Urwatul-Wusqaa - Ash-Sharh : 7
وَ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ مِیْثَاقَهُ الَّذِیْ وَاثَقَكُمْ بِهٖۤ١ۙ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١٘ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
وَاذْكُرُوْا : اور یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : تم پر (اپنے اوپر) وَمِيْثَاقَهُ : اور اس کا عہد الَّذِيْ : جو وَاثَقَكُمْ : تم نے باندھا بِهٖٓ : اس سے اِذْ قُلْتُمْ : جب تم نے کہا سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَاَطَعْنَا : اور ہم نے مانا وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور اللہ سے ڈرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ : بات الصُّدُوْرِ : دلوں کی
اور دیکھو اللہ نے جو تم پر انعام کیا ہے اس کی یاد سے غافل نہ ہو اور اس کا عہد و پیمان نہ بھولو جو وہ مضبوطی کے ساتھ تم سے ٹھہرا چکا ہے جب تم نے کہا تھا کہ اے اللہ ! ہم نے تیرا فرمان سنا اور ہم نے اسے قبول کیا اور اللہ سے ڈرتے رہو جو کچھ بھی تمہارے سینوں میں چھپا ہوتا ہے وہ اسے پوری طرح جانتا ہے
انعام الٰہی کو یاد رکھو اور اپنے مضبوطء سے باندھے ہوئے عہد و پیمان کو مت بھولو : 51: اللہ تعالیٰ نے انسان پر اپنے انعامات کی اس قدر بارش برسائی ہے کہ اگر کوئی انسان ان کو گننا چاہے تو گن نہیں سکتا۔ قرآن کریم میں بھی دوسری جگہ یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ : اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو ہرگز شمار نہیں کر پاؤ گے۔ اس جگہ کونسی نعمت کا ذکر فرمایا گیا جس پر یہ تلقین بھی کی گئی ہے کہ اس نعمت الٰہی کو یاد رکھو عقل سلیم اس طرف راہنمائی کرتی ہے کہ اس نعمت سے مراد نبی اعظم و آخر ﷺ کا وجود اقدس ہے اس لیے کہ ساری دنیا کے لیے اور خصوصاً مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی ساری نعمتوں سے اعلیٰ وارفع نعمت آپ ہیں۔ آپ کے وجود اقدس پر قرآن کریم نازل ہوا اور آپ ہی کی ذات سے ہم کو اسلام جیسی نعمت سے نوازا گیا۔ اس لیے اس نعمت عظمیٰ کو یاد رکھنے کی ہدایت فرمائی کہ اس نعمت کو یاد رکھنے ہی سے منعم حقیقی کی طرف توجہ مبذول ہو سکتی تھی کیونکہ جتنی بڑی نعمت ہوگی اتنی ہی بڑا منعم کا احسان ہوگا اور قرآن کریم نے دوسری جگہ اس احسان کا ذکر فرمایا ہے۔ چناچہ ارشاد ہے کہ : لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ (آل عمران 3 : 164) بلاشبہ اللہ کا مؤمنوں پر بڑا ہی احسان ہے کہ اس نے ایک رسول ان میں بھیج دیا جو انہی میں سے ہے۔ تم نے کہا تھا کہ ہم نے اللہ کا فرمان سنا اور اس کو دل و جان سے قبول کیا : 52: قرآن کریم کے الفاظ انہی عہد و پیمان کی طرف توجہ دلاتے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ فرمایا گیا کہ تم نے پیغمبر کے سامنے ” سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَاٞ “ کہہ کر ان عہد کی ذمہ داری اٹھائی تھی اور اللہ نے تمہارے لئے دنیا وآخرت کی کامرانیوں کے جو وعدے فرمائے ہیں وہ بھی انہی میثاق پر منحصر ہیں اگر تم نے ان کو توڑا تو اس کی سزا بڑی ہی سخت ہوگی۔ یہ عہد و پیمان کس نے لئے تھے ظاہر ہے کہ نبی اعظیم و آخر پیغمبر ﷺ نے بنفس نفیس لئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اہتمام شان کے اظہار کے لئے انہی منسوب اپنی ہی جانب فرمایا اور قرآن کریم کا اسلوب بیان اس طرح ہے اور ویسے بھی اللہ کی رضا کا ہر کام اللہ ہی کا ہوتا ہے اگرچہ اس کے بظاہر کرنے والے عام انسان ہوں۔ عہد شکنی مت کرو اللہ سے ڈرتے رہو کہ کہیں اس کے قانون کی گرفت میں نہ آجاؤ : 53: حقیقت کے استحضار سے تعمیل احکام میں اخلاص کا پیدا ہوجانا لازمی امر ہے ورنہ عمل بلا اخلاص ہے تو محض مشقت ہی مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ اللہ کا ڈر کیا ہے ؟ یہی کہ اس کے احکام کی مخالفت سے بچا جائے کیونکہ احکام کی خلاف ورزی ہوگی تو اس کے قانون کا شکنجہ قانون شکنوں پر کس دیا جائے۔ اس طرح گویا پہلے یہ بتایا تھا کہ تعمیل احکام میں نفع تمہارا ہی ہے ۔ تمہاری اپنی ہی خیر خواہی کا تقاضایہ ہے کہ ان احکام پر عمل کرتیے رہو اب یاد دلا دیا کہ تم عہدو معاہدہ بھی تو کرچکے ہو اب اخلاقی قرض ان معاہدوں کو پورا کرنا ہے اس طرح ” واتقوا للہ “ میں اشارتًا یہ بتایا جا رہا ہے کہ مخالفت و عدم تعمیل میں ضرر بھی تمہارا ہی ہے۔
Top