Urwatul-Wusqaa - At-Taghaabun : 3
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَ صَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ١ۚ وَ اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ : اس نے پیدا کیا آسمانوں کو وَ : اور الْاَرْضَ : زمین کو بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَصَوَّرَكُمْ : اور صورت بنائی تمہاری فَاَحْسَنَ : تو اچھی بنائیں صُوَرَكُمْ : صورتیں تمہاری وَاِلَيْهِ الْمَصِيْرُ : اور اسی کی طرف لوٹنا ہے
اس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا اور اس نے تمہاری صورتیں بنائیں پھر کیسی اچھی صورتیں بنائیں اور اس کی طرف (بالآخر تم کو) لوٹ کر جانا ہے
اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور انسانوں کو جو شکل و صورت دی وہ بہت خوب دی 3 ؎ آسمان و زمین کو اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ پیدا کیا ، کیا مطلب ؟ یہ تفہیم کرانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور جو ان کے اندر ہے یا اوپر اور نیچے سب کا سب اللہ نے اسی طرح پیدا کیا جس طرح کہ اس کو پیدا کرنا چاہئے تھا اور کسی چیز کو ناحق پیدا نہیں کیا ۔ یعنی ایسا نہیں بنایا کہ اس کے متعلق کوئی شخص کہہ سکے کہ اگر اس کو اس طرح نہ بنایا ہوتا تو اس کا یہ فائدہ ہوتا گویا اس میں کمی بیشی کو ثابت نہیں کرسکتا ۔ آپ کائنات کی کسی چھوٹی یا بڑی چیز پر اس طرح غور کریں کہ اس میں آپ کوئی نقص نکال سکیں کہ اگر اس کو اس طرح بنایا جاتا تو اس کا یہ فائدہ ہوتا ، اس طرح نہیں بنایا گیا تو اس میں یہ نقص باقی رہ گیا ہے۔ انسان جتنا بھی غور و فکر کرے اس طرح کا کوئی نقص وہ اللہ تعالیٰ کی کسی مخلوق میں نہیں نکال سکتا ۔ مثل ہے کہ کوئی شخص اس طرح اپنی فکر دوڑا رہا تھا تو اس کے اندر خیال پیدا ہوا کہ کہتے ہیں کہ اللہ کی کسی چیز میں کوئی نقص نہیں ہے ، نہیں ہوگا لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اس پیڑ پر جس کے نیچے میں سویا ہوا ہوں اتنا بڑا پیڑ ہونے کے باوجود یہ چھٹانک دو چھٹانک ہی کا پھل لگایا گیا ہے اور یہ ساتھ کدو کی بیل کو دیکھو کہ ایک ایک دو دو کلو کے پھل لٹک رہے ہیں جس سے وہ بیل ان پھلوں کو سہار بھی نہیں سکتی ۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ کسی جانور نے اوپر سے اسی پیڑ کا پھل توڑ کر پھینک دیا جو سیدھا اسی فلسفی کے سر پر آ لگا بس لگتے ہی فلسفی صاحب کی چیخ نکل گئی کہ بلا شبہ وہ مالک حقیقی ہے اور جو کچھ اس نے بتایا ہے حق کے ساتھ بنایا ہے اگر اس پیڑ پر اس بیل کے پھل کے برابر پھل لگا ہوتاتو نہ میں باقی رہتا نہ میرا سر ۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم ۔ پس ہر ایک چیز کو اسی طرح پیدا فرمایا جس طرح اس کو پیدا کرنا چاہئے تھا ۔ اس بات کی تفہیم کے لے یہ الفاظ اختیار کیے گئے تاکہ یہ بات آپ پر واضح ہوجائے کہ رب کریم نے ہرچیز کو اسی طرح بنایا جس طرح اس کو بنانا چاہئے تھا تاکہ وہ اپنی تخلیق کے مقاصد کو صحیح طریقہ سے انجام دے سکے ۔ کائنات کی کسی چھوٹی یا بڑی چیز میں بھی آپ غور کریں تو آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسے ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ چیونٹی کا ننھا سا جسم ، اس کی باریک باریک ٹانگیں اور اس کے بقیہ جسم کی ساخت ایسی ہی ہونی چاہئے تھی جیسے ہے اور اس کے مقابلہ میں ہاتھی کا بھاری کم جثہ ، اس کی موٹی موٹی مضبوط ٹانگیں ، اس کے چوڑے چوڑے کان اور اس کی لمبی سوراخ دار سونڈ ایسی ہی ہونی چاہئے تھی جیسے ہے۔ ہوا میں جو خوبیاں ہیں اور پانی کی جو خصوصیتیں ہیں ان میں رد و بدل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ۔ جو بنایا ہے ، جیسے بنایا ہے وہی حق اور درست ہے۔ اس میں رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی بڑے سے بڑا انجینئر (Engineer) تبدیلی نہیں کرسکتا ۔ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تخلیق کے شاہکار حضرت انسان کا خصوصی طور پر ذکر فرمایا ہے کہ دیکھو ہم نے اسے بنایا ہے اور کتنا ہی خوبصورت بنایا ہے۔ اس کے پائوں سے لے کر سر تک ، انگلیوں کے پوروں سے لے کر بھاری بھاری کندھوں تک نظر دوڑائو ، اس کی قدو قیامت ، اسکے ہاتھ اور بازو کتنے مناسب ہیں ۔ اگر پانچ کی بجائے ہاتھ میں سات انگلیاں ہوتیں تو کیا ہوتا ؟ کیا وہ کام اس خوبی سے انجام دے سکتا جس خوبی سے وہ اب دے رہا ہے ؟ اگر اب سمجھ میں نہیں آتا تو کسی چھانگلے کو دیکھو ، کسی دو انگلیاں کٹے پر نگاہ ڈال لو تم کو حقیقت معلوم ہوجائے گی اب اگر تم (فتبارک اللہ احسن الخالقین) کو تسلیم نہ کرو تو تمہاری مرضی ۔ ذرا غور تو کرو کہ انسان چیز کیا ہے ؟ ہاں ! ہاں ! اس آسمان کے مقابلہ میں ، زمین کے مقابلہ میں ، سورج ، چاند اور ستاروں کے مقابلہ میں ، ان دریائوں اور پہاڑوں کے مقابلہ میں پھر غور کرو کہ اس نے ان سب کو مسخر کیا ہے یا ان بڑی بڑی مخلوق میں سے بھی کوئی اس کی اپنی ہیبت سے ڈرا سکی ۔ ستاروں پر کمندیں ڈالیں تو کس نے ؟ پہاڑوں کی سر بفلک چوٹیاں سر کیں تو کس نے ؟ دریائوں کو چیرا اور پھاڑا تو کس نے ؟ ہاں ! ہاں ! ( سدرۃ المنتھیٰ ) تک پہنچا تو کون ؟ کوئی چاہے جتنی عقل دوڑالے اس کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ساری کائنات کا اگر کوئی ہے تو وہ حضرت انسان ہی ہے اور اگر کسی سے ہیبت چھاتی ہے تو وہ انسان ہی ہے اگر ان ساری چیزوں سے کسی نے فائدہ حاصل کیا ہے تو وہ انسان ہی ہے اگر اس کائنات میں کسی نے ہلچل مچائی ہے تو وہ انسان ہی ہے لیکن جس نے یہ ساری صلاحیتیں پیدا کی ہیں اور جس نے سارے کمال اس چھوٹی سی مشین کے اندر رکھ دیئے ہیں یہ کمال ہے تو اس کا ہے اور انسان سے اوپر اگر کوئی چیز ہے تو وہ اس کا خالق ومالک ہی ہے۔ پھر کیوں نہ کہا جائے کہ تف ہے اس انسان پر جو اپنے سے ہیچ مخلوق کو اپنا خدا اور اپنا رب بنا کر بیٹھ جائے۔ تف ہے ان انسانوں پر جو خود پتھر گھڑیں اور خود ہی ان کے سامنے سجدہ ریزہو جائیں ۔ افسوس ہے ان انسانوں پر جو خود ہی مردوں کو گاڑیں اور ان کی قبریں بنائیں اور پھر ان پر خلاف چڑھا کر ان کے سامنے ہاتھ جوڑنا شروع کردیں اور افسوس ہے ان بد بختوں پر جو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ اور ملک کے صدور بن کر ان قبروں کو عرق گلاب سے غسل دینا شروع کردیں ۔ کیا ان عہدوں پر فاء ہونے کے بعد بھی ان بد بختوں اور انسانیت سے گرے ہوئے بندہ نژادلوگوں کی سمجھ میں نہیں آیا کہ انسانوں کے لیے پرستش کے اگر کوئی قابل ہے تو وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے ، جو اس کائنات کا خالق ہے اور جس کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ سب امیر و وزیر ہیں یا ننگ انسانیت ہیں اور یہ وہی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اندھے ، بہرے اور گونگے کہہ کر ( لا یرجعون) کا فتویٰ صادر فرمایا ہے۔
Top