اٹھا کر ایک ہی چوٹ میں توڑ دیے جائیں گے تو وہ واقعہ عظیم پیش آجائے گا "۔ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا۔ وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَھَا۔ وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَالَھَا۔ (الزلزال) " جب کہ زمین پوری کی پوری ہلا ماری جائے گی، اور وہ اپنے پیٹ کے بوجھ نکال پھینکے گی، اور انسان کہے گا یہ اس کو کیا ہو رہا ہے۔ " یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُ تَتْبَعُھَا الرَّادِفَۃ۔ قُلُوْ بٌ یُّوْمَئِذٍ وَّاجِفَۃٌ اَبْصَارُھَا خَاشِعَۃٌ۔ (النٰزعات 1) " جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا ایک جھٹکا اور اس کے بعد دوسرا جھٹکا، اس دن دل کانپ رہے ہوں گے اور نگاہیں خوف زدہ ہوں گی "۔ اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا وَّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا فَکَانَتْ ھَبَآءً مَّنْبَثًّا۔ (الواقعہ 1) " جس روز زمین جھنجھوڑ ڈالی جائے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر غبار کی طرح اڑنے لگیں گے "۔ فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَاِ السَّمَآءُ مُنْفَطِرٌ بِہ۔ (المزمل۔ 1) " اگر تم نے پیغمبر کی بات نہ مانی تو کیسے بچو گے اس دن کی آفت سے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور جس کی شدت سے آسمان پھٹا پڑتا ہوگا۔ اگرچہ بعض مفسرین نے اس زلزلے کا وقت وہ بتایا ہے جبکہ مردے زندہ ہو کر اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے اور اس کی تائید میں متعدد احادیث بھی نقل کی ہیں، لیکن قرآن کا صریح بیان ان روایات کو قبول کرنے میں مانع ہے قرآن اس کا وقت وہ بتارہا ہے جبکہ مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے پلاتے چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوں گی، اور پیٹ والیوں کے پیٹ گر جائیں کے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ آخرت کی زندگی میں نہ کوئی عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہوگی اور نہ کسی حاملہ کے وضع حمل یا اسقاط کا کوئی موقع ہوگا، کیونکہ قرآن کی واضح تصریحات کی رو سے وہاں سب رشتے منقطع ہوچکے ہوں گے اور ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت سے خدا کے سامنے حساب دینے کے لیے کھڑا ہوگا۔ لہٰذا قابل ترجیح وہی روایات ہے جو ہم نے پہلے نقل کی ہے۔ اگرچہ اس کی سند ضعیف ہے مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کردیتی ہے۔ اور یہ دوسری روایات گو سنداً قوی تر ہیں، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کردیتی ہے۔
Top