Urwatul-Wusqaa - Al-Ankaboot : 13
عُتُلٍّۭ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِیْمٍۙ
عُتُلٍّۢ : بدمزاج بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد زَنِيْمٍ : بداصل بھی ہے
جو بد زبان (بھی) ہے اور علاوہ ازیں بدنام بھی
بدزبان بھی ہو اور علاوہ ازیں بدنام بھی ہو 13 ؎ (عتل) سخت مزاج ، گردن کش ، اجڈ۔ اس کے معنی اس طرح نقل کئے گئے ہیں : (1) بسیار خور۔ (2) درشت خو۔ (3) ستم گر۔ (4) سخت گو اور یہ عتل سے صفت کا صیغہ ہے جس کے معنی کسی چیز کو پورے طور پر پکڑ کر سختی اور زبردستی کے ساتھ کھینچنے کے ہیں۔ (منتخب اللغات) اس جگہ مراد تند خو اور سخت مزاج کافر ہیں۔ ھو الشدید الخلق الفاحش الخلق (فتح القدیر ج 5 ص 261) ” عتل وہ ہے جو جسم کا مضبوط اور اخلاق کا خراب ہو۔ “ اس طرح کہا گیا ہے کہ ” وہ شخص جو جسم کا مضبوط ہو ، صحت مند ہو ، بڑا کھانے پینے والا ہو ، جسے کھانے پینے کے لئے وافر ملتا رہے اور وہ لوگوں پر بہت ظلم کرتا ہو اور توند اس کی بڑھی ہوئی ہو۔ (فتح الباری ج 8 ص 508 طبع مصریہ ، یہ اردو ترجمہ ہمارا اپنا ہے) زنیم) بدنام۔ جو کسی بھی بری علامت سے مشہور ہوجائے وہ جو کسی قوم میں نہ ہونے کے باوجود اس میں اپنے آپ کو ملائے لیکن اس میں سے نہ ہو۔ تحریر ہے کہ ” زینم بمعنی آنکہ نسبت کردہ شدہ است بقومے کہ از آنہا نباشد ماخوذ است از زنمتی الشاۃ کہ گوش برجرم گلوئے آں را پارہ می برند و آویزاں بآں می گزارند “ (تیسیر القاری ج 4 ص 625 طبع علوی لکھنؤ ) اور بعض نے اس کے معنی بداصل اور حرام زادہ کے بھی کئے ہیں۔ حافظ ابن کثیر (رح) نے سلف صحابہ ؓ وتابعین رحمۃ اللہ علیہم کے متعدد اقوال میں اس کی تفسیریں نقل کرنے کے بعد ان سب کا خلاصہ اس طرح تحریر کیا ہے کہ : والاقول فی ھذا کثیرۃ ترجع الی ما قلناہ وھوان الزنیم ھو المشھور بالشر الذی یعرف بہ بین الناس و غالبا یکون دعیا ولدا زنافان فی الغالب یتسلط ال شیطان علیہ مالا یتسلط علی غیرہ کما حاء فی الحدیث لا یدخل الجنۃ ولدزنا و فی الحدیث الاخر ولدالزنا شر الثلاثۃ اذا عمل بعمل ابوبہ (ابن کثیر ج 4 ص 405 طبع مصر 1356 ھ) ” اور اس میں اقوال بہت ہیں اور سب اسی طرف لوٹتے ہیں جو ہم نے بیان کیا کہ (زنیم) وہ شخص ہے جو برائی میں اتنا مشہور ہو کہ اسی کے ذریعہ لوگوں میں پہچانا جاتا ہو اور اکثر ایسا شخص نسب میں متہم اور حرام زادہ ہوتا ہے کیونکہ بیشتر شیطان جتنا اس پر مسلط ہوتا ہے دوسرے پر نہیں ہوتا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ ولدالزنا جنت میں نہیں جائے گا اور دوسری حدیث میں ہے کہ ولد الزنا تینوں میں برابر ہے جب کہ اپنے ماں باپ کے سے عمل کرے۔ “ افراء کا بیان ہے کہ ” زنیم وہ ہے جس کے نسب میں تہمت ہو ، قوم میں ملحق ہو اور ان میں سے نہ ہو “ اس کی وضاحت میں اور بھی بہت کچھ کہا گیا ہے اور ماحصل سب کا ایک جیسا ہے۔ آیت 10 سے آیت 13 تک چار آیتوں میں ان چوہدریوں اور پارٹی لیڈروں اور مذہبی راہنمائوں اور پیشوائوں کی دس نشانیاں گنوائی گئی ہیں جن میں یہ کامل دس نشانیاں پائی جاتی ہیں تو وہ بہت سرکردہ اور اعلیٰ قسم کا لیڈر شمار ہوتا ہے ، جن لیڈروں سے آج کل کے حالات کے مطابق ملک کا صدر ، وزیراعظم ، وزیراعلیٰ اور دوسرے وفاقی اور صوبائی وزیر چنے جاتے ہیں اور اس کے بعد یہ تعریف ان لوگوں پر صادق آتی ہے جو سینیٹر کے نام سے پکارے اور یاد کئے جاتے ہیں۔ ہاں ! ان میں سے کسی کے اندر دس نشانات مکمل ہیں اور کسی کے اندر زیادہ سے زیادہ ایک یا دو کی کمی موجود ہوتی ہے اور وہ وہی ہیں جن کو آج کل کی زبان میں نوجوان قیادت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ وہ ابھی تک عشرۃ کاملہ کے مصداق شاید نہ ہوں لیکن چند ہی سالوں میں وہ پہلوں کی جگہ خود بخود حاصل کرلیتے ہیں اور اس طرح یہ سلسلہ جاری وساری رہتا ہے۔ ان دس پر ایک نظر دوبارہ ڈالیں تاکہ ذہن میں مستحضر رہیں۔ (1) حلاف۔ (2) مھین۔ (3) ھماز ۔ (4) مشاء۔ (5) نمیم۔ (6) مناع للخیر۔ (7) معتد۔ (8) اثیم۔ (9) عتل اور (10) زنیم۔ یہ دس نشانات ، علامات ، عادات اور خصائل جن لوگوں میں پائے جاتے ہیں وہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو آج کل کے زمانہ میں لیڈروں ، راہنمائوں ، پیشوائوں ، سجادہ نشینوں ، گدی نشینوں ، پیرزادوں ، صاحبزادوں ، عباسیوں ، قریشیوں ، زرداریوں ، مزاریوں اور سرداروں میں شمار کیا جاتا ہے یا ان میں شمار ہوتے ہوئے ملک کے صدروں ، وزیراعظموں ، وزیراعلیٰ ، گورنروں ، سینیٹروں دوسرے ساری قسموں کے وزیروں میں شامل کر لئے جاتے ہیں اور پھر ان کا شمار آگے آنے والے نشانات میں خود بخود شروع ہوجاتا ہے۔
Top