Tafheem-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 19
وَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الْمَحْرُوْمِ
وَفِيْٓ اَمْوَالِهِمْ : اور انکے مالوں میں حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ : حق سوالی کے لئے وَالْمَحْرُوْمِ : اور تنگدست (غیرسوالی)
اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔17
سورة الذّٰرِیٰت 17 بالفاظ دیگر، ایک طرف اپنے رب کا حق وہ اس طرح پہچانتے اور ادا کرتے تھے، دوسری طرف بندوں کے ساتھ ان کا معاملہ یہ تھا۔ جو کچھ بھی اللہ نے ان کو دیا تھا، خواہ تھوڑا یا بہت، اس میں وہ صرف اپنا اور اپنے بال بچوں ہی کا حق نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ان کو یہ احساس تھا کہ ہمارے اس مال میں ہر اس بندہ خدا کا حق ہے جو ہماری مدد کا محتاج ہو۔ وہ بندوں کی مدد خیرات کے طور پر نہیں کرتے تھے کہ اس پر ان سے شکریہ کے طالب ہوتے اور ان کو اپنا زیر بار احسان ٹھہراتے، بلکہ وہ اسے ان کا حق سمجھتے تھے اور اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے تھے۔ پھر ان کی یہ خدمت خلق صرف انہی لوگوں تک محدود نہ تھی جو خود سائل بن کر ان کے پاس مدد مانگنے کے لیے آتے، بلکہ جس کے متعلق بھی ان کے علم میں یہ بات آجاتی تھی کہ وہ اپنی روزی پانے سے محروم رہ گیا ہے اس کی مدد کے لیے وہ خود بےچین ہوجاتے تھے۔ کوئی یتیم بچہ جو بےسہارا رہ گیا ہو، کوئی بیوہ جس کا کوئی سر دھرا نہ ہو، کوئی معذور جو اپنی روی کے لیے ہاتھ پاؤں نہ مار سکتا ہو، کوئی شخص جس کا روزگار چھوٹ گیا ہو یا جس کی کمائی اس کی ضروریات کے لیے کافی نہ ہو رہی ہو، کوئی شخص جو کسی آفت کا شکار ہوگیا ہو اور اپنے نقصان کی تلافی خود نہ کرسکتا ہو، غرض کوئی حاجت مند ایسا نہ تھا جس کی حالت ان کے علم میں آئی ہو اور وہ اس کی دستگیری کرسکتے ہوں، اور پھر بھی انہوں نے اس کا حق مان کر اس کی مدد کرنے سے دریغ کیا ہو۔ یہ تین صفات ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ ان کو متقی اور محسن قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ انہی صفات نے ان کو جنت کا مستحق بنایا ہے۔ ایک یہ کہ آخرت پر ایمان لا کر انہوں نے ہر اس روش سے پرہیز کیا جسے اللہ اور اس کے رسول نے اخروی زندگی کے لیے تباہ کن بتایا تھا۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے اللہ کی بندگی کا حق اپنی جان لڑا کر ادا کیا اور اس پر فخر کرنے کے بجائے استغفار ہی کرتے رہے۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے اللہ کے بندوں کی خدمت ان پر احسان سمجھ کر نہیں بلکہ اپنا فرض اور ان کا حق سمجھ کر کی۔ اس مقام پر یہ بات اور جان لینی چاہیے کہ اہل ایمان کے اموال میں سائل اور محروم کے جس حق کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد زکوٰۃ نہیں ہے جسے شرعاً ان پر فرض کردیا گیا ہے، بلکہ یہ وہ حق ہے جو زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی ایک صاحب استطاعت مومن اپنے مال میں خود محسوس کرتا ہے اور اپنے دل کی رغبت سے اس کو ادا کرتا ہے بغیر اس کے کہ شریعت نے اسے لازم کیا ہو۔ ابن عباس، مجاہد اور زید بن اسلم وغیرہ بزرگوں نے اس آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے۔ در حقیقت اس ارشاد الٰہی کی اصل روح یہ ہے کہ ایک متقی و محسن انسان کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوتا کہ خدا اور اس کے بندوں کا جو حق میرے مال میں تھا، زکوٰۃ ادا کر کے میں اس سے بالکل سبکدوش ہوچکا ہوں، اب میں نے اس بات کا کوئی ٹھیکہ نہیں لے لیا ہے کہ ہر ننگے، بھوکے، مصیبت زدہ آدمی کی مدد کرتا پھروں۔ اس کے بر عکس جو اللہ کا بندہ واقعی متقی و محسن ہوتا ہے وہ ہر وقت ہر اس بھلائی کے لیے جو اس کے بس میں ہو، دل و جان سے تیار رہتا ہے اور جو موقع بھی اسے دنیا میں کوئی نیک کام کرنے کے لیے ملے اسے ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اس کے سوچنے کا یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ جو نیکی مجھ پر فرض کی گئی تھی وہ میں کرچکا ہوں، اب مزید نیکی کیوں کروں ؟ نیکی کی قدر جو شخص پہچان چکا ہو وہ اسے بار سمجھ کر برداشت نہیں کرتا بلکہ اپنے ہی نفع کا سودا سمجھ کر زیادہ سے زیادہ کمانے کا حریص ہوجاتا ہے۔
Top