Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 86
كَیْفَ یَهْدِی اللّٰهُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ وَ شَهِدُوْۤا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّ جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
كَيْفَ : کیونکر يَهْدِي : ہدایت دے گا اللّٰهُ : اللہ قَوْمًا كَفَرُوْا : ایسے لوگ جو کافر ہوگئے بَعْدَ : بعد اِيْمَانِهِمْ : ان کا (اپنا) ایمان وَشَهِدُوْٓا : اور انہوں نے گواہی دی اَنَّ : کہ الرَّسُوْلَ : رسول حَقٌّ : سچے وَّجَآءَ : اور آئیں ھُمُ : ان الْبَيِّنٰتُ : کھلی نشانیاں وَاللّٰهُ : اور اللہ لَايَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اللہ ایک ایسے گروہ پر کا میابی کی راہ کھول دے جس نے ایمان کے بعد کفر کی راہ اختیار کرلی ، حالانکہ اس نے گواہی دی تھی کہ اللہ کا رسول برحق ہے اور روشن دلیلیں اس کے سامنے واضح ہوگئی تھیں ؟ اللہ ظلم کرنے والے گروہ پر کبھی سعادت کی راہ نہیں کھولتا
ایمان کے بعد کفر اختیار کرنے والوں کے لیے کامیابی کی راہ نہیں کھولی جاتی : 172: جنت کی راہ ان لوگوں کے لیے کیسے کھولی جاسکتی ہے جو ایمان کی دولت سے مالامال ہونے کے بعد کفر کی طرف لوٹ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ان لوگوں کا بیان ہے جو ایمان لانے کے بعد مرتد ہوگئے اور مشرکین مکہ سے جا ملے اور ان میں سے اکثر مفسرین نے ابوعامر راہب کا نام بھی لیا ہے مگر عبداللہ بن عباس ؓ سے جو رویات ہے اس میں اہل کتاب ہی کا ذکر ہے اور اس رکوع کا سیاق وسباق بھی اس کی تصدیق کرتا ہے کیونکہ اس رکوع میں اصل مخاطب تو اہل کتاب ہی ہیں۔ اسلام لانے کے بعد کفر کرنے کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ لوگ مسلمان ہونے کے بعد پھر اپنے دین میں لوٹ گئے لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ پہلے انبیاء کرام (علیہم السلام) پر ایمان لائے اور اس کے بعد جب نبی کریم ﷺ مبعوث ہوئے تو ان کا انکار کردیا یہ بھی ہر لحاظ سے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرنے کے مترادف ہے۔ ایک اس لحاظ سے کہ پہلے وہ انبیاء کرام (علیہم السلام) کو مانتے تھے اور ظاہر ہے نبی کی نبوت کو تسلیم کرنے والا اللہ تعالیٰ کو مانتا ہی ہے لیکن جس نبی کی نبوت کو بھی وہ مانتے تھے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو یا ان کے بعد سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی ان پر سچا ایمان لانے کا مطلب تو یہ تھا کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت کو بھی تسلیم کرلیتے اور اس طرح وہ اپنی ہی کتابوں اور اپنے ہی انبیاء کی تصدیق کرتے کیونکہ ان کی کتابوں اور ان کے انبیاء کرام (علیہم السلام) نے محمد رسول اللہ ﷺ کی آمد کی پیش گوئیاں بیان کی تھیں۔ انہوں نے سابق انبیاء کو نبی مانا لیکن آپ ﷺ کی نبوت کا انکار کر کے پھر وہ کافر ہی ہوگئے کہ انہوں نے گزشتہ کتابوں اور نبیوں کو مانا تھا ان کا بھی انکار ہوگیا اس لحاظ سے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرنے کے زمرہ میں وہ خودبخود داخل ہوگئے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ جن لوگوں نے اسلام اختیار کرنے کے بعد پھر کفر اختیار کرلیا ایسے گروہ پر کامیابی کی راہ کیسے کھولی جاسکتی ہے ؟ گویا یہ استفہام انکاری ہے کہ ایسے لوگوں پر ہدایت کی راہ نہیں کھل سکتی اس لیے کہ انہوں نے خود ہدایت کی راہ چھوڑ کر کفر کی روش اختیار کرلی۔ حالانکہ اس گروہ نے گواہی دی تھی سابق کتابوں اور سابق نبیوں سے تعلیم پا کر اللہ کا رسول یعنی محمد رسول اللہ ﷺ برحق ہے۔ اور اس کے برحق ہونے کی وہ روشن دلیلیں بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے جو پہلے انبیاء کرام (علیہم السلام) کی پیشین گوئیوں میں موجود تھیں پھر یہ سب کچھ دیکھ سن لینے کے بعد انہوں نے آپ ﷺ کی نبوت کا انکار کردیا حالانکہ اب ان کے پاس انکار کا کوئی جواز موجود نہیں تھا۔ جب انہوں نے جان بوجھ کر کفر کی روش کو پسند کرلیا تو پھر اللہ کے قانون تو پہلے ہی موجود تھا کہ کفر کی روش اختیار کرنے والوں کو وہ کبھی راہ ہدایت نہیں عطا کرتا۔ جس ظلم کے مرتکب ہوئے تھے جان بوجھ کر اور سمجھ سوچ کر ہوئے تھے اس لیے ان کی ہدایت کی اب کوئی راہ کھلی نہ رہ گئی اس لیے کہ انہوں نے جان بوجھ کر وہ راستہ اختیار کیا جو کفر کا راستہ تھا اور اس طرح دیکھ سمجھ کر انہوں نے اس راستہ سے منہ پھیرا جو سیدھا جنت کو جا رہا تھا ایسے ظالموں کے لیے قانون الٰہی میں بھی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی اور قانون الٰہی یہی ہے کہ اپنی حالت کے بدلنے کی خود نہ سوچے اس کی حالت کو اللہ کبھی نہیں بدلتا۔ سوئے ہوئے کو تو جگایا جاسکتا ہے ، لیکن جاگتے کو کون جگائے۔ جو جان بوجھ کر سویا ہوا بن چکا ہو۔
Top