Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 86
كَیْفَ یَهْدِی اللّٰهُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ وَ شَهِدُوْۤا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّ جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
كَيْفَ : کیونکر يَهْدِي : ہدایت دے گا اللّٰهُ : اللہ قَوْمًا كَفَرُوْا : ایسے لوگ جو کافر ہوگئے بَعْدَ : بعد اِيْمَانِهِمْ : ان کا (اپنا) ایمان وَشَهِدُوْٓا : اور انہوں نے گواہی دی اَنَّ : کہ الرَّسُوْلَ : رسول حَقٌّ : سچے وَّجَآءَ : اور آئیں ھُمُ : ان الْبَيِّنٰتُ : کھلی نشانیاں وَاللّٰهُ : اور اللہ لَايَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اللہ کس طرح راہ بتلائے گا اس قوم کو جنہوں نے کفر کیا ایمان کے پیچھے۔ اور انہوں نے گواہی دی کہ بیشک رسول برحق ہے۔ اور ان کے پاس کھلی نشانیاں آئیں اور اللہ نہیں راہ دکھاتا اس قوم کو جو ظلم کرنے والی ہو۔
ربط آیات : گذشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے حنیفیت کی تشریح بیان فرمائی تھی۔ اور اسلام کی حقانیت کا تذکرہ کیا تھا۔ اور فرمایا تھا کہ اللہ کے ہاں اسلام کے سوا کوئی دین قابل قبول نہیں ہے۔ جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کا طالب ہوگا ، اس سے وہ چیز قبول نہیں کی جائے گی اور ایسا شخص ہرگز کامیاب نہیں ہوگا۔ خاص طور پر آخرت میں تو وہ جہنم کا مستحق ہو کر سراسر نقصان اٹھائے گا۔ اب آج کے درس میں اسلام کے بعد کفر کرنے والوں کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ اور واضح کیا گیا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت کی توفیق نہیں دے گا۔ اور نہ ہی ان کی توبہ قبول کی جائیگی وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ آخرت کا مدار اسلام پر ہے : حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں اس طرح کے الفاظ آتے ہیں کہ قیامت کے دن مختلف نیکیاں اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں گی ، مثلاً نماز حاضر ہو کر عرض کرے گی۔ پروردگار ! میں نماز ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے۔ انت علی خیر۔ تم بہتری پر ہو۔ یعنی تمہارا بدلہ اچھا ہوگا۔ پھر صدقہ آئے گا اور عرض کرے گا ، مولا کریم ! میں صدقہ ہوں۔ اللہ جل شانہ فرمائیں گے ، تمہارا بدلہ بھی اچھا ہے۔ تم بھی بہتری پر ہو۔ جس شخص نے دنیا میں صدقہ کیا ہوگا۔ اسے یقینا اس کا اچھا بدلہ ملے گا۔ اس کے بعد روزہ آئے گا۔ اور عرض کرے گا۔ انا الصوم۔ اے اللہ ! میں روزہ ہوں۔ اللہ فرمائے گا۔ تم بھی بہتری پر ہو۔ پھر اسلام آئے گا اور عرض کرے گا اے پروردگار ! انت السلام و انا الاسلام۔ تو سلام یعنی سلامتی والا یا سلامتی دینے والا ہے (یہ اللہ تعالیٰ کا اسم پاک ہے) اور میں اسلام ہوں یعنی مجسم فرمانبرداری ہوں میں اطاعت ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، ہاں ٹھیک ہے۔ بک اعطی و بک اخذ ۔ آج میں تیری وجہ سے ہی دوں گا اور تیری وجہ سے مواخذہ کروں گا۔ آج سارا دارومدار اس بات پر ہے کہ جس نے اسلام قبول کیا ہے ، اس کو اچھا بدلہ ملے گا۔ آج سارا دارومدار اس بات پر ہے کہ جس نے اسلام قبول کیا ہے ، اس کو اچھا بدلہ ملے گا۔ اور جس نے اسلام سے روگردانی کی ، اس کا مواخذہ ہوگا۔ کہ تم نے اسلام کو کیوں نہ قبول کیا۔ شان نزول : ان آیات کی شان نزول میں مختلف روایات آتی ہیں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت میں آتا ہے کہ انصار مدینہ میں سے کوئی شخص اسلام قبول کرنے کے بعد پھر گیا۔ مگر بعد میں اس پر نادم ہوا تاہم بعض شخص ایسے بھی تھے جو اسلام کو ترک کرنے کے بعد کفر پر اڑے رہے ، منجملہ ان کے ، بشیر ، منافق کا ذکر آتا ہے جو مرتد ہو کر مشرکین مکہ سے جا ملا۔ یہ شخص اسلام اور اہل اسلام کی سخت مخالفت کرتا رہا اس طرح ابن خطل کے متعلق آتا ہے۔ کہ اسلام لانے کے بعد اس کو حضور ﷺ نے صدقات کی وصولی کے لیے کسی جگہ بھیجا۔ راستے میں خدمت کے لیے ایک خادم بھی ہمراہ بھیجا۔ دوران سفر اس خادم نے کھانا تیار کرنے میں دیر کردی تو اس ظالم نے اس کو قتل کردیا۔ ظاہر ہے کہ قتل ناحق کے جرم میں اس کے خلاف مقدمہ قائم ہوتا ، پھر یا تو وہ قصاص میں قتل کیا جاتا یا دیت پر فیصلہ ہوجاتا اور آخرت کی سزا سے بچ جاتا۔ مگر اس نے دنیا کی سزا قبول کرنے کی بجائے اسلام کو ترک کردیا اور مرتد ہو کر کفار مکہ سے جا ملا۔ وہاں پر اس نے عیش و عشرت کی زندگی گزارنا شروع کردی۔ اس کے پاس لونڈیاں تھیں۔ رقص و سرود کی محفلیں گرم ہوتیں جن میں اسلام کی توہین اور اللہ کے رسول کی شان میں گستاخی کی جاتی۔ حضور ﷺ نے ابن خطل سمیت چار آدمیوں کے متعلق حکم دے رکھا تھا کہ یہ جہاں بھی ملیں قتل کردیے جائیں۔ میں حضور ﷺ دس ہزار قدسیوں کی جماعت کے ساتھ فتح مکہ کے لیے تشریف لائے۔ تو ابن خطل نے بیت اللہ شریف کے پردے پکڑ کر امان چاہی۔ حضور ﷺ کو خبر ملی تو اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا چناچہ اس بدبخت کو مقام ابراہیم اور حجر اسود کے درمیان قتل کردیا گیا۔ غرضیکہ یہ ان لوگوں میں سے تھا جو مرتد ہونے کے بعد کفر میں اور زیادہ بڑھ گئے۔ ان آیات میں ایسے ہی لوگوں کا تذکرہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت میں یہ بھی آتا ہے۔ کہ مدینہ طیبہ کے اطراف میں رہنے والے دس یہودی اسلام میں داخل ہوئے مگر بعد میں مرتد ہوگئے یہ آیات ان کے متعلق نازل ہوئیں۔ یہودیوں کی سازش کا تذکرہ اسی سورة میں آ چکا ہے۔ کہ وہ آپس میں منصوبہ بناتے تھے۔ کہ دن کے پہلے حصے میں مسلمان ہوجاؤ۔ اور پھر آخری حصے میں اسلام کو ترک کردو۔ اس طرح وہ لوگ بھی اسلام سے بد ظن ہوجائیں گے جو اسلام لا چکے ہیں۔ دوسری طرف یہود کا تعصب بھی اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا کہ حضور خاتم النبیین ﷺ کی بعثت سے پہلے یہ لوگ آخری نبی کے منتظر تھے۔ اور کہتے تھے کہ ہم اس نبی کا ساتھ دیں گے اور اس کے ساتھ مل کر کفار و مشرکین کا مقابلہ کریں گے اور ان پر غلبہ حاصل کریں گے۔ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ وکانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا۔ نبی آخر الزماں کے آنے سے پہلے کافروں کے مقابلے میں فتح کی دعائیں کیا کرتے تھے۔ کہ اے اللہ ! اپنے آخری نبی کو مبعوث فرما تاکہ ہم اس کے ساتھ مل کر کافروں پر فتح حاصل کریں۔ مگر اللہ نے فرمایا۔ فلما جاءھم ما عرفوا کفروا بہ فلعنۃ اللہ علی الکفرین۔ جب وہ نبی برحق آگیا۔ اور ان بدبختوں نے اسے پہچان بھی لیا ، تو انکار کردیا۔ پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہو۔ بعثت رسول کی پیش گوئیاں : نبی آخر الزمان (علیہ السلام) کی بعثت کے متعلق سابقہ کتب میں پیشین گوئیاں موجود ہیں۔ بائیبل میں اعمال رسل کے باب میں یہ آیت موجود ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کے باپ دادوں سے کہا۔ خداوند جو تمہارا خدا ہے ، وہ تمہارے بھائیوں میں تمہارے لیے ایک نبی میری مانند اٹھائیگا۔ جو کچھ وہ تمہیں کہے ، تم سب اس کو سنو۔ یہ آیت شیخ الاسلام نے حاشیہ میں نقل کی ہے۔ حضور ﷺ کے متعلق عیسیٰ (علیہ السلام) نے تو نہایت تاکید کے ساتھ کہا تھا کہ وہ میرے بعد آنیوالا ہے مگر جب وہ آگیا اور انہوں نے پہچان بھی لیا تو صاف انکار کرگئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہود سمجھتے تھے کہ آسمانی ہدایت صرف ان کے لیے مخصوص ہے قرآن پاک میں موجود ہے۔ قالوا لن یدخل الجنۃ الا من کان ھودا او نصری۔ وہ کہتے تھے۔ کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے علاوہ دوسرا کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔ وہ اس زعم میں مبتلا تھے کہ دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں انہی کے لیے مخصوص ہیں۔ مگر جب وہ نبی آخر الزماں تشریف لے آئے اور اعلان فرما دیا۔ یا ایہا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، تو اہل کتاب ضد اور حسد میں مبتلا ہوگئے۔ انہوں نے عناد اور کفر کا اظہار کیا۔ آنحضرت ﷺ کے متعلق نشانیوں کو مٹانے کی کوشش کی اور آپ کے متعلق پیشین گوئیوں کو خلط ملط کردیا ، اس طرح یہ لوگ خاتم المرسلین ﷺ کے انکار میں آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ ظالم ہدایت سے محروم ہیں : ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا۔ کیف یھدی اللہ قوما۔ اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو کیسے ہدایت دے گا۔ کفروا بعد ایمانہم۔ جنہوں نے اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کیا۔ وشھدوا ان الرسول حق۔ اور گواہی بھی دی کہ بیشک خدا کا رسول برحق ہے۔ وجاءھم البینت۔ اور ان کے پاس واضح اور کھلی کھلی نشانیاں بھی آگئیں۔ یاد رکھو ! جب تک کوئی قوم ظلم و ستم کرتی رہے گی۔ واللہ لا یھدی القوم الظلمین۔ اللہ ایسی قوم کو ہدایت نصیب نہیں کریں گے۔ راہ راست کے لیے تو شرط ہے کہ انسان اپنی غلطی یا ظالم کو ترک کردے اور خلوص دل سے ہدایت کا طالب ہو ، تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے ہدایت کا راستہ کھول دے گا۔ مگر یہ لوگ تو بدنیت اور بدکردار ہیں۔ اولئک جزاءھم ان علیھم لعنۃ اللہ۔ ان کا بدلہ تو یہ ہے۔ کہ ان پر خدا کی پھٹکار ہے اور لعنت ہے۔ لعنت کا معنی خدا کی رحمت سے دوری ہے۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا ہے۔ اور پھر یہ کہ والملئکۃ اللہ کے فرشتے بھی ان پر لعنت اور پھٹکار کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ رسول کی آمد سے پہلے ان کو مانتے تھے۔ مگر جب وہ آگئے تو انہوں نے ضد اور عناد کی وجہ سے ان کا انکار کردیا۔ اور جن لوگوں کا خاتمہ کفر پر ہوتا ہے۔ والناس اجمعین۔ ان پر ساری مخلوق بھی لعنت بھیجتی ہے۔ اور اس لعنت کا ثمرہ یہ ہوگا۔ خلدین فیھا۔ وہ اس لعنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گرفتار رہیں گے۔ لا یخفف عنھم العذاب۔ نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہوگی۔ ولاھم ینظرون۔ اور نہ انہیں مہلت ملے گی۔ ان کو اپنی اصلاح کرنے یا اللہ تعالیٰ کو منانے کا کوئی موقع نہیں دیا جائیگا۔ قبولیت توبہ : فرمایا۔ الا الذین تابوا من بعد ذلک۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی توبہ کرلے گا تو باب التوبۃ مفتوح۔ اس کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے مطلب یہ کہ مرتد ہونے کے بعد بھی اگر کوئی سچے دل سے توبہ کرے گا ، تو وہ قبول ہوسکتی ہے۔ جب تک سورج مشرق کی بجائے مغرب کی طرف سے طلوع نہیں ہوتا ، توبہ قبول ہوگی ، انسان خواہ کتنا بھی گنہگار ہو۔ پھر یہ ہے کہ توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ۔ واصلحوا۔ اصلاح بھی کرلیں اور نیک اعمال انجام دیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں۔ کہ اصلحوا میں یہ بات بھی شامل ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کیا جائے۔ اگر اللہ کے حقوق یعنی فرائض منجملہ نماز ، روزہ وغیرہ قضا ہوا ہے۔ تو اس کو ادا کیا جائے اور اگر بندوں کے حقوق ضائع ہوئے ہیں تو پہلے انہیں ادا کیا جائے یا بندوں سے معاف کرایا جائے۔ اس کے بغیر توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اور پھر یہ بھی ضروری ہے ، جو غلطی ہوئی ہے ، اس کا اعادہ نہ کیا جائے۔ اگر ان شرائط پر پورا اترا ، تو توبہ قبول ہوگی ، فان اللہ غفور رحیم۔ پس بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ اس کی رحمت بڑی وسیع ہے۔ جب اس کی رحمت جوش میں آتی ہے ، تو سچے دل سے تائب کی سابقہ برائیاں نیکیوں میں تبدیل کردیتا ہے۔ عدم قبولیت توبہ : فرمایا۔ ان الذین کفروا بعد ایمانہم۔ جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا۔ ثم ازدادوا کفرا۔ پھر وہ کفر میں بڑھتے چلے گئے۔ لن تقبل توبتھم۔ ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں توبہ کی توفیق ہی نصیب نہیں ہوگی۔ ورنہ تو بہ کا عام اصول یہ ہے۔ کہ جب تک انسان کے ہوش و حواس قائم ہیں اور اس پر غرغرے کی حالت طاری نہیں ہوتی ، اس کی توبہ قبول ہوتی ہے۔ ہاں ! الذین یعملون السیئت۔ جو لوگ برائیوں کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔ حتی کہ موت نظر آجاتی ہے۔ ان کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ جب موت کے فرشتے نظر آنے لگیں ، غیب کا پردہ اٹھ جائے تو پھر توبہ کا دروازہ بھی بند ہوجاتا ہے۔ توبہ کی عدم قبولیت کا یہی معنی ہے۔ فرمایا واولئک ھم الضالون۔ یہی لوگ گمراہ ہیں۔ انہیں توبہ کی توفیق ہی نصیب نہیں ہوئی۔ فدیہ کام نہ آئے گا : فرمایا یاد رکھو۔ ان الذین کفروا وماتوا وھم کفار۔ جن لوگوں نے کفر کیا اور پھر کفر کی حالت میں ہی ان کی موت واقع ہوئی ، تو پھر ان کی حالت یہ ہوگی۔ فلن یقبل من احدھم ملء الارض زھبا ولوا فتدی بہ۔ کہ ان میں سے اگر کوئی شخص سونے سے بھری ہوئی زمین بھی فدیہ میں دینا چاہے گا ، تو اس سے قبول نہیں کی جائے گی۔ اول تو یہ بات ویسے ہی محال ہے۔ کہ قیامت کے دن کسی شخص کی ملیکیت میں زمین بھر سونا ہو اور وہ اسے اپنی جان کی خلاصی کے لیے دینا چاہے۔ تاہم اگر ایسا ہو بھی جائے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ حدیث شریف میں آتا ہے۔ قیامت کے روز ایک شہید شخص کو اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا جائیگا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، تمہارا ٹھکانا کیسا ہے۔ عرض کرے گا ، مولا کریم ! بہت ہی بہترین ٹھکانا ہے۔ اللہ فرمائے گا ، کوئی اور خواہش ہے تو بتاؤ۔ وہ عرض کرے گا ، الہی ! مجھے دوبارہ دنیا میں جانے کی اجازت دی جائے تاکہ میں پھر تیرے راستے میں لڑتا ہوا شہید ہوجاؤں۔ اللہ فرمائے گا۔ اس بات کی اجازت نہیں۔ پھر ایک کافر کو لایا جائے گا۔ اس سے بھی وہی سوال ہوگا ، کہ تمہارا ٹھکانا کیسا ہے۔ عرض کرے گا۔ شر مکانا۔ بہت برا ٹھکانا ہے۔ اللہ فرمائے گا۔ اگر ساری زمین سونے سے بھری ہوئی تیرے قبضے میں ہو ، تو کیا تو اپنی جان کا فدیہ دینے کے لیے تیار ہے۔ عرض کرے گا ، پروردگار میں بالکل تیار ہوں ، اللہ فرمائیگا ، تو جھوٹٓ ہے۔ میں نے تم سے ایک معمولی سا مطالبہ کیا تھا کہ مجھے وحدہ لاشریک مان لو ، اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ یہ کون سی مشکل بات تھی۔ مگر تم نے نہ مانا اور کفر کا راستہ اختیار کیا۔ آج زمین بھر سونا فدیہ دینا چاہتے ہو ، مگر یہ بھی قبول نہیں ہوگا۔ فرمایا۔ اولئک لھم عذاب الیم۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ کیونکہ انہوں نے عذاب کے تمام زہریلے مادے اپنے اندر جمع کر رکھے ہیں۔ انہیں نہایت ہی دکھ دینے والا عذاب پہنچتا رہے گا۔ وما لھم من نصرین۔ ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ دنیا میں تو انسان لاکھوں حیلے بہانے اختیار کرلیتا ہے۔ کہیں افرادی قوت میسر آجاتی ہے۔ کہیں رشوت اور سفارش کام کرجاتی ہے۔ مگر قیامت کے دن اس قسم کا کوئی حیلہ کارگر نہ ہوگا۔ کفر کرنے والے بےبس ہوجائیں گے۔ اور ابدی سزا کے مستحق ٹھہریں گے۔
Top