Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 19
كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ١ۙ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا١ۚ فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
كَدَاْبِ : جیسے۔ معاملہ اٰلِ فِرْعَوْنَ : فرعون والے وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو کہ مِنْ قَبْلِهِمْ : سے۔ ان سے پہلے كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَاَخَذَھُمُ : سو انہیں پکڑا اللّٰهُ : اللہ بِذُنُوْبِهِمْ : ان کے گناہوں پر وَاللّٰهُ : اور اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
ان لوگوں کا بھی وہی حال ہے جو فرعون کے گروہ کا تھا جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں ، انہوں نے اللہ کی نشانیاں جھٹلائیں تو اللہ نے انہیں پکڑ لیا اور یاد رکھو کہ وہ بہت ہی سخت سزا دینے والا ہے
موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں قوم فرعون تھی اور آپ ﷺ کے مقابلہ میں اہل کتاب : 28: ” داب “ کے اصل معنی ہیں کہ کوشش اتنی کی کہ کوشش کر کر کے تھک گئے۔ یہاں مراد ہے ان کا کفر میں سخت زور لگانا اور پیغمبر اسلام ﷺ کے مقابلہ یا مخالفت میں ایک دوسرے کے مددگار بننا۔ جیسا کہ فرعون کے لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ یا مخالفت میں ایک دوسرے کے مددگار ہوئے تھے۔ پھر فرمایا کہ فرعون وران کے لوگوں نے بھی تو موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف وہی کچھ کیا تھا جو اس سے بھی پہلی قوموں کے لوگ اپنے اپنے نبی کے ساتھ کرتے آرہے تھے۔ ان سب نے کیا کیا تھا ؟ یہی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی تعلیم کو ٹھکرا دیا وقت کے نبی اور اس پر نازل شدہ آیات کریمات کو جھٹلایا اور آج یہی کام خود بنی اسرائیل کے دونوں گروہ یعنی یہودو نصاریٰ اسلام اور بانی اسلام محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کر رہے ہیں۔ پھر ان کو یہ بھی تو یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح ان لوگوں کو اللہ نے عذاب میں مبتلا کیا یعنی فرعون اور اس کے لاؤلشکر کو اور پہلی قوموں کے رؤسا اور مترفین کو بالکل اسی طرح ان کو بھی پکڑ لیا جائے گا جو اس نبی امی ﷺ کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے ہیں اس لیے کہ اللہ کی طرف سے جب پکڑ آتی ہے تو وہ بھی اتنی ہی سخت ہوتی ہے جتنی کہ اس نے پہلے ڈھیل دے رکھی تھی۔ گناہ سے یہاں وہی گناہ مراد ہیں جو ان سے سرزد ہوئے بلکہ انہوں نے جان بوجھ کر کئے : 29: ” ذنوب “ جمع ہے ذنب کی اور اس کے معنی بہت وسیع ہیں دراصل یہ ہر ایک اس فعل پر استعمال ہوتا ہے جس کا انجام ناگوار اور گراں ہو۔ جس طرح ” اثم “ ہر ایک فعل کا نام ہے جو ثواب سے انسان کو روکتا ہے اور ” ذنب “ کے منی الزام کے بھی ہوتے ہیں۔ جو فرق ملزم اور مجرم میں ہے وہ سب پر واضح ہے کہ ملزم بعض اوقات مجرم نہیں ہوتا اس پر فقط ایک الزام ہوتا ہے جو دلائل وبراہین سے رفع بھی ہو سکتا ہے اور مجرم جرم کا مرتکب ہوتا ہے جو جرم سے بری نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ” ذنب “ کی نسبت نیک اور بد دونوں کی طرف ہو سکتی ہے۔ چونکہ ” ذنب “ کے معنی دم اور پچھلے حصہ کے بھی ہوتے ہیں اس لیے ” ذنب “ کبھی اس گناہ بھی بولا جاتا ہے جو کی انسان کے پیچھے دب کی طرح لگا دیے جاتے ہیں جس طرح پراپیگنڈہ کرنے والے فرضی دلائل دے کر کی کی ذات کو مجروح کردیتے ہیں حالانکہ وہ شخص اس فعل کا مرتکب نہیں ہوتا بالکل اسی طرح بعض نیک لوگوں کے پیچھے بھی بدبخت لوگ کچھ ایسے الزام لگا دیتے ہیں جن کے وہ بالکل مرتکب نہیں ہوتے اور آج کل یہ مرض عام ہے اس لیے زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں۔ اس جگہ وہ گناہ مراد ہیں جن کے وہ لوگ مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ ان ” ذنب “ کا نتیجہ یہ بات واضح کر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اندھیر تو نہیں ہے کسی نے ایک گناہ نہ کیا ہو اور اللہ اس کی سزا دے دے۔ ہاں لوگوں کی طرف سے کوئی سزا ہوتی تو ممکن تھا۔ یہاں الفاظ خود اس کی وضاحت کر رہے ہیں کہ وہ لوگ ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور بار بار ہوئے ہیں اروان کو کافی مدت تک ڈھیل دی جاتی رہی ہے لیکن انجام کار جب وہ ان گناہوں سے باز نہیں ہوئے بلکہ روز افزوں ترقی ہی کرتے گئے تو آخر کار قانون الٰہی کے مطابق اپنے وقت پر اللہ نے ان پر گرفت کرلی اور اللہ کی گرفت جب آتی ہے تو کوئی اس کو نہ تو روک سکتا ہے اور نہ ہی ٹال سکتا ہے مگر وہ خود ہی۔
Top