Aasan Quran - Al-Hajj : 47
وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَ لَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗ١ؕ وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ : اور وہ تم سے جلدی مانگتے ہیں بِالْعَذَابِ : عذاب وَلَنْ : اور ہرگز نہیں يُّخْلِفَ : خلاف کرے گا اللّٰهُ : اللہ وَعْدَهٗ : اپنا وعدہ وَاِنَّ : اور بیشک يَوْمًا : ایک دن عِنْدَ رَبِّكَ : تمہارے رب کے ہاں كَاَلْفِ سَنَةٍ : ہزار سال کے مانند مِّمَّا : اس سے جو تَعُدُّوْنَ : تم گنتے ہو
اور یہ لوگ تم سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں، حالانکہ اللہ اپنے وعدے کی ہرگز خلاف ورزی نہیں کرے گا، اور یقین جانو کہ تمہارے رب کے یہاں کا ایک دن تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال کی طرح کا ہوتا ہے۔ (26)
26: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن کے ایک ہزار سال کے برابر ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ اس کی صحیح تشریح تو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے اسے متشابہات میں بھی شمار کیا ہے، لیکن اس آیت کو سمجھنے کے لیے اتنی تشریح کافی ہے کہ کفار کے سامنے جب یہ کہا جاتا تھا کہ ان کے کفر کے نتیجے میں ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا یا آخرت میں عذاب آئے گا تو وہ اس کا مذاق اڑاتے تھے، اور کہتے تھے کہ اتنے دن گذر گئے، لیکن کوئی عذاب نہیں آیا، اگر واقعی عذاب آنا ہے تو ابھی کیوں نہیں آجاتا ؟ اس کے جواب میں فرمایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کر رکھا ہے وہ تو ضرور پورا ہوگا۔ رہا اس کا وقت، تو وہ اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمت کے مطابق متعین ہوگا، اور تم جو سمجھ رہے ہو کہ اس کے آنے میں بہت دیر ہوگئی ہے تو درحقیقت تم جس مدت کو ایک ہزار سال سمجھتے ہو، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن کے برابر ہے۔ اس آیت کی کچھ مزید تفصیل انشاء اللہ سورة معارج : 4 میں آئے گی۔
Top