Tafseer-e-Madani - Az-Zukhruf : 20
وَ یَقُوْلُوْنَ لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ۚ فَقُلْ اِنَّمَا الْغَیْبُ لِلّٰهِ فَانْتَظِرُوْا١ۚ اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ۠   ۧ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں لَوْ : اگر کیوں لَآ اُنْزِلَ : نہ اتری عَلَيْهِ : اس پر اٰيَةٌ : کوئی نشانی مِّنْ رَّبِّهٖ : اس کے رب سے فَقُلْ : تو کہ دیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں الْغَيْبُ : غیب لِلّٰهِ : اللہ کیلئے فَانْتَظِرُوْا : سو تم انتظار کرو اِنِّىْ : میں مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ مِّنَ : سے الْمُنْتَظِرِيْنَ : انتظار کرنے والے
اور کہتے ہیں کہ کیوں نہ اتاری گئی ان پر کوئی نشانی ان کے رب کی جانب سے، تو کہو کہ غیب تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے، پس تم لوگ انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں
36 کفار کی طرف سے فرمائشی معجزے کا مطالبہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ منکر لوگ کہتے ہیں کہ کیوں نہیں اتاردی گئی ان کے رب کی طرف سے یعنی ان کی اقتراح و فرمائش کے مطابق۔ ورنہ مطلق نشانیاں تو آپ کو بیشمار عطا فرمادی گئی تھیں۔ اور اتنی کہ کسی اور کو نہیں عطا فرمائی گئیں۔ اور آپ کا سب سے بڑا معجزہ تو قرآن حکیم کا یہ معجزہ خالدہ ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔ مگر ان ضدی و عنادی ہٹ دھرم کافروں کی خاص فرمائشیں تھیں کہ یہ اور یہ نشانیاں ہمیں دکھاؤ۔ مثلا " ناقہ صالح " " عصائے موسیٰ " اور یہ کہ کوہ صفاکوسونے کا پہاڑ بنادیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ (جامع البیان، محاسن التاویل، قرطبی، بیضاوی وغٰیرہ وغیرہ) سو یہ بھی ان لوگوں کے عناد اور ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کا ایک نمونہ تھا کہ پیغمبر کے اتنے معجزات دیکھنے کے باوجودوہ لوگ ایسے خاص معجزوں کی فرمائش کرتے تھے۔ ورنہ جو عظیم الشان معجزات آنحضرت ﷺ کو عطا فرمائے گئے تھے، وہ آنجاب کی صداقت و حقانیت کے ثبوت کے لیے کافی ووافی تھے۔ سو اصل چیز معجزات نہیں بلکہ اصل چیز ہے طلب صادق۔ اور اس سے یہ لوگ محروم ہیں اس لیے یہ نورحق و ہدایت سے محروم ہیں اور اس کے نتیجے میں یہ ہٹ دھرمی میں مبتلاہوکر ایسے مطالبات کرتے اور فرمائشی معجزے مانگتے ہیں ورنہ ایمان لانا ان کا مقصدہی نہیں۔ یہ محض ان کی حیلہ سازیاں اور بہانے بازیاں ہیں جن سے یہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے دے رہے ہیں مگر ان کو اس کا شعورواحساس نہیں۔ 37 علم غیب خاصہ خداوندی : سو پیغمبر کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ فرمائشی معجزوں کا مطالبہ کرنے والے ان معاندین سے کہو کہ غیب تو اللہ ہی کے اختیار میں اور اسی کے ساتھ مختص ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور " انما " کے کلمہ حصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ غیب اللہ تعالیٰ ہی کا خاصہ ہے۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ غیب سب کا سب اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ پس تم لوگوں کی ان فرمائشوں کا معاملہ بھی اسی کے حوالے ہے کہ یہ بھی غیب سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں، اور غیب سب کا سب اسی وحدہ لاشریک کے ساتھ مختص ہے، اور پھر اس حقیقت کے بیان میں جس قدر تاکید سے کام لیا گیا وہ بھی ملاحظہ ہو کہ ایک تو (انما) کا کلمہ استعمال فرمایا گیا ہے کہ جو کہ حصر و تاکید کا فائدہ دیتا ہے۔ پھر " لام اختصاص " اور پھر جملہ اسمیہ جو کہ دوام واستمرار پر دلالت کرتا ہے سو اس طرح تاکیددر تاکید کے ساتھ اس حقیقت کو آشکار اور واضح فرما دیا گیا کہ غیب کا علم اللہ کی مخلوق میں سے مختلف ہستیوں کے لیے علم غیب کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو قرآن وسنت کی تعلیمات مقدسہ کے مطابق یہ ایک قطعی حقیقت ہے اور یہاں پر بھی ان لوگوں کے جواب میں پیغمبران کو ارشادفرما رہے ہیں کہ غیب کی تمام خبریں اسی وحدہ لاشریک کے علم اور قبضہ قدرت واختیار میں ہیں۔ وہی وحدہ لاشریک جانتا ہے کہ کس چیز کا انجام کیسا ہے اور آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ مجھے نہ تو یہ معلوم ہے کہ میرے ہاتھ پر کون سا معجزہ ظاہر ہوگا اور نہ یہ کہ کب اور کس شکل میں ظاہر ہوگا کہ ان سب امور کا تعلق غیب سے ہے۔ اور غیب اللہ کا خاصہ ہے سبحانہ وتعالیٰ تو پھر تم لوگ مجھ سے ایسے مطالبے کیوں کرتے اور اس طرح کی فرمائش کیوں کرتے ہو ؟ جن کا میرے منصب سے کوئی تعلق ہی نہیں اور نہ ہی میں نے ایسا کوئی دعوی ہی کبھی کیا ہے (روح، قرطبی، مدارک، ابوالسعود، المراغی، ابن کثیر وغیرہ) بہرکیف کفار و مشرکین کے جواب میں نبی اکرم ﷺ کی زبان سے کہلوایا گیا کہ عذاب لانا اور فرمائشی معجزے دکھانا میرا کام نہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے قبصہ قدرت واختیار میں ہے اور اس کا علم بھی اسی کے پاس ہے کہ غیبی امور سب کے سب اسی کے ساتھ مختص ہیں میرا کام تو صرف خبردار کرنا ہے آنے والے عذاب اور خطرات سے اور بس۔ تاکہ جس نے بچنا ہو بچ جائے آگے معاملہ اللہ کے حوالے پس تم لوگ انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں جب نتیجہ وانجام سامنے آئیگاتوتم لوگوں کو خودپتہ چل جائے گا۔
Top