Tadabbur-e-Quran - Al-Muminoon : 63
بَلْ قُلُوْبُهُمْ فِیْ غَمْرَةٍ مِّنْ هٰذَا وَ لَهُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِكَ هُمْ لَهَا عٰمِلُوْنَ
بَلْ : بلکہ قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل فِيْ غَمْرَةٍ : غفلت میں مِّنْ ھٰذَا : اس سے وَلَهُمْ : اور ان کے اَعْمَالٌ : اعمال (جمع) مِّنْ دُوْنِ : علاوہ ذٰلِكَ : اس هُمْ لَهَا : وہ انہیں عٰمِلُوْنَ : کرتے رہتے ہیں
بلکہ ان لوگوں کے دل اس چیز سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کے کچھ اور مشاغل ان کے ماسوا ہیں
آیت 64-63 مترفین اور ان کے پیروئوں کا انجام اس اضراب کا تعلق متکبرین کے اسی مغالطہ سے ہے جو اوپر مذکور ہوا کہ وہ اپنی رفاہیت و خوش حالی کو اپنی نیک اعمالی و نیک مآلی کی دلیل بنائے بیٹھے ہیں۔ وہاں صرف ان کے مغالطہ کی طرف اشارہ کر کے کلام اہل ایمان کے ذکر کی طرف مڑ گیا تھا۔ اب پھر وہی سلسلہ کلام عود کر آیا۔ فرمایا کہ ان لوگوں کے دل، اس انذار سے جو خدا کا رسول ان کو سنا رہا ہے، غفلت کے پردوں میں ہیں اور یہ اسی طرح سرمستیوں میں کھوئے رہیں گے۔ اہل ایمان کے جو اعمال، آیات 60-57 میں مذکور ہوئے ان کے اندر ان کے لئے کوئی کشش نہیں۔ انکی دلچسپی کے اعمال کچھ اور ہیں اور وہ انہی میں منہمک رہیں گے۔ یہاں تک کہ جب خدا کا عذاب ان کو دبوچ لے گا تب وہ فریاد کریں گے لیکن اس وقت ان کا فریاد کرنا بالکل بےسود ہوگا۔ جآویجئو، کے معنی تضرع وزاری کرنے کے ہیں اور اور مترفین مالداروں اور خوش حالوں کو کہتے ہیں وہ عذاب الٰہی جو رسول کے انذار کے نتیجہ میں آتا ہے۔ وہ اصلاً مترفین ہی کے لئے آتا ہے اس لئے کہ رسول کے انذار سے اصلی خدا نھیں کو ہوتی ہے۔ اسیو جہ سے فرمایا اخذنا مترفیھم بالعذاب لیکن ضمنا اس کی لپیٹ میں وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو مترفین کے طبقہ سے تو نہیں ہوتے لیکن اپنی شامت اعمال سے آلہ کار انہیں کے بن جاتے ہیں اس وجہ سے جس طرح گندم کے ساتھ گھن پس جاتا ہے اسی طرح اپنے سرپرستوں کے ساتھ وہ بھی پس جاتے ہیں۔
Top