Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hajj : 47
وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَ لَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗ١ؕ وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ : اور وہ تم سے جلدی مانگتے ہیں بِالْعَذَابِ : عذاب وَلَنْ : اور ہرگز نہیں يُّخْلِفَ : خلاف کرے گا اللّٰهُ : اللہ وَعْدَهٗ : اپنا وعدہ وَاِنَّ : اور بیشک يَوْمًا : ایک دن عِنْدَ رَبِّكَ : تمہارے رب کے ہاں كَاَلْفِ سَنَةٍ : ہزار سال کے مانند مِّمَّا : اس سے جو تَعُدُّوْنَ : تم گنتے ہو
” یہ لوگ عذاب کے لئے جلدی مچا رہے ہیں۔ اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا ، مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر وہا کرتا ہے
ویستعجلونک …مما تعدون (47) ہر زمانے میں ظالموں کا یہی انداز ہوتا ہے۔ وہ زمانہ ماضی کے ظالموں کے کھنڈرات اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ان کی تاریخ پڑھتے ہیں اور ان کے انجام ان کے سامنے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وہ اسی راہ پر چلتے ہیں ، جس کا انجام وہ دیکھتے ہیں۔ جب ان کو اس طرف متوجہ کیا جائے کہ دیکھو تمہارے آبائو اجداد اس انجام سے دوچار ہوئے تھے ، یہی تمہارا بھی ہو سکتا ہے تو یہ لوگ اسے مسجد سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ نے جو انہیں مہلت کی ایک گھڑی دے رکھی ہے تو یہ کبرو غرور میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور سرکشی کی آخری حد پر پہنچ جاتے ہیں۔ جس بات سے انہیں ڈرایا جاتا ہے اس کے ساتھ مذاق کرتے ہیں اور مذاق میں بھی اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ مطالبہ کرتے ہیں کہ لائو وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔ ولن یخلف اللہ وعدہ (22 : 83) ” اللہ ہرگز وعدے کے خلاف نہ کرے گا۔ “ عذاب ضرور اپنے وقت پر آئے گا ، اس کی حکمت اور اس کی تقدیر اور منصوبے کے مطابق۔ لوگوں کی طرف سے تاوانی کا مظاہرہ ہو رہا ہے لیکن اللہ اسے اپنے وقت پر لائے گا۔ لوگوں کا وقت کا حساب اور ہے اور اللہ کا اور ہے۔ و ان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون (22 : 83) ” مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے زہار برس کے برابر ہوا کرتا ہے۔ “ یہ کھنڈرات اور ان میں ہلاک شدہ اقوام کو بھی اللہ نے مہلت دی تھی لیکن ان کے لئے بھی یہ مہلت مفید نہ رہی کیونکہ اللہ کی سنت کے مطابق ان کی بربادی کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ تعجب ہے کہ مشرکین مکہ عذاب طلب کرتے ہیں اور اللہ کے ڈراوے کے ساتھ مذاق کرتے ہیں ، محض اس لئے کہ ان کو اللہ نے مہلت دے دی ہے۔
Top