Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 24
قَالَ اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ١ۚ وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ
قَالَ : فرمایا اهْبِطُوْا : اترو بَعْضُكُمْ : تم میں سے بعض لِبَعْضٍ : بعض عَدُوٌّ : دشمن وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے فِي الْاَرْضِ : زمین میں مُسْتَقَرٌّ : ٹھکانا وَّمَتَاعٌ : اور سامان اِلٰي حِيْنٍ : ایک وقت تک
فرمایا، اترو، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے لیے زمین میں ایک وقت خاص تک ٹھہرنا اور کھانا پینا ہے
قَالَ اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوّ الایہ، اس آیت کے تمام پہلوؤں پر بقرہ کی تفسیر میں بحث گزر چکی ہے، آدم و حوّا نے اگرچہ توبہ کرلی تھی اور ان کی توبہ اللہ تعالیٰ نے منظور بھی فرما لی تاہم حکمت الٰہی کا تقاضا یہی ہوا کہ آدم و حوا جنت سے نکلیں اور اس دنیا میں رہ کر وہ اور ان کی ذریت شیطان اور اس کی ذریت سے مقابلہ کریں، پھر اس میدان میں جو شیطان سے بازی لے جائیں وہ جنت کے وارث ٹھہریں۔ گویا مقابلہ تو وہی رہا جس کا ابلیس نے چیلنج دیا تھا لیکن میدان مقابلہ جنت کے بجائے یہ دنیا بنا دی گئی اور جنت کو انعام قرار دے دیا گیا۔ اولاد آدم میں سے ان خوش بختوں کے لیے جو شیطان کے مقابل میں سرخ رو ٹھہریں۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوّ کے ٹکڑے پر تفصیل سے تفسیر بقرہ میں بحث گزر چکی ہے۔ یہاں اسلوب کلام دلیل ہے کہ اس میدان میں آدم و ابلیس کو اتارا ہی دو محارب فریقوں کی حیثیت سے گیا ہے۔ شیطان کو یہ مہلت دی گئی ہے کہ وہ اولادِ آدم میں سے جن کو جیت سکتا جیت لے اور اولادِ آدم کو یہ موقع دیا گیا ہے کہ جو جنت کی میراث حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ شیطان کو پچھاڑیں اور جنت جیت لیں۔ نصاریٰ کا مغالطہ : یہاں اس مغالطہ سے متنبہ رہنا ضروری ہے جو نصاریٰ کو پیش آیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انسان بھی اس دنیا میں شیطان کی طرح لعنتی ہو کر اترا ہے اور اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے انہوں نے کفارہ کا ایک خانہ ساز عقیدہ گھڑا ہے۔ قرآن نے بقرہ میں بھی اور یہاں بھی نہایت واضح رہنمائی دی ہے کہ آدم توبہ کے بعد اپنی پچھلی غلطی کے خمیازہ سے بالکل پاک ہو کر اس دنیا میں آئے ہیں اور اس دنیا میں ان کا بھیجا جانا اس لیے ہوا کہ وہ اور ان کی ذریت شیطان کے مقابل میں اپنے عزم و ایمان سے اپنے آپ کو اس عزت کا حق دار ثابت کردیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو بخشی اور جو شیطان کے حسد کا باعث ہوئی۔
Top