Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 86
كَیْفَ یَهْدِی اللّٰهُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ وَ شَهِدُوْۤا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّ جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
كَيْفَ : کیونکر يَهْدِي : ہدایت دے گا اللّٰهُ : اللہ قَوْمًا كَفَرُوْا : ایسے لوگ جو کافر ہوگئے بَعْدَ : بعد اِيْمَانِهِمْ : ان کا (اپنا) ایمان وَشَهِدُوْٓا : اور انہوں نے گواہی دی اَنَّ : کہ الرَّسُوْلَ : رسول حَقٌّ : سچے وَّجَآءَ : اور آئیں ھُمُ : ان الْبَيِّنٰتُ : کھلی نشانیاں وَاللّٰهُ : اور اللہ لَايَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
بھلا خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کی کیوں کر رہنمائی فرمائے گا جو اپنے ایمان لانے کے بعد اور اس اقرار کرنے کے بعد کہ یہ رسول برحق ہے اور اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح دلائل آ چکے پھر کفر اختیار کر بیٹھے اور اللہ تعالیٰ ایسے ستم شعار لوگوں کی رہنمائی نہیں فرمایا کرتا4
4۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت کی توفیق بخشے جو ایمان لانے کے بعد اور زبان سے اس بات کی شہادت دینے کے بعد کہ یہ رسول اپنے دعویٰ میں سچا ہے اور اس کے بعد کہ ان کو اسلام کی صداقت کے واضح دلائل پہنچ چکے ۔ ان تمام انعامات کے بعد پھر وہ لوگ کافر ہوگئے اور انہوں نے کفر اختیار کرلیا اور اللہ تعالیٰ ایسے ظالم اور ستم شعار لوگوں کو ہدایت کی توفیق نہیں دیا کرتا ۔ ( تیسیر) آیت کا تعلق یا تو ان بارہ آدمیوں سے ہے جو مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوگئے تھے اور مدینہ سے مکہ چلے گئے تھے۔ جیسے حارث بن سوید اور طمعہ بن ابیرق اور حجوج بن اسلت وغیرہ اور یا اس آیت کا تعلق معصب اور معاند یہود و نصاریٰ سے ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس کا قول ہے پہلی تقریر پر مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کس طرح سرپرستی فرمائے گا اور بھلا ان کو کس طرح ہدایت دے گا ۔ جنہوں نے دل سے ایمان قبول کیا اور زبان سے اس امر کا اقرار کیا کہ بیشک یہ رسول برحق ہے اور ان کو ہر قسم کے دلائل قرآنیہ سے بھی آگاہی ہوچکی ہے اور باوجود حضرت حق کی ان تمام مہربانیوں اور ہدایت نوازیوں کے پھر وہ کافر ہوگئے اور کفار سے جا ملے اور اللہ تعالیٰ ایسے ستم شعاروں کی رہنمائی نہیں فرمایا کرتا اور ایسے لوگوں کو فلاح و نجات کا راستہ نہیں دکھاتا ۔ دوسری تقریر پر مطلب اس طرح ہوگا ۔ بھلا اللہ تعالیٰ ایسے معاند اور سرکشوں کو ہدایت کی توفیق کس طرح دے گا جن کی حالت یہ ہے کہ آپس میں بیٹھ کر اپنی قلبی یقین کا اظہار کرتے ہیں اور زبان سے بھی کہتے ہیں کہ یہ رسول سچا ہے اور ان کے پاس اسلام کی صداقت کے دلائل بھی آ چکے ہیں بلکہ یہ اس رسول کے آنے سے پہلے اس کا نام لے کر دشمنوں کے مقابلہ میں فتح کی دعائیں کیا کرتے تھے اس رسول کی بشارتوں سے ان لوگوں کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور باوجود آنکھوں سے دیکھنے اور دل سے سمجھنے اور زبان سے اقرار کرنے کے پھر کفر کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں تو ایسے ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں کو فلاح دائمی اور نجات حقیقی کی ہدایت و رہنمائی کی کوئی ذمہ داری کس طرح کی جاسکتی ہے۔ غرض قلبی معرفت اور زبانی اقرار کے باوجود کفر پر اڑے رہنا یا اس سے بڑھ کر یہ کہ اسلام قبول کرلینے کے بعد مرتد ہوجانا یہ ایسے جرائم ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی توفیق ہدایت ان سے سلب ہوجاتی ہے اور یہ لوگ دائمی عذاب اور دائمی لعنت کے مستحق ہوجاتے ہیں ، چناچہ آگے اسی لعنت و عذاب کا ذکر فرماتے ہیں۔ ( تسہیل)
Top