Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 19
وَ یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَیْثُ شِئْتُمَا وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَيٰٓاٰدَمُ : اور اے آدم اسْكُنْ : رہو اَنْتَ : تو وَزَوْجُكَ : اور تیری بیوی الْجَنَّةَ : جنت فَكُلَا : تم دونوں کھاؤ مِنْ حَيْثُ : جہاں سے شِئْتُمَا : تم چاہو وَلَا تَقْرَبَا : اور نہ قریب جانا هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةَ : درخت فَتَكُوْنَا : پس ہوجاؤ گے مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور اے آدم، تم اور تمہاری بیوی رہو جنت میں اور کھاؤ پیو جہاں سے چاہو، بس اس درخت کے پاس نہ پھٹکیو کہ اپنے اوپر ظلم کرنے والوں میں سے بن جاؤ
وَيٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِـئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ۔ 19۔ فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطٰنُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وٗرِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ 20۔ وَقَاسَمَهُمَآ اِنِّىْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيْنَ 21۝ۙ فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ ۭوَنَادٰىهُمَا رَبُّهُمَآ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَاَقُلْ لَّكُمَآ اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ 22؀ قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ 23؀ قَالَ اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۚ وَلَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰي حِيْنٍ 24؀ قَالَ فِيْهَا تَحْيَوْنَ وَفِيْهَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْهَا تُخْرَجُوْنَ 25؀ۧ سرگزشتِ آدم و ابلیس کے چند مضمرات :۔ یہ اسی سرگزشت کا آگے کا حصہ بیان ہو رہا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ شیطان کو جنت سے نکالنے کے بعد آدم و حوا کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی کہ تم چین سے جنت میں رہو، اس کی تمام نعمتوں سے آزادی کے ساتھ فائدہ اٹھاؤ، بس اتنا خیال رکھنا کہ فلاں درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ تم خود اپنی جان پر ظلم ڈھاؤ گے اور اس جنت سے محروم ہوجاؤ گے۔ شیطان نے یہیں سے آدم پر حملہ کرنے کی راہ نکال لی۔ اس نے آدم و حوا کہ یہ پٹی پڑھائی کہ اس باغ میں کوئی درخت فائدہ اٹھانے کا ہے تو وہی ہے جس سے تمہیں تمہارے رب نے روک رکھا ہے۔ اس سے تمہٰیں محض اس وجہ سے روکا گیا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تمہاری زندگی ابدی نہ ہوجائے۔ شیطان نے قسمیں کھا کھا کے آدم و حوا کو اپنی خیر خواہی کا یقین دلادیا، بالآخر انہیں اس درخت کا پھل کھالینے پر آمادہ کرلیا، اس کا پھل چکھتے ہی وہ حد جنت سے محروم ہوگئے اور اپنے آپ کو ڈھانکنے کے لیے انہوں نے اپنے اوپر پتے سینے شروع کردیے۔ اس وقت خدا نے ان کو آواز دی کہ میں نے تو تمہیں آگاہ کردیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔ وہ اپنی دشمنی کا کھلے بندوں اعلان کرچکا ہے۔ اس پر آدم و حوا کو تنبیہ ہوا۔ انہوں نے فوراً توبہ و استغفار کی جو اللہ تعالیٰ نے قبول بھی فرما لیں لیکن ساتھ ہی آدم و حوا اور ابلیس سب کو وہاں سے نکلنے کی ہدایت ہوئی کہ اب تمہارا مستقر زمین ہے، اس میں تم ایک دوسرے سے آزمائے جاؤ گے۔ پھر جو اس جنت کا اپنے آپ کو حق دار ثابت کرے گا وہ جنت پائے گا اور جو دوزخ کا سزا وار ٹھہرے گا وہ دوزخ میں جھونک دیا جائے گا۔ اس سرگزشت کے سنانے سے جن حقائق کا سراغ مقصود ہے ان پر تفصیل سے سورة بقرہ کی تفسیر میں ہم روشنی ڈال چکے ہیں۔ البتہ جو باتیں وہاں زیر بحث نہیں آئی ہیں ان کی وضاحت ہم یہاں کریں گے۔ وَيٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ الایہ۔ شجرہ پر بقرہ کی تفسیر میں بحث گزر چکی ہے۔ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِـئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ سے یہ بات نکلتی ہے کہ پوری جنت کی ہر چیز سے آدم و حوا کو فائدہ اٹھانے کی آزدی حاصل تھی، صرف ایک درخت سے ان کو روکا گیا تھا لیکن وہی درخت ان کے لیے آزمائش بن گیا، شیطان نے اسی شجر ممنوعہ کے فوائد و برکات پر ایسی دلفریب تقریر کی کہ آدم اللہ کے عہد پر قائم نہ رہ سکے۔ شیطان کی یہی تکنیک اولادِ آدم کے ساتھ اس دنیا میں بھی ہے۔ اس دنیا کہ ہر چیز انسان کے لیے مباح ہے صرف گنتی کی چند چیزیں ہیں جو ممنوع ہیں۔ شیطان بس انہی چیزوں کو لے کر اپنی اور اپنے کارندوں کی وسوسہ اندازیوں سے لوگوں کو باور کراتا ہے کہ تمہاری ساری کامیابی و ترقی کا راز بس انہی چیزوں کے اندر مضمر ہے جن سے روک دیا گیا ہے۔
Top