Tafseer-e-Majidi - Al-Hajj : 47
وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَ لَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗ١ؕ وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ : اور وہ تم سے جلدی مانگتے ہیں بِالْعَذَابِ : عذاب وَلَنْ : اور ہرگز نہیں يُّخْلِفَ : خلاف کرے گا اللّٰهُ : اللہ وَعْدَهٗ : اپنا وعدہ وَاِنَّ : اور بیشک يَوْمًا : ایک دن عِنْدَ رَبِّكَ : تمہارے رب کے ہاں كَاَلْفِ سَنَةٍ : ہزار سال کے مانند مِّمَّا : اس سے جو تَعُدُّوْنَ : تم گنتے ہو
اور آپ سے یہ لوگ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں درآنحالیکہ اللہ کبھی اپنے وعدہ کے خلاف نہ کرے گا اور آپ کے پروردگار کے پاس کا ایک دن مثل ایک ہزار سال کے ہے تم لوگوں کے شمار کے مطابق،84۔
84۔ (بہ لحاظ امتداد وبہ لحاظ اشتداد) مرادیہاں روز قیامت ہے۔ مقدار الحساب یوم القیمۃ الف سنۃ (ابن جریر، عن ابن عباس) اے من الایام الاخرۃ (ابن جریر، عن مجاہد) ھذہ ایام الاخرۃ (ابن جریر۔ عن مجاہد) عالم ناسوت کے ہزار سال کا عند اللہ ایک دن کے برابر ہونے کا محاورہ قدیم صحیفوں میں بھی آیا ہے :۔ ” ہزار برس تیرے آگے ایسے ہیں جیسے کل کا دن جو گزر گیا “۔ (زبور۔ 190: 4) اور انجیل میں ہے :۔ اے عزیزو، یہ خاص بات تم پر پوشیدہ نہ رہے کہ خداوند کے نزدیک ایک دن ہزار برس کے برابر ہے، اور ہزار برس ایک دن کے برابر “۔ (2 پطرس۔ 3: 8) (آیت) ” مما تعدون “۔ یعنی تم اہل ناسوت کے حساب کے مطابق۔ مطلب یہ ہوا کہ کسی کی جلدی کرنے یا تقاضا کرنے سے کیا ہوتا ہے۔ عذاب موعود تو اپنے وقت پر آکر رہے ہی گا، اللہ کے احکام میں کسی تغیر وتبدل کا امکان کچھ تھوڑے ہی ہے۔
Top