Tadabbur-e-Quran - Al-Hajj : 47
وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَ لَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗ١ؕ وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ : اور وہ تم سے جلدی مانگتے ہیں بِالْعَذَابِ : عذاب وَلَنْ : اور ہرگز نہیں يُّخْلِفَ : خلاف کرے گا اللّٰهُ : اللہ وَعْدَهٗ : اپنا وعدہ وَاِنَّ : اور بیشک يَوْمًا : ایک دن عِنْدَ رَبِّكَ : تمہارے رب کے ہاں كَاَلْفِ سَنَةٍ : ہزار سال کے مانند مِّمَّا : اس سے جو تَعُدُّوْنَ : تم گنتے ہو
اور یہ لوگ تم سے عذاب کے لئے جلدی مچائے ہوئے ہیں حالانکہ اللہ اپنے وعدے کی ہرگز خلاف ورزی کرنے والا نہیں ہے اور تمہارے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے اعتبار سے ایک ہزار سال کی طرح کا ہوتا ہے
انسان کا ایک مغالطہ یعنی تم کو جھٹلانے والے جلدی مچائے ہوئے ہیں کہ جس عذاب کی تم ان کو وعید سنا رہے ہو یہ آکیوں نہیں جاتا ؟ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ آئے گا تو ضرور، خدا اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گ۔ لیکن انسان ہر چیز کو اپنے محدود پیمانوں سے ناپتا ہے اس وجہ سے اس کو چند سالوں کی مدت یا مہلت بہت طویل معلوم ہوتی ہے۔ وہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ یہ جو کچھ اس سے کہا جا رہا ہے یہ سب ہوائی باتیں ہیں حالانکہ یہ ہوائی باتیں نہیں ہیں بلکہ حقائق ہیں لیکن خدا کے ہاں کے دجن اس دنیا کے دنوں سے بالکل مختلف ہیں۔ خدا کے ہاں کا ایک دن اس دناں کے دنوں کے حساب سے ایک ہزار سال کے مانند ہوتا ہے اس وجہ سے اس کے سیکنڈ اور منٹ بھی اس دنیا کے برسوں کی مدت سے متجاوز ہوتے ہیں۔ انسان ہر چیز کا شمار اپنے چوبیس گھنٹوں کے دن کے حساب سے کرتا ہے اور خدا کے پروگرام اس کی اپنی تقویم کے اعتبار سے بنتے ہیں۔ خدائی دنوں کے پیمانے مطلب یہ ہے کہ خدا اور اس کی ملکوت کے معاملات کو اپنے اوزان اور پیمانوں سے ناپنے اور تولنے کی کوشش نہ کرو۔ تمہارے ہاں جب صدیاں گزر جاتی ہیں تو خدا کے ہاں وہ منٹوں اور گھنٹوں کی بات ہوتی ہے۔ خدائی دنوں کا یہ حساب جو یہاں مذکور ہوا ہے یہ بھی صرف تقریب فہم کے لئے ایک تمثیل ہے اور کالف سنۃ کے الفاظ خود اس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ اصل حقیقت ان دنوں کی کیا ہے ؟ اسی کو صرف خدا ہی جانتا ہے۔ یہ تمثیلی جس طرح قرآن میں وارد ہوئی ہے اسی طرح زبور اور انجیل میں بھی ہے۔ 2۔ پطرس : ب کے الفاظ ملاحظہ ہوں۔ ”یہ خاص بات تم پر پوشیدہ نہ رہے کہ خداوند کے نزدیک ایک دن ہزار برس کے برابر ہے اور ہزار رس ایک دن کے برابر۔“ آسمان و زمنی کے چھ دنوں میں پیدا کئے جانے کا ذکر جس طرح قرآن میں ہے اسی طرح تورات میں بھی ہے اور ان چھ دنوں میں تقسیم کار کی جو صورت اللہ تعالیٰ نے اختیار فرمائی ہے اس کی تفصیل حم السجدہ میں بیان ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان سے ہمارے اور آپ کے دن مراد نہیں ہیں بلکہ یہ خدائی ایام ہیں جن کے طول و عرض کو صرف خدا ہی جانتا ہے۔ ہمارے لئے یہ اجمالی علم کافی ہے کہ خدا نے الگ الگ عالم بنائے ہیں اور ہر عالم کا مدارو نظام الگ الگ ہے۔ ایک کے معاملات کو دور سے پر قیاس کرنا بالکل غلط ہے۔ ہمیں اپنے گز سے آسمان و زمین کے طول و عرض کرن اپنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے قرآن سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ملکوت الٰہی کے نظام میں بعض امور کے لئے اس سے بھی بڑے دن مقرر ہیں۔ مثلاً جبریل امین اور ملاکئہ کی دربار الٰہی میں خاض حضوری کے لئے جو دن ہے وہ پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔ سورة معارج میں ہے۔ تعرج الملٓکۃ و الروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمین الف سنۃ (معارج : 4) فرشتے اور جبریل اس کی طرف ایک ایسے دن میں صعود رتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔ جن لوگوں نے آیت زیر بحث میں یوم سے یوم قیامت مراد لیا ہے اور اس کے اس طول کو اس کی شدت عذاب سے استعارہ قرار دیا ہے ہمارے نزدیک ان کی تاویل سیاق کلام کے بھی خلاف ہے در نظائر قرآن کے بھی خاص طور پر اس قول کی نسبت حضرت ابن عباس اور مجاہد جیسے اکابر تفسیر کی طرف و بالکل ہی خلاف حقیت ہے۔ لیکن اس وضاحت کے بعد جو ہم نے اوپر کی ہے، اب اس کی تردید کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
Top