بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 1
سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَ فَرَضْنٰهَا وَ اَنْزَلْنَا فِیْهَاۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
سُوْرَةٌ : ایک سورة اَنْزَلْنٰهَا : جو ہم نے نازل کی وَفَرَضْنٰهَا : اور لازم کیا اس کو وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے نازل کیں فِيْهَآ : اس میں اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ : واضح آیتیں لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم یاد رکھو
(یہ) ایک سورت ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم نے اس کو فرض قرار دیا ہے اور اس میں کھلی آیتیں نازل کی ہیں تاکہ تم نصیحت پکڑو
اس سورت کے نزول کی خاص کرکے اپنی طرف نسبت دینے کی وجہ : 1۔ قرآن کریم کا ایک نام فرقان بھی ہے جس کے معنی ہیں دو چیزوں کو الگ الگ کردینا یا ایک ہی چیز کے اجزاء کا الگ الگ ہونا۔ کسوٹی کیا ہے ؟ وہی جو کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کر دے اور بلاشبہ پورا قرآن کریم حق و باطل کی کسوٹی ہے یعنی حق و باطل کو الگ الگ کردینے والا ہے اور پورا قرآن کریم اللہ تعالیٰ ہی کا نازل کردہ ہے اور اس کے احکام اللہ تعالیٰ ہی کے مقرر کردہ ہیں لیکن اس کے باوجود اس سورت یعنی سورت ” النور “ کو مخصوص کر کے ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ سورة یعنی ھذہ سورة یہ سورت جس کو ہم نے نازل کیا ہے اور اس کے مضامین کو فرض ٹھہرایا ہے ، معلوم ہوا کہ خصوصیت کے ساتھ ان چیزوں کو جو اس سورت میں نازل کی گئی ہیں اپنی جانب منسوب کرنا اس سورت اور اس کے مضامین و احکام کو ایک خاص اہمیت دینا ہے اور اس اہمیت کو ذہن نشین کرانے کے لئے یہ الفاظ بولے گئے ہیں ۔ ” یہ ایک سورت ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم نے اس کو فرض قرار دیا ہے ۔ “ صحیح حدیث میں ہے کہ ” اپنی عورتوں کو سورة النور کی تعلیم دو “ اور بلاشبہ سورت کے مرکزی مطالب عورت کی عفت ہی سے متعلق ہیں ۔ عورت کی عفت وناموس ہی خانگی زندگی کی جان ہے اور یہ بنیادی نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اسلام نے معاشرہ کی بنیاد خاندان ہی کو قرار دیا ہے اگر خاندان کا نظام صحیح اصول پر قائم ہوگیا تو ان خاندانوں کے اجتماع سے سارے معاشرے کی اصلاح ہوجائے گی اس لحاظ سے بھی سورت کی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں نظر آتی ہے ۔ گزشتہ سورت کی آیت 115 میں بیان کیا تھا کہ خلق انسانی کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ انسان کو اس عالم میں احکام کا مکلف کیا جائے اور انہی کی اطاعت ومخالفت پر اس عالم میں جزاسزا کا اجر ہو ۔ اس لئے زیر نظر سورت میں انہیں احکام میں سے بعض اہم احکامات کی تفصیل ہے ۔ اس سورت میں کھلی آیتیں نازل کی ہیں تاکہ تم نصیحت پکڑو : 2۔ ” آیات بینات “ کے الفاظ قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی آئے سب جگہوں پر ہمارے مفسرین نے ان کا ترجمہ ” معجزات “ کے نام سے کیا ہے یہ یوں کہا کہ روشن دلائل یعنی معجزات لیکن اس جگہ سب نے ” کھلے کھلے احکام “ کھلی ہوئی نشانیاں “ کے الفاظ میں ترجمہ کیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جو کہ جو کچھ اس سورت میں نازل کیا ہے روز روشن کی طرح واضح ہے اور کوئی بات ان میں مبہم نہیں کی جاسکتی اور پھر اس کے مضمون کے نزول کیوجہ اور لم بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ان کھلی نشانیوں کے نازل کرنے کا مقصد حقیقی یہ ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو اور جس بات سے تم کو روکا گیا ہے بغیر کسی حیل وحجت کے رک جاؤ اور جس کے کرنے کا حکم دیا ہے اس کو لازم وضروری سمجھتے ہوئے فورا اس کے کرنے کے لئے مستعد ہوجاؤ اور پوری دیانت داری کے ساتھ اور خلوص نیت کے ساتھ اس کو کرو ۔ آگے چل کر ایسی بداخلاقیوں کا ذکر آئے گا جو پوری کی پوری امت کو نیست ونابود کردیتی ہے جن سے تہذیب وحضارت اور تمدن وشائستگی کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہتا جس سے اعمال حسنہ اور اخلاق فاضلہ کا استیصال کل ہوجاتا ہے فرمایا ان کے رفع کے لئے ہم نے یہ ضابطہ اور دستور العمل نازل کیا ہے ۔ ان میں سے شروع کرتے ہیں پہلا نمبر ہی زنا کو دیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ یہی وہ قانون ہے جو زنا اور اشاعت زنا کو دنیا سے دور کرسکتا ہے اس لئے تم مسلمانوں پر ہم نے اس کا نفاذ لازمی کردیا ہے گویا یہ ایک ایکٹ ہے جس کی دفعات اس قدر روشن اور واضح ہیں کہ ہر شخص ان کو بآسانی ذہن نشین کرسکتا ہے ، اس سے بہتر دنیا کے پاس اور کوئی قانون نہیں ہے جو اس سب سے بڑی اور بری بداخلاقی کو دور کرسکے ۔
Top