Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 115
وَ لِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ۗ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
وَلِلّٰہِ : اور اللہ کے لیے الْمَشْرِقُ : مشرق وَالْمَغْرِبُ : اور مغرب فَاَيْنَمَا : سو جس طرف تُوَلُّوْا : تم منہ کرو فَثَمَّ : تو اس طرف وَجْهُ اللہِ : اللہ کا سامنا اِنَّ اللہ : بیشک اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِیْمٌ : جاننے والا
اور مشرق ہو یا مغرب دونوں اللہ ہی کے ہیں تو جدھر بھی رخ کرو اسی طرح اللہ ہے، اللہ بڑی گنجائش رکھنے والا اور علم والا ہے
تفسیر آیت 115: وجہ نزاع کی طرف اشارہ : یہ اس وجہ نزاع و اختلاف کی طرف اشارہ ہے جو یہود و نصاریٰ کے درمیان معابد و مساجد کی توہین کا سبب ہوئی۔ یہود و نصاری دونوں کا قبلہ بیت المقدس تھا لیکن نصاریٰ نے خاص طور پر اس کی شمرقی سمت کو اپنے قبلہ کے لیے انتخاب کیا۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہوئی ہو کہ وہ حصہ جس میں حضرت مریم نے اعتکاف فرمایا تھا اسی سمت میں تھا۔ بیت المقدس کے اس عہد کے نقشہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا وہ حصہ جو خواتین کی عبادت کے لیے مخصوص تھا، اسی جانب تھا اور قرآن سے بھی کچھ ایسا ہی اشارہ نکلتا ہے۔ سورة مریم میں فرمایا ہے ”وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا“۔ ”اور کتاب میں مریم کی سرگزشت کو یاد کرو، جب کہ وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر مشرقی جانب میں معتکف ہو بیٹھی“ (مریم :16)۔ اس ضد میں یہود نے اس کی مغربی سمت کو اختیار کیا ہوگا اور پھر اندرون بیت المقدس کی یہ تقسیم اس سے باہر بھی۔ اور اس کے نتیجہ میں دونوں فریق نے ایک دوسرے کے معابد کی پوری بےدردی کے ساتھ بےحرمتی کی۔ قرآن مجید نے یہاں اس سبب اختلاف و نزاع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کی لغویت کی طرف بھی اشارہ کردیا کہ مشرق ہو یا مغرب، دونوں سمتیں اللہ ہی کی ہیں۔ ان میں سے جس سمت کو بھی انسان رخ کرے اگر وہ خدا کی طرف متوجہ ہے تو اس کا رخ خدا ہی کی طرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اس چیز کو یہود و نصاریٰ نے سر پھٹول اور ہدم معابد و مساجد کا سبب بنایا تو یہ ان کی جہالت و حماقت ہے۔ سمتوں اور جہتوں میں سے کسی سمت و جہت کو بھی خدا کے ساتھ اختصاص نہیں ہے۔ وہ بیت المقدس کو قبلہ قرار دے کر جدھر بھی رخ کرتے، خدا ہی کی طرف رخ کرتے۔ خدا کی قدرت اور اس کے علم کی وسعت ہر چیز کو محیط ہے۔ ہر جا کنیم سجدہ بداں آستاں رسد۔ یہ بحث مزید تفصیل کے ساتھ آگے تحویل قبلہ کی آیات کے تحت آرہی ہے۔
Top