Taiseer-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 133
وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ١ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ
وَسَارِعُوْٓا : اور دوڑو اِلٰى : طرف مَغْفِرَةٍ : بخشش مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : اپنا رب وَجَنَّةٍ : اور جنت عَرْضُھَا : اس کا عرض السَّمٰوٰتُ :ٓآسمان (جمع وَالْاَرْضُ : اور زمین اُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور اپنے پروردگار کی بخشش اور اس جنت 118۔ 1 کی طرف دوڑ کر چلو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے
118۔ 1 سود کی حرمت کا ذکر سورة بقرہ کی آیات 278۔ 279 میں گزر چکا ہے۔ یہ آیت اس سے پہلے کی نازل شدہ ہے۔ جبکہ مسلمانوں کو سود کی قباحتوں سے متعارف کرانا اس سے نفرت دلانا اور اس کو یکسر چھوڑ دینے کے لیے ذہنوں کو ہموار کرنا مقصود تھا۔ اس مقام پر سود کے ذکر کی وجہ مناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جنگ احد میں ابتداً مسلمان جو شکست سے دوچار ہوئے تو اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں کا وہ دستہ جو حضرت عبداللہ بن جبیر کی سر کردگی میں درہ کی حفاظت پر مامور تھا، اس نے جب فتح کے آثار دیکھے تو مال کے طمع سے مغلوب ہوگئے اور اپنے کام کو تکمیل تک پہنچانے کے بجائے غنیمت لوٹنے میں لگ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس صورت حال کی اصلاح کے لیے زر پرستی کے سرچشمے پر بند باندھنا ضروری سمجھا کیونکہ سود کا خاصہ یہ ہے کہ وہ سود خوار میں حرص و طمع، بخل و بزدلی، خود غرضی اور زر پرستی جیسی رذیل صفات پیدا کردیتا ہے اور سود ادا کرنے والوں میں نفرت، غصہ، بغض و حسد جیسی صفات پیدا ہوجاتی ہیں، اور ایسی صفات ایک اسلامی معاشرہ کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں اور جہاد کی روح کے منافی ہیں اور آخرت میں اخروی عذاب کا سبب بنتی ہیں۔ انہیں وجوہ کی بنا پر سود کو بالآخر مکمل طور پر حرام قرار دیا گیا۔
Top