Dure-Mansoor - Al-Hajj : 47
وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَ لَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗ١ؕ وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ : اور وہ تم سے جلدی مانگتے ہیں بِالْعَذَابِ : عذاب وَلَنْ : اور ہرگز نہیں يُّخْلِفَ : خلاف کرے گا اللّٰهُ : اللہ وَعْدَهٗ : اپنا وعدہ وَاِنَّ : اور بیشک يَوْمًا : ایک دن عِنْدَ رَبِّكَ : تمہارے رب کے ہاں كَاَلْفِ سَنَةٍ : ہزار سال کے مانند مِّمَّا : اس سے جو تَعُدُّوْنَ : تم گنتے ہو
اور وہ آپ سے جلد عذاب لانے کا تقاضا کرتے ہیں اور اللہ ہرگز اپنے وعدہ کے خلاف نہ فرائے گا اور بلاشبہ آپ کے رب کے نزدیک ایک ایسا دن ہے جو تم لوگوں کے شمار کے مطابق ایک سال کے برابر ہوگا
1۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے آیت ویستعجلونک بالعذاب کے بارے میں روایت کیا کہ اس وقت کے جاہل لوگوں میں سے کچھ لوگوں نے عذاب کا مطالبہ کیا اور کہا۔ آیت اللہم ان کان ہذا ہوالحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السماء اوائتنا بعذاب الیم۔ یعنی اے اللہ اگر یہ دین حق ہے تیری طرف سے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا دے یا ہمارے پاس دردناک عذاب لے آ۔ 2۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے آیت وان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تدون۔ کے بارے میں روایت کیا یعنی ان چھ دنوں میں سے کہ جن میں اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا۔ 3۔ ابن المنذر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت وان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون سے مراد قیامت کا دن ہے۔ 4۔ ابن المنذر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ یہ دن مومن پر صرف صبح اور عصر کی نماز کے درمیانی وقت کے برابر لمبا ہوگا۔ 5۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ دنیا ایک جمعہ ہے آخرت کے جمعوں میں سے یعنی سات ہزار سال اور اس میں سے چھ ہزار سال گزر چکے۔ 6۔ ابن ابی الدنیا نے الامل میں سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ بلاشبہ دنیا ایک جمعہ ہے آخرت کے جمعوں میں سے۔ 7۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے محمد بن سیرین (رح) سے روایت کیا اور انہوں نے اہل کتاب میں سے ایک آدمی سے روایت کیا جو مسلمان ہوچکا تھا اس نے کہا اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا۔ اور فرمایا۔ آیت وان یوم عند ربک کالف سنۃ مما تعدون۔ یعنی تیرے رب کے نزدیک ایک دن ایک ہزار سال کی طرح ان سالوں میں سے جن کو تم گنتے ہو۔ اور دنیا کی مدت تو چھ دن ہے۔ اور قیامت ساتویں دن میں ہوگی۔ چھ دن گزر چکے اور تم ساتویں دن میں ہو پس اس کی مثال اس حاملہ عورت کی طرح ہے جو آخری مہینے میں داخل ہوچکی ہو۔ اور یہ معلوم نہیں کہ کس وقت میں بچہ کو جنم دے دے۔ 8۔ ابن ابی حاتم نے صفوان بن سلیم (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ فقراء مسلمان جنت میں آدھا دن پہلے داخل ہوں گے مالدار مسلمان سے۔ پوچھا گیا آدھا دن کتنا ہے ؟ فرمایا پانچ سو سال اور یہ آیت آی وان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون۔ تلاوت فرمائی۔ 9۔ ابن جریرو ابن مردویہ نے ضمیر بن نہار کے طریق سے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ غریب مسلمان امیر مسلمانوں سے آدھادن جنت میں پہلے داخل ہوں گے۔ میں نے پوچھا آدھے دن کی کیا مقدار ہے ؟ فرمایا کیا تو نے قرآن کو نہیں پڑھا۔ آیت وان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون۔ 10۔ احمد نے زہد میں ضمیر بن نہار سے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا میری امت کے غریب لوگ۔ امیر لوگوں سے آدھا دن پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ اور یہ آیت آیت وان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون پڑھی۔ 11۔ بیہقی نے شعب میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس شخص نے جنازہ پر نماز پڑھی پھر اس کے دفن سے فارغ ہونے سے پہلے واپس آگیا تو اس کے لیے ایک قیراط ثواب ہوگا۔ اگر اس نے انتظار کیا یہاں تک کہ اس کے دفن سے فارغ ہوگئے تو اس کے دو قیراط ثواب ہوگا۔ اور قراط احد پہاڑ کے برابر ہوگا قیامت کے دن اپنے ترازوں میں پھر ابن عباس رضی الہ عنہما نے فرمایا۔ ہمارے رب کی عظمت کا یہ حق ہے کہ اس کا قیراط احد کے برابر ہو اور اس کا ایک دن ہزار سال کے برابر ہو۔ 12۔ ابن عدی اور دیلمی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دنیا ساری سات دن ہے آخرت کے دنوں میں سے۔ اور اس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا وان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون۔
Top